کشور جہاں زیدی: اپنے وطن کے قلمکاروں کو دنیا سے متعارف کرانے والی قلمکار
جہاں تک کشور جہاں کی ادبی خدمات کے اعتراف اور اعزازات و انعامات کا تعلق ہے تو انہیں اور ان کی کتابوں کو درجنوں ایوارڈز سے نوازہ جا چکا ہے۔
ہر قلمکار ادب کی خدمت کرتا ہے۔ لیکن کچھ قلمکار ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے قلم کے ذریعے ادب کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے وطن کی خدمت بھی کرتے ہیں۔ اپنے وطن کی خدمت کرنے کا ان کا انداز یہ ہوتا ہے کہ اپنے وطن کے ان دانشوروں، شعرا اور ادیبوں سے دنیا کو روشناس اور متعارف کراتے ہیں جو با صلاحیت ہونے کے باوجود گمنامی کے اندھیروں میں گم ہوتے ہیں۔ اردو ادب کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے وطن عزیز کے قلمکاروں کو دنیا کے سامنے پیش کرنے والی ایسی ہی ایک قلمکار ہیں کشور جہاں زیدی۔ کشور جہاں کا تعلق ضلع سنبھل سے ہے۔ اپنے وطن اور ضلع کے ادیبوں سے کشور جہاں کو کتنی عقیدت اور محبت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی بیشتر کتابیں سرسری اور ضلع سنبھل کے ادیبوں اور شعرا کے حالات زندگی اور ادبی خدمات کے حوالے سے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے پی ایچ ڈی کی ٖڈگری بھی سرسی کے ایک شاعر پر تحقیقی مقالہ لکھ کر حاصل کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : نور الحسنین: ہمہ جہت شخصیت کا مالک قلمکار
افسانہ نگار، شاعرہ، محققہ، ترجمہ نگار اور مرتب کشور جہاں زیدی کی ادبی خدمات کے حوالے سے تفصیل سے بات کرنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر، تعلیم و تربیت اور ادبی رجحان کے بارے میں جاننا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ کشور جہاں زیدی ضلع سنبھل کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں 30اگست1953 میں پیدا ہوئیں۔ حالانکہ ان کے والد سید فرزند علی زیدی درس و تدریس کے مقدس پیشے سے وابستہ تھے لیکن کشور جہاں کو تعلیم حاصل کرنے میں بہت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے خاندان میں اس وقت لڑکیوں کی تعلیم صرف خط لکھنے پڑھنے تک محدود تھی۔ ان کے والد خود ٹیچر تھے اچھے اساتذہ میں ان کا شمار ہوتا تھا لیکن لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے میں وہ تحفظات کا شکار تھے۔ اس لئے کشور جہاں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے بہت جدوجہد کرنا پڑی۔ وہ صرف ہائی اسکول تک ہی ریگولر تعلیم حاصل کر سکیں۔ انہیں پرائیویٹ طور سے تعلیم جاری رکھنے کے لئے بھی والدین کی بہت منت سماجت کرنا پڑی۔ پرائیویٹ طور سے انہوں نے انٹر میڈیت بہت اچھے نمبروں سے پاس کیا۔ اسی طرح 1974 میں بی اے کیا۔ آگرہ یونیورسٹی سے 1976 میں ایم اے کیا۔
انہوں نے یہ سوچ کر درس و تدریس کا پیشہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا کہ تعلیم حاصل کرنے میں انہیں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ دوسری لڑکیوں کو نا کرنا پڑے۔ اسی خیال کے تحت انہوں نے 1978 میں بی ایڈ کیا۔ 1997 میں انہوں نے سید سرسوی کی ادبی خدمات پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ یہ تحقیقی مقالہ کتابی شکل میں 2004 میں منظر عام پر آچکا ہے۔ 1981 میں درس و تدریس کے پیشے سے باقاعدہ طور سے وابستہ ہو گئیں۔ان کا تقرر سنبھل کے آزاد گرلز انٹر کالج میں بحیثیت لیکچرار ہو گیا۔ اسی کالج سے وہ سبکدوش بھی ہوئیں۔ انہوں نے ہزاروں لڑکیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ انہیں دوسروں کو تعلیم دیکر دلی مسرت ہوتی ہے۔ کسی لڑکی کو پڑھانے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔
پڑھتے پڑھاتے پتہ نہیں کب وہ افسانے لکھنے لگیں۔ ان کا پہلا افسانہ 'پالنا' دہلی سے نکلنے والے ایک ادبی رسالے میں شائع ہوا۔ اس کے بعد تو ان کے کئی افسانے مختلف جریدوں میں شائع ہو کر مقبول ہوئے۔ سرسی ایک علمی اور ادبی سرزمین ہے۔ یہاں ہر دور میں پایہ کےعلما، ادیب و شعرا رہے ہیں۔ شیخ حاتم جیسی عالم فاضل شخصیت اسی سر زمین کی گود میں پلی بڑھی۔ رئیس العلما علامہ سید محمد سبطین جعفری سرسوی کی علمی، مذہبی اور قلمی خدمات سے کون واقف نہیں ہے۔ ان کے علاوہ کئی اور نامور شعرا اور علما اس بستی نے پیدا کئے۔ ان میں فیلسوف الشعراء علامہ سید سرسوی، حکیم الملک محمد عباس برق سرسوی،علامہ محمد ہادی قائد سرسوی، مولانا عل ہادی جوہر سرسوی، اشرف العلماء مولانا تنویر حسین نجفی، بابائے فلسفہ مولانا ایوب حسین سرسوی اورمولانا حسین الزماں، رضا سرسوی، نیر سرسوی، تسکین زیدی سرسوی، خوشحال زیدی سرسوی، جیسی شخصیات نے عالمی شہرت حاصل کی۔ لیکن کشور جہاں کو اس بات کا قلق تھا کہ اس بستی کے شعرا اور ادیبوں کے علمی اور شعری کارناموں سے ادبی دنیا واقف نہیں ہے اور انہیں وہ مقام اور مرتبہ حاصل نہیں ہے جس کے وہ مستحق ہیں۔ اس لئے انہوں نے سرسی اور ضلع سنبھل کے قلمکاروں کے فن اور صلاحیتوں سے ادب کی دنیا کو روشناس کرانے کا بیڑا اٹھا لیا۔ انہوں نے فیلسوف الشعراء علامہ سید سرسوی کی حیات اور قلمی خدمات کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور سید سرسوی پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی۔ جو بعد میں 'سید سرسوی۔ حیات اور شاعری' کے نام سے کتابی صورت میں منظر عام پر آئی۔ کشور جہاں کی تخلیقی، تحقیقی اور ادبی صلاحیتوں کے سلسلے میں ناقد پروفیسر منظر عباس نقوی نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا کہ'' یہ ضروری نہیں کہ ان کی رائے سے ہمیں اتفاق ہو لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے تلاش و تحقیق کا پورا حق ادا کر دیا ہے۔ مجھے جس چیز نے اس مقالے میں بطور خاص متاثر کیا وہ مقالہ نگار کا طرز بیان ہے''۔ کشور جہاں نے سید سرسوی کے نظم کردہ قصیدوں کا انتخاب بھی شائع کیا۔ انہوں نے مولانا عل ہادی جوہر سرسوی کی حیات اور ادبی خدمات پر کام کیا اور ان کے نظم کردہ سلاموں، منقبتوں، قطعات اور رباعیات کو تدوین و ترتیب دے کر 'افکار جوہر' کے نام سے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ جوہر سرسوی کی غزلیات کا انتخاب 'آئینہ جوہر' کے نام سے ترتیب دیکر شائع کیا۔
ضلع سنبھل کے شعرا کے کئی تذکرے پہلے بھی شائع ہو چکے ہیں لیکن شعرائے سنبھل کے ایک جامع اور مستند تذکرے کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ کشور جہاں زیدی نے اس ضرورت کو ''میری زمین کے چاند ستارے'' مرتب کرکے پورا کیا۔ ابھی اس کی ایک جلد شائع ہوئی ہے اور دوسری جلد تیاری کے مرحلے میں ہے۔ شاعر اور صحافی ڈاکٹر طارق قمر سنبھلی کی ادبی اور شعری خدمات کے اعتراف میں تحریر کردہ مضامین کا مجموعہ انہوں نے 'گنگا جمنا کے ساحلوں پر' کے نام سے ترتیب دیا ہے۔ اس میں طارق قمر کا منتخب کلام بھی ہے۔
''کشور جہاں کا عظیم کار نامہ 'تذکرہ حسینی' کا فارسی سے اردو میں ترجمہ ہے۔ یہ میر حسین دوست سنبھلی کی فارسی تخلیق ہے۔ اس کا شمار بارہویں صدی ہجری کے فارسی کے اہم تذکروں میں ہوتا ہے۔ اس تذکرے میں 554 متقدمین اور متاخرین شعرا کا ذکر ہے۔ کشور جہاں نے اس فارسی تذکرے کا اردو میں ترجمہ ڈاکٹر سعادت علی صدیقی کی تحریک پر کیا۔ 'تذکرہ حسینی' کا کوئی مطبوعہ یا قلمی نسخہ خود سنبھل تک میں موجود نہیں ہے۔ کشور جہاں نے کئی کتب خانوں کی خاک چھانی۔ آخر کار انہیں مولانا آزاد لائبریری علی گڑھ میں اس کا نسخہ مل گیا۔ انہوں نے اس کا عکس حاصل کیا اور اس کا اردو ترجمہ شائع کرکے اس سرمایہ ادب کو محفوظ کر دیا۔
کشور جہاں فارسی کی طرح ہندی پر بھی عبور رکھتی ہیں اس کا ثبوت سلیم ضیا رامپوری کے اردو ناول 'ٹکراؤ' کا ہندی میں ترجمہ ہے۔ یہ ناول نفسیاتی نوعیت کا ہے۔ اس کا پلاٹ قدرے گنجلک ہے۔ اس میں مشرقی اور مغربی خیالات اور جذبات کا ٹکراؤ دکھایا گیا ہے۔ کشور جہاں نے اس مہارت سے ترجمہ کیا ہے کہ لگتا ہے کہ اصل ناول ہندی ہی میں لکھا گیا ہے۔ کشور جہاں نے متعدد مضامین سرسی اور سنبھل کے شعرا کے سلسلے میں لکھے جو رسائل میں شائع بھی ہوئے اور 'سرسی کا ادبی اور تہذیبی پس منظر' نامی مقالہ تو ریڈیو رامپور سے نشر بھی ہوا۔ 'قصیدہ نگاران روہیل کھنڈ'، 'تذکرہ شعرائے سرسی' جیسی کتابیں تیاری کے مرحلے میں ہیں۔ ویسے تو ان کا میدان نثر کا ہے لیکن وہ شاعری بھی کرتی ہیں۔ ان کی پسندیدہ صنف سخن نظم ہے۔ ان کی کئی نظمیں رسائل اور جرائد کی زینت میں اضافہ کرچکی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : مہاراشٹر: جس کا جیسا ’سنسکار‘، ویسا ہی ’ویوہار‘... اعظم شہاب
جہاں تک کشور جہاں کی ادبی خدمات کے اعتراف اور اعزازات و انعامات کا تعلق ہے تو انہیں اور ان کی کتابوں کو درجنوں ایوارڈز سے نوازہ جا چکا ہے۔ اتر پردیش اردو اکیڈمی ان کی کئی کتابوں کو انعامات دے چکی ہے۔ مختلف ادبی اور سماجی تنظیمیں بھی ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کر چکی ہیں۔ 'سرسی سوسائٹی' نے انہیں حال ہی میں 'حسن زہرا ایوارڈ' سے سرفراز کیا۔ سنبھل کی علامہ اقبال فاؤنڈیشن نے انہیں 'ستارہ اردو ایوارڈ' سے نوازہ۔ کشور جہاں زیدی اردو ادب کی دنیا میں اس حوالے سے اپنی شناخت قائم کرچکی ہیں کہ انہوں نے سرسی اور سنبھل کے شعرا اور ادیبوں کو تاریخ کے نہاں خانوں سے نکال کر ان کی نگارشات سے اردو ادب کے سرمایہ میں اضافہ کیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔