نور الحسنین: ہمہ جہت شخصیت کا مالک قلمکار
نور الحسنین کے ادبی قد کا اندازہ باس ات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مختلف یونیورسٹیوں کے پانچ اردو اسکالر ان کی ادبی خدمات اور نگارشات پر تحقیقی مقالے لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں۔
مہاراشٹر کے تاریخی شہر اورنگ آباد کے سید نور الحسنین کی شخصیت کے متعدد پہلو ہیں۔ ان کا خاندانی پس منظر تصوف ہے۔ وہ افسانہ نگار بھی ہیں۔ ناول نگار بھی ہیں۔ تنقید نگار بھی ہےیں۔ ڈرامہ آرٹسٹ بھی ہیں اور ڈرامہ نگار بھی ہیں۔ خاکہ نگار بھی ہیں۔ بچوں کے قلمکار بھی ہیں اور ایک پر کشش آواز کے مالک ہیں اسی لئے ریڈیو سے طویل عرصہ تک بحیثیت اناؤنسر منسلک رہے۔ ان کی کتابیں مختلف ملکی اور غیر ملکی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل ہیں۔ نور الحسنین کے ادبی قد کا اندازہ باس ات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مختلف یونیورسٹیوں کے پانچ اردو اسکالر ان کی ادبی خدمات اور نگارشات پر تحقیقی مقالے لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں اور پانچ اسکالر اس وقت ان کی قلمی کاوشوں پر پی ایچ ڈی اور ایم فل کر رہے ہیں۔ نور الحسنین کی قلمی خدمات کی تفصیل میں جانے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : زین رامش۔ فکشن کا معتبر تنقید نگار... جمال عباس فہمی
19 مارچ 1950 کو اورنگ آباد میں پیدا ہونے والے سید نور الحسنین کا تعلق نقش بندی سلسلے کے ایک صوفی خاندان سے ہے۔ ان کا مکمل نام سید نور الحسنین نقش بندی ہے۔ ان کے اجداد تاجکستان کے شہر خُجند سے ہجرت کرکے لاہور پہنچے اور مقام ایمن آباد میں سکونت پذیر ہوئے۔ وہاں انہوں نے خانقاہی نظام قائم کیا۔ اُن کے پوتے سید شاہ عنایت الہٰی نے ہجرت کرکے برہان پور پہنچے۔ وہاں سے مہاراشٹر کے علاقے بالا پور پہنچے اور وہاں نقشبندیہ خانقاہ کی بنیاد رکھی۔ ان کے پوتے سید شاہ قمرالدین نقشبندی اورنگ آباد (دکن) پہنچے۔ مشہور شاعر سکندر علی وجدؔ ان کے ننھیالی رشتہ دار تھے اورحماعت علی شاعر ان کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ ایسے ادبی ماحول میں نور الحسنین قلم نہ سنبھالتے تو کیا کرتے۔ ساتویں جماعت سے ان کے ہاتھ میں قلم آگیا تھا۔ میٹرک کے بعد مزاحیہ کالم لکھنے لگے جو مقامی اخبارات میں شائع ہوتے تھے۔ لیکن قلم کار بننے سے پہلے وہ ایک ڈرامہ آرٹسٹ بن چکے تھے۔ وہ اسکول کے ڈراموں میں حصہ لیتے تھے۔ نور الحسین شاعر بننا چاہتے تھے لیکن بن نہیں سکے اور نثر میں قلم آزمائی کرنے لگے۔ انہوں نے پہلی کہانی بچوں کے لئے 'انسانیت' کے عنوان لکھی۔ اس کہانی کی اشاعت سے انہیں خوشی بھی ہوئی اور ڈر بھی لگا۔ ڈر کی وجہ یہ تھی کہ ان کے خاندان میں اسکولی تعلیم سے ہٹ کر بچوں کے اس طرح لکھنے پڑھنے پر پابندی تھی۔ لیکن وہ چوری چوری لکھتے بھی رہے اور چھپتے بھی رہے۔ اگریہ کہا جائے کہ نور الحسنین کو افسانہ نگار بنانے میں ان کے اندر موجود آرٹسٹ کا ہی ہاتھ ہے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔
ساتویں جماعت سے لکھنے لکھانے کا جو سلسلہ نور الحسنین نے شروع کیا تھا وہ چار افسانوی مجموعہ جات، چار ناولوں، تنقید کی پانچ کتابوں اور بچوں کے لئے کہانیوں کے تین مجموعات اور ایک ڈرامے کے بعد بھی مسلسل جاری ہے۔ نور الحسنین ادب کی تخلیق کے عمل میں تجربات کرتے رہتے ہیں۔ وہ چونکہ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اسٹیج سے جڑے رہے ہیں اس لئے انہوں اپنے افسانوں اور ناولوں میں 'فلیش بیک تکنیک' کے علاوہ 'شعور کی رو'، 'خود کلامی' اور منظری تکنیک کا بھی استعمال کیا ہے۔ تصوف اور عصری مسائل پر مبنی اپنے ناول 'تلک الایام' میں بھی انہوں نے تکنیکی تجربے کئے ہیں۔ وہ عالموں اور صوفیوں کے خانوادے میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان کے بزرگوں کی حیات اور اُن کی تعلیمات کا کتابوں اور مختلف تذکروں میں ذکر ہے۔ اُنھیں کردار بنانے کے لیے نور الحسنین نے Schizophrenia نامی ایک مرض کا سہارا لیا جس کے مریض کو عجیب عجیب چہرے نظر آتے ہیں۔ وہ اُن سے باتیں بھی کرتا ہے۔ وہ ایسے مناظر بھی دیکھتا ہے جہاں وہ کبھی گیا ہی نہیں ہوتا ہے۔ اس مرض کا سہارا لیکر ہی وہ یہ اچھوتا ناول لکھنے میں کامیاب ہو سکے۔ نور الحسنین کے 'چاند ہم سے باتیں کرتا ہے' ناول میں فارمیٹ سے بغاوت نظر آتی ہے۔ انہوں نے اس ناول میں کئی کہانیوں کو جوڑنے کی وہی تکنیک استعمال کی ہے جو 'مہابھارت' میں نظر آتی ہے، اس ناول میں ایک کے بعد ایک کئی کہانیاں آتی ہیں لیکن اصل کہانی قائم رہتی ہیں۔ یہ ناول عشق کے موضوع پر ہے، وہ اپنے ناولوں کے لیے بہت ہوم ورک کرتے ہیں۔ موضوع سے متعلق مطالعہ کرتے ہیں۔ نوٹس تیار کرتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر قدیم پینٹنگس کی تلاش کرتے ہیں۔ نقشوں کی مدد لیتے ہیں۔ تاریخ اور جغرافیہ کی کتابیں کھنگالتے ہیں۔ شاید اس لیے کہا جانے لگا کہ نور الحسنین نے ناول نگاری کو بھی ریسر چ ورک بنا دیا ہے۔ ممتاز افسانہ نگار و ناول نگار ڈاکٹر عبد الصمد کا خیال ہے کہ ''قرۃ العین حیدر کے بعد نئی نسل میں نورالحسنین ہی ہیں جو ناول کے لکھنے سے پہلے تحقیقی مواد جمع کرتا ہے۔''
ان کے افسانوں کے پلاٹ دیہی اور شہری حدود سے نکل کر بین القوامی سرحدوں تک کو عبور کر گئے۔ گڑھی میں اُترتی شام زوال حیدر آباد کے بعد ایک دیہات کے ایک زمین دار کی کہانی ہے۔ افسانہ 'کلمہ گو' کا پس منظر حیدر آباد دکن ہے۔ افسانہ 'پیپل کی چھائیاں' شہر پونا سے تعلق رکھتا ہے۔ افسانہ 'یہ 'تیرے پُر اسرار بندے' کا Scenario ممبئی شہر کا ہے۔ 'یہ عشق نہیں آساں' کا شہر اورنگ آباد ہے۔ افسانہ ' بھور بھئی جاگو' میں ریاست کیرالہ کا ایک مقام اندلور ہے۔ افسانہ 'سبزۂ نو رستہ کا نوحہ' کا مرکزی کردار حیدر آباد کا ہے جو کراچی پہنچ کر مہاجر بن جاتا ہے۔ افسانہ 'آخری 'اسٹوری' عراق کے زوال کے پس منظر میں ہے اور افسانہ ' بسلامت روی و باز آئی' افغانستان کے اطراف گردش کرتا ہے۔ نور الحسنین کے تحت الشعور میں کربلا بھی بسی ہوئی ہے۔ ان کے افسانے 'سبزۂ نو رستہ کا نوحہ' میں کربلائی منظر نامہ ہے۔ افسانے کا کردار اپنے گھر اور محبوبہ سکینہ کو چھوڑ کر پاکستان ہجرت کر جاتا ہے۔ پچاس برس کے بعد جب وہ واپس آتا ہے تو دیکھتا ہے کہ جہاں اُس کا گھر تھا، وہاں ایک بلڈنگ کھڑی ہے۔ اُس کے قریب عاشور خانہ ہے۔ جہاں محرم کی مجلس ہو رہی ہے۔ افسانے کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے کہ واقعہ کربلا کس طرح کسی کا ذاتی غم بن جاتا ہے۔
’’میرے کانوں میں آوازیں گونج رہی تھیں، ' ہائے امام ِ مظلوم آپ کے عزیز اور چہیتے باقی نہ رہے، ہائے امامِ مظلوم آپ سے آپ کا مدینہ چھوٹ گیا، ہائے امامِ مظلوم آپ کی سکینہ بے سہارا ہو گئی، ہائے امامِ مظلوم آپ کا سب کچھ چھوٹ گیا، ہائے امامِ مظلوم آپ کس کس پر صبر کریں گے؟ میں غم سے نڈھال بہت دیر تک سکتے کی حالت میں ڈوبا رہا اور پھر بوجھل قدموں سے چلتا ہوا جیسے ہی امام باڑے میں داخل ہوا، وہاں ماتم اپنے نقطہ عروج پر تھا۔ سینے پر پڑنے والی ہر ضرب اور منہ سے نکلنے والی ہر آواز 'تشنہ شد یا حسین' راست میرے دل پر بجلی بن کر گر رہی تھی۔ ماتم داروں میں بھی شامل ہو گیا۔ میری آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات ہو رہی تھی اور میری زبان سے پورے کرب کے ساتھ آوازیں نکل رہی تھیں 'ہائے تشنہ شد یا حسین'۔ 'ہائے تشنہ شد یاحسین'۔ 'ہائے تشنہ شد یا حسین۔''
ان کےافسانوں کے چار مجموعے 'سمٹتے دائرے'، 'مور رقص اور تماشائی'، 'گڑھی میں اُترتی شام'، 'فقط بیان تک' اور 'بھور بھئی جاگو' چارناول 'اہنکار'، 'ایوانوں کے خوابیدہ چراغ'، 'چاند ہم سے باتیں کرتا ہے' اور 'تلک الایام' کے علاوہ تنقدی کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ 1980 کے بعد اُبھرنے والے افسانہ نگاروں پر مضامین کے مجموعے 'نیا افسانہ۔ نئے نام' کی دو جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔
خاکوں کا مجموعہ، 'خوش بیانیاں'۔ اقبال متین سے اُنسیت، اور فلم فہمی جیسی کتابیں بھی وہ لکھ چکے ہیں۔ فلم فہمی کے موضوع پر یشونت راؤ چوہان اوپن یونیورسٹی کے لیے انہوں نصابی کتاب لکھی ہے۔ انہوں نے ادب اطفال کے میدان میں بھی قلم آزمائی کی ہے۔
'گڈو میاں' اور چھوٹا شہزادہ بچوں کی کہانیوں کے مجموعے ہیں۔ ڈرامہ 'حضور کا اقبال بلند رہے' بامبے یونیورسٹی کے بی۔ اے کے سال دوم کے نصاب میں شامل ہے۔ ڈاکٹر امبیڈ کر مراٹھواڑہ یونیورسٹی کے ایم۔ اے۔ اردو کے نصاب میں افسانہ ’گڑھی میں اُترتی شام‘ شامل تھا۔ مہاراشٹر سکینڈری بورڈ کے گیارہویں جماعت کی اردو کی کتاب میں افسانہ ’بارش‘ شامل رہا۔ مہاراشٹر پرائمری بورڈ کی دوئم جماعت کی اردوکی نصابی کتاب میں کہانی ’آم کا درخت‘ شامل ہے۔ اور ڈھاکہ یونیورسٹی (بنگلہ دیش) کے نصاب میں ناول 'چاند ہم سے باتیں کرتا ہے'' شامل ہے۔
جہاں تک انعامات اور اعزازات کا تعلق ہے تو مختلف ریاستی اکیڈمیاں انہیں انعامات سے نواز چکی ہیں۔ دوہا قطر کا عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ برائے 2020 بھی انہیں مل چکا ہے۔ کنیڈین ٹیلی ویژن چینل 'را' نور الحسنین کے ناول' ایوانوں کے خوابیدہ چراغ' کے حوالے سے ان کی شخصیت پر مزاکرہ نشر کر چکا ہے۔ نورالحسنین کے لئے یہ بھی اعزاز کی بات ہے کہ مختلف یو نیورسٹیوں کے پانچ اسکالرز ان کی ادبی خدمات اور نگارشات پر تحقیقی مقالے لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں۔ اور پانچ اسکالرز ان کے اوپر مقالے لکھ کر ڈاکٹریٹ کرنے کے مرحلے میں ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔