زین رامش۔ فکشن کا معتبر تنقید نگار... جمال عباس فہمی

زین رامش کی کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ 1982 سے شروع ہوا، جب انہوں نے اپنے والد آصف سہسرامی کی غزلوں کے مجموعے کو ’فصل خزاں کے بعد‘ کے نام سے مرتب کیا۔

زین رامش
زین رامش
user

جمال عباس فہمی

 علمی، ادبی اور تہذیبی لحاظ سے اپنی منفرد شناخت رکھنے والے شہر سہسرام نے دامن بھر کر ایسے ایسے گوہر نایاب لٹائے ہیں کہ جن سے اردو ادب مالا مال ہو گیا ہے۔ اس شہر کی شخصیات نے نہ صرف ملک گیر سطح پر شہرت حاصل کی، بلکہ عالمی سطح پر اپنی علمی و ادبی لیاقت کا ڈنکا بجایا۔ علم و ادب سے لے کر تہذیب و ثقافت تک کے میدان میں اور تہذیب و ثقافت سے لے کر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ان شخصیات نے اپنی انفراد یت کے ساتھ اپنی شناخت قائم کی ہے۔

انہی شخصیات میں ایک نام پروفیسر زین رامش کا ہے، جن کا تعلق سہسرام کے ایک انتہائی علمی، ادبی، مذہبی اور صوفی روایات کے امین خانوادے سے ہے۔ علم و ادب تو زین رامش کی گھٹی میں ملا ہوا ہے۔ زین رامش کی علمی اور ادبی خدمات کا تفصیل سے ذ کر کرنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر کا جائزہ لینا ضروری محسوس ہوتا ہے۔


معروف صوفی گھرانے کے ڈاکٹر سید اظہار الحق آصف سہسرامی کے گھر میں 5جنوری 1963 کو جس بچے نے آنکھیں کھولیں اس کا نام زین الحق رکھا گیا۔ یہی زین الحق ادبی دنیا میں زین رامش کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ زین رامش اپنے ان چچا سید شاہ انوارالحق شہودی نازش سہسرامی کے سایہ میں پروان چڑھے جس میں حسین الحق جیسے صاحب طرز فکشن نگار اور عین تابش جیسے خوش گو شاعر پلے بڑھے۔ زین رامش کا گھرانہ شعرا و ادبا کا گھرانہ اور صوفیانہ روایت کا امین ہے۔ وہ خاندانی طور سے قادریہ سلسلے سے ہیں اور طریقت کے لحاظ سے چشتیہ سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے خانوادے کو تصوف کے دو دھاروں کا سنگم کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ ان کے دادا وصی الحق مسکین بھی شاعر تھے۔ بڑے دادا مسرور اورنگ آبادی بھی استاد شاعر تھے۔ والد ڈاکٹر سید اظہار الحق آصف سہسرامی بھی مستند شاعر تھے اور چچا نازش سہسرامی بھی منفرد لب و لہجے کے شاعر تھے۔ ان کے چچازاد بھائی پروفیسر حسین الحق ساہتیہ اکاڈمی کے انعام یافتہ قلمکار تھے۔ عین تابش کئی شعری مجموعات کے مالک ہیں۔ زین رامش نے ابتدائی تعلیم اپنے چچا نازش سہسرامی سے حاصل کرنے کے بعد مدرسہ خانقاہ کبیریہ سہسرام سے ابتدائی درجات سے لے کر مولوی تک کا تعلیمی سفر طے کیا۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایس پی جین کالج سہسرام سے آئی اے کیا۔ گیا کالج، گیا سے بی اے اردو آنرس اور مگدھ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔ 1983 میں چچا نازش سہسرامی کی رحلت کے بعد چچا زاد بھائیوں پروفیسر حسین الحق اور پروفیسر عین تابش کی محبتوں اور شفقتوں کے سایہ میں ترقی کی منازل طے کیں۔ انہوں نے مگدھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔

زین رامش اپنے چچا نازش سہسرامی سے اس درجہ متاثر تھے کہ انہوں نے ان کی ہی ادبی خدمات کو اپنی پی ایچ ڈی کا موضوع بنایا ۔1996 میں وہ بہار یونیورسٹی سروس کمیشن کے ذریعہ اردو لکچرر کے طور پر منتخب ہوئے اور ونوبا بھاوے یونیورسٹی کے جے جے کالج جھمری تلیا کے شعبہ اردو سے وابستہ ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد بعد ونوبا بھاوے یونیورسٹی ہزاری باغ کے شعبہ اردو سے منسلک ہوگئے، وہ اس شعبے کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔


زین رامش کا قلمی سفر شاعری سے شروع ہوا۔ 14-13 برس کی عمر میں ہی ان کی شاعری میں پختگی آگئی تھی۔ وہ سہسرام میں ہونے والی شعری نشستوں اور محفلوں میں اپنے کلام پر اساتذہ کی داد و تحسین حاصل کرتے تھے۔ یہ 76-1975 کا زمانہ تھا جب حشر سہسرامی، نازش سہسرامی، ناظم میواتی، کیف سہسرامی، عبدالسلام افسر، مانوس سہسرامی جیسے اساتذہ سہسرام کے مشاعروں کی زینت ہوا کرتے تھے۔ زین رامش کس لب و لہجہ کے شاعر ہیں اس کا اندازہ ان کے ان اشعار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

دست طلب دراز زیادہ نہ کر سکے

ہم زندگی سے کوئی تقاضا نہ کر سکے

چوں کہ کرم پہ ہم ترے شبہ نہ کر سکے

بس اے خدا گناہ سے توبہ نہ کر سکے

.....

تری نگاہ کے صدقے میں اب وہاں ہوں جہاں

کوئی رفیق نہیں کوئی غمگسار نہیں

وہ غم نصیب کہاں جائے کس کو اپنائے

تری نگاہ کرم جس کی غمگسار نہیں

.....

خون دل کا ایک قطرہ ایک حرف ناتمام

پڑھنے والوں کے لئے تاریخ دوراں بن گیا


زین رامشؔ کی ادبی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ علم و ادب سے ان کا ایک مستحکم تعلق تو یہ ہے کہ وہ اعلی تعلیم کی تدریس سے وابستہ ہیں اور دوسرا یہ کہ ان کی ادبی خدمات مختلف جہتوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ وہ شاعری، افسانہ نگاری، تحقیق، تنقید، تبصرہ نگاری، انشائیہ نگاری اور صحافت کے میدان میں سرگرم رہے ہیں۔ شاعری کے ساتھ ساتھ انہوں نے افسانہ نگاری بھی شروع کردی تھی۔ زین رامش کا پہلا افسانہ 1977 کے اواخر میں شائع ہوا۔ ان کا ایک افسانہ’’سکے‘‘ نے اردو ادب کے ناقدوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ تحقیق و تنقید اور بالخصوص فکشن تنقید میں مصروف رہنے کے سبب زین رامش افسانہ نگاری پر بہت زیادہ توجہ نہیں دے پاتے، اس کے باوجود ان کے قلم سے کئی بہت اہم افسانے تخلیق ہوئے۔ ان کے ایک افسانہ ’برقع‘ کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ زین رامش کی قلمی کاوشوں کا سلسلہ افسانہ نگاری سے بالکل غیر متعلق کبھی نہیں رہا۔ ہاں اشاعت کا سلسلہ قدرے کم ہو گیا، شاید یہی وجہ رہی کہ زین رامش کا ذکر بحیثیت شاعر، بحیثیت ناقد، بحیثیت صحافی، یہاں تک کہ بحیثیت انشائیہ نگار اور ڈرامہ نگار کے تو خوب ہوتا ہے لیکن بحیثیت افسانہ نگار ان کا ذکر ذرا کم ہوتا ہے۔

زین رامش کے تعلق سے ڈاکٹر نگار سلطانہ اپنی کتاب ’’بہار اور جھارکھنڈ میں اردو غزل 1960کے بعد‘‘ میں لکھتی ہیں:

’’زین رامش کا ذکر جس طرح ریاست بہار کے معاصر شاعروں اور ادیبوں میں احترام کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسی طرح جھارکھنڈ کے ارباب قلم اور فنکاروں میں نہایت اعزاز کے ساتھ ان کا نام لیا جاتا ہے۔ انہیں نثر اور نظم کی مختلف اصناف پر دسترس حاصل ہے۔ صحافت سے ان کی پرانی دلچسپی ہے۔ مشاعروں اور ادبی جلسوں میں ان کی نظامت کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔ وہ مختلف تنظیموں کے روح رواں ہیں۔ ان کی شخصیت میں علم کے ساتھ ساتھ حلم بھی ہے جو ان کے خاندانی پس منظر کی دلیل ہے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔‘‘


زین رامش کے موجودہ مشاغل میں درس و تدریس کے علاوہ تخلیق و تنقید، تحقیق اور تصنیف ترتیب کتب اور صحافت شامل ہیں، ریڈیو سے وابستگی کے دوران ڈرامہ نگاری پر ان کی خصوصی توجہ رہی۔ ان کے کئی ڈرامے اور فیچر آکاشوانی کے پٹنہ اور دیگر مراکز سے نشر ہوئے، جن میں ’رات کے آخری پہر‘، ’کرفیو‘، اور فیچر ’لہو کا رنگ ایک ہے‘ اور ’آزاد ہیں ہم‘ خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔‘‘ ان کے افسانے 'برقع' کی مقبولیت کا یہ عالم ہوا کہ آکاشوانی پٹنہ کے ڈرامہ سیکشن نے اسے ڈرامائی شکل دلا کر اپنے خصوصی پروگرام میں نشر کیا اور بعد میں وہ کئی دیگر مراکز سے بھی نشر ہوا۔ یہ افسانہ در اصل طبقہ اشرافیہ کی تہذیبی وراثت کے انحطاط کی کہانی ہے۔ فی الوقت زین رامش کی توجہ کا مرکز شاعری کے علاوہ تنقید ہے اور بالخصوص فکشن تنقید اور شاعری کی تنقید پر ان کی خصوصی توجہ ہے۔ زین رامش کی فکشن تنقید پر پروفیسر اسلم جمشید پوری کا تبصرہ بہت اہم ہے۔ اسلم جمشید پوری کی نظر میں زین رامش فکشن کے ایک اہم اور معتبر ناقد ہیں۔

زین رامش کی کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ 1982 سے شروع ہوا، جب انہوں نے اپنے والد آصف سہسرامی کی غزلوں کے مجموعے کو ’فصل خزاں کے بعد‘ کے نام سے مرتب کیا۔ انہوں نے اپنے بڑے دادا مسرور اورنگ آبادی کے شعری انتخاب کو ’فریب زندگی‘ کے عنوان سے ترتیب دیا۔ 1994 میں انہوں نے اپنے چچا نازش سہسرامی کی غزلوں کا انتخاب ’حریم شوق‘ کے عنوان سے ترتیب دیا۔ یہ کتاب ادبی حلقوں میں کافی مقبول ہوئی اور کئی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہے، ان کی جو دیگر کتابیں شائع ہوئیں ان میں ’منتخب غزلیں‘، ’منتخب نظمیں‘، ’منتخب انشایے‘، ’نرملا: ایک تجزیاتی مطالعہ‘ اور ’بہار میں اردو کا ریڈیائی ڈرامہ 1980 کے بعد‘ اہمیت کی حامل ہیں۔ ’نرملا: ایک تجزیاتی مطالعہ‘ اور ’بہار میں اردو کا ریڈیائی ڈرامہ 1980کے بعد‘ مختلف یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ زین رامش کو نئی نسل کے لکھنے والے کتنی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اس کا ثبوت یہ ہے کہ ڈاکٹر نعیم انیس 'صدر شعبہ اردو کولکاتہ گرلس کالج'، ڈاکٹر ندرت تزئین، 'صدر شعبہ اردو سینٹ کولمبس کالج' ہزاری باغ، ڈاکٹر صبا فردوس اور ڈاکٹر خان جیسے کئی قلم کاروں نے اپنی کئی کتابوں کا انتساب زین رامش کے نام کیا ہے۔


زین رامش کی تین اور کتابیں عنقریب شائع ہوکر منظر عام پر آنے والی ہیں۔ ’’حضرت نازش سہسرامی: فرد اور فن‘‘، ’’آصف سہسرامی: شخص اور شاعر‘‘ اور ’’تصوف شناسی‘‘ جیسی کتابوں کا باذوق افراد کو بیچینی کے ساتھ انتظار ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔