مہاراشٹر: جس کا جیسا ’سنسکار‘، ویسا ہی ’ویوہار‘... اعظم شہاب
گورنر بھگت سنگھ کوشیاری ایک جانب اپنی ہوشیاری دکھا رہے ہیں تو دوسری جانب رام دیو اپنے کام دیو والی خواہش نہیں چھپا پا رہے ہیں۔
مہاراشٹر کی سیاست میں فی الوقت گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کی ہوشیاری اور رام دیو کے کام دیوی سنسکار کا خوب چرچا ہے۔ کوشیاری صاحب نے شیواجی کا موازنہ نتن گڈکری سے کرکے اپنے لیے رسوائی کا سامان کیے ہوئے ہیں تو رام دیو خواتین کو بغیر لباس دیکھنے کی خواہش کا اظہار کرکے اپنے اپنے سنسکار کا عَلم لہرائے ہوئے ہیں۔ ان دونوں ’مہاپورشوں‘ کے خلاف مہاراشٹر کی ہر سیاسی پارٹی احتجاج کر رہی ہے۔ این سی پی سے لے کر شیوسینا تک اور سنجے راؤت سے لے کر راج ٹھاکرے تک ہر کوئی کوشیاری صاحب کی باعزت رخصی چاہتے ہیں تو رام دیو سے خواتین کی توہین پر علانیہ معافی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ راج ٹھاکرے نے گزشتہ کل گورنر صاحب کے بارے میں یہ تک کہہ دیا کہ ان کے عہدے کی وجہ سے ہم خاموش ہیں، وگرنہ مہاراشٹر میں گالیوں کی کمی نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں : پی ٹی اوشا کے لیے آئی او اے صدر بننے کا راستہ صاف
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ نائب وزیراعلیٰ دیوندرفڈنویس کی اہلیہ امرتا فڈنویس ان دونوں کی مدافعت میں بی جے پی سے بھی دوقدم آگے ہیں۔ گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کے بارے میں محترمہ یہ فرماتی ہیں کہ میں ذاتی طور پر گورنر کو جانتی ہوں، وہ دل سے مراٹھی ہیں، لیکن ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ انہوں نے کچھ کہا اور اس کا غلط مطلب نکالا گیا ہے۔ وہیں دوسری جانب رام دیو نے جب خواتین کے بارے میں قابلِ اعتراض باتیں کہیں تو امرتا فڈنویس رام دیو کے ساتھ ہی اسٹیج پر موجود تھیں مگر خاموش تھیں۔ ان کی اسی خاموشی پر سنجے راؤت نے سوال کیا ہے کہ جب رام دیو خواتین کے بارے میں ایسی نازیبا باتیں بول رہے تھے تو وہ چپ کیسے رہ گئیں؟ کیوں انہوں نے رام دیو کے کان پر ایک طمانچہ نہیں جڑ دیا؟
ایسا لگتا ہے کہ پچیس سالوں تک بی جے پی کے ساتھ رہنے کے باوجود راؤت صاحب بی جے پی کے سنسکار کو نہیں سمجھ سکے۔ بی جے پی کے یہاں کسی قابلِ اعتراض بات کا اصل مطلب اسی وقت نکلتا ہے جب بولنے والا بی جے پی سے تعلق نہ رکھتا ہو۔ یہاں تو کوشیاری صاحب اور رام دیو دونوں ہی بی جے پی کے ہیں، پھر بھلا ان کی باتیں قابلِ اعتراض کیوں کر ہوسکتی ہیں؟ بہت ممکن ہے کہ امرتا فڈنویس کل کو یہ بھی کہہ دیں کہ رام دیو کے بیان کا غلط مطلب نکالا جا رہا ہے اور ان کے بولنے کا وہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔ لیکن بدقسمتی سے رام دیو کے بیان پر ریاست کی خواتین کمیشن نے بھی علانیہ معافی کا مطالبہ کر دیا ہے اور بی جے پی کے ایک ریاستی ترجمان کے زبان سے بھی معافی مانگنے کا مطالبہ پھسل گیا ہے۔ ان ترجمان صاحب کا نام یوگیش دوبے ہے، لیکن یہ بیان دینے کے بعد بیچارے دوبے جی منظرنامے سے کہیں باہر ہی ہوگئے ہیں۔
مہاراشٹر میں بھارت جوڑو یاترا کے درمیان راہل گاندھی نے ساورکر کو انگریزوں سے معافی مانگنے والا قرار دے دیا تھا۔ جس پر بی جے پی نے اس زور سے تالیاں بجائی تھیں گویا اسے من کی مراد مل گئی ہو۔ اسے شیوسینا کو عار دلانے کا ایک موقع مل گیا کہ وہ ایم وی اے سے علاحدہ ہوجائے۔ اس کے لیے فڈنویس صاحب خود میدان میں اترے۔ اس کا اثر بھی ظاہر ہونا شروع ہوگیا تھا کیونکہ ریاست کا میڈیا بی جے پی کے ساتھ تھا۔ لیکن راہل گاندھی کے ایک عمل نے شیوسینا کے پورے غصے کو کافور کر دیا۔ سنجے راؤت جو راہل گاندھی کے بیان کو غیرضروری قراردے چکے تھے، راہل گاندھی نے فون کرکے ان کی خیریت دریافت کرلی، جس کے بعد سنجے راؤت نے راہل گاندھی کی تعریف کردی۔ راہل گاندھی کے اس ماسٹر اسٹروک سے بی جے پی چاروں خانے چت ہوگئی۔ راہل گاندھی نے اپنے اس عمل سے شیوسینا و بی جے پی دونوں کو بتا دیا کہ سنسکار کیا ہوتا ہے اور موقع پرستی کسے کہتے ہیں۔
اب گورنر بھگت سنگھ کوشیاری ورام دیو دونوں بی جے پی کے لیے آزار بنے ہوئے ہیں۔ بی جے پی کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اس معاملے کو کیسے رفع کیا جائے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کو بھی دبے لفظوں میں ان دونوں پر تنقید کرنی پڑی ہے۔ ریاستی بی جے پی کی زمامِ کار جن کے ہاتھوں میں ہے وہ چونکہ آج کل گجرات میں مصروف ہیں، اس لیے بی جے پی کو کوئی خاطر خواہ مدد بھی نہیں مل پا رہی ہے۔ ایسے میں این سی پی، کانگریس وشیوسینا کی ناراضگی پر گورنر کے بیان کا غلط مطلب کا پردہ ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ لیکن وہ کہاوت ہے ناکہ جب مصیبت آتی ہے تو چاروں طرف سے آتی ہے۔ رام دیو کے بیان نے بھی بی جے پی کے خلاف زبردست ناراضگی پیدا کر دی ہے۔ ریاست کے مختلف شہروں سے رام دیو کے خلاف احتجاج کی خبریں ہیں۔ پھر بھی اگر بالفرض گورنرورام دیو کے بیانات کے بارے میں یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ان کے بیان کو غلط پیرائے میں دیکھا جا رہا ہے تو پھر بی جے پی کے مرکزی ترجمان سدھانشو ترویدی کے بارے میں کیا کہا جائے گا جنہوں نے شیواجی کو بھی ساورکر کی طرح معافی مانگنے والا کہہ چکے ہیں؟وہ تو خیر سے پروفیسر بھی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : ممبئی میں خسرہ سے 13 بچے ہلاک
بھگت سنگھ کوشیاری، رام دیو اور راہل گاندھی کے بیانات دراصل ان کے سنسکاروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس کا جیسا سنسکار ہوتا ہے، اس کا ویسا ہی عمل ہوتا ہے۔ ایک جانب کوشیاری صاحب کا ناگپور کا سنسکار ہے جو انہیں گڈکری کو شیواجی کے برابر لاکھڑا کرتا ہے، تو دوسری جانب رام دیو کا 2013 والا شلوار پاجامے کا سنسکار ہے جس سے انہیں خواتین بغیر لباس کے اچھی لگتی ہیں۔ تیسری جانب راہل گاندھی کا سنسکار ہے جو ایک تاریخی سچائی بیان کرنے کے بعد یہ بالکل نہیں کہتے کہ ان کے بیان کا غلط مطلب نکالا جا رہا ہے، بلکہ وہ اپنے بیان پر قائم رہتے ہوئے اپنے ساتھی کی خیریت دریافت کرتے ہیں۔ انہیں سنسکاروں کی وجہ سے مہاراشٹر میں کوشیاری صاحب اپنی ہوشیاری دکھا رہے ہیں تو رام دیو کام دیو والی خواہش نہیں چھپا پا رہے ہیں۔ اس صورت حال نے بی جے پی کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔