مسلسل بڑھتی گرمی پر سکریٹری جنرل اقوام متحدہ کا اظہارِ تشویش، عالمی سطح پر ضروری اقدامات کی اپیل

انتونیو گوٹیرس نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’اربوں لوگ شدید گرمی کا سامنا کر رہے ہیں اور دنیا بھر میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت کی مہلک گرمی سے نبرد آزما ہیں‘‘

<div class="paragraphs"><p>  اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس / Getty Images</p></div>

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس / Getty Images

user

قومی آوازبیورو

اقوام متحدہ: اس ہفتے مسلسل تین دن تک عالمی درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافے کے درمیان اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے زندگیاں بچانے کے لیے بین الاقوامی سطح پر ضروری اقدامات کرنے کی اپیل کی ہے۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’اربوں لوگ شدید گرمی کی وبا کا سامنا کر رہے ہیں اور دنیا بھر میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ کے مہلک درجہ حرارت کی لپیٹ میں ہیں جو کہ یہ 122 ڈگری فارن ہائیٹ ہے۔‘‘

کوپرنیکس کلائمیٹ چینج سروس کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے گوٹیرس نے کہا، ’’گزشتہ اتوار، پیر اور منگل ریکارڈ پر گرم ترین دن تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال تقریباً نصف ملین لوگ گرمی سے مرتے ہیں، جو کہ ٹراپیکل طوفانوں سے مرنے والوں کی تعداد سے تقریباً 30 گنا زیادہ ہے۔ انتہائی گرمی عدم مساوات، غذائی عدم تحفظ کو بڑھاتی ہے اور لوگوں کو غربت میں دھکیلتی ہے۔‘‘

انتونیو گوٹیرس نے دنیا میں گرمی کی لہروں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے چار شعبوں میں کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا، یہ شعبہ ہیں سب سے زیادہ کمزوروں کی دیکھ بھال، کارکنوں کے لیے زیادہ حفاظت، موسمیاتی تبدیلیوں سے لڑنے کے لیے اقدامات کرنے میں معیشتوں اور معاشروں کی لچک کو فروغ دینے اور درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری تک محدود کرنے کا عزم کرنا۔


انہوں نے مزدوروں پر گرمی کے اثرات کے بارے میں جمعرات کو جاری ہونے والی انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی رپورٹ کا حوالہ دیا، جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ عالمی افرادی قوت کا 70 فیصد سے زیادہ، یا 2.4 بلین لوگ اب شدید گرمی کے خطرے میں ہیں۔ ایشیا-بحرالکاہل کے علاقے میں چار میں سے تین کارکن شدید گرمی کا شکار ہیں۔ اس سب کا عوام اور معیشت پر گہرا اثر پڑ رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب یومیہ درجہ حرارت 34 ڈگری سے تجاوز کر جاتا ہے تو محنت کشوں کی صلاحیت 50 فیصد تک کم ہو جاتی ہے اور کام کے دوران گرمی کے دباؤ کی وجہ سے عالمی معیشت کو 2.4 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوگا، جوکہ 1990 کی دہائی میں 280 بلین ڈالر تھا۔

انہوں نے کارکنوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا، "ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ قوانین اور ضوابط آج کی شدید گرمی کی حقیقت کی عکاسی کریں اور ان پر عمل کیا جائے۔ ہمیں معیشتوں، اہم شعبوں اور تعمیر شدہ ماحول کو گرمی سے بچانے کے لیے ایک مشترکہ کوشش کی ضرورت ہے۔ اچھی سائنس اور ڈیٹا کی بنیاد پر تیار کردہ حرارتی کارروائی کے منصوبے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی بحران کی بہت سی دوسری تباہ کن علامات ہیں جن میں شدید طوفان، سیلاب، خشک سالی، جنگل کی آگ، سطح سمندر میں اضافہ وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’تمام ممالک کو اگلے سال تک قومی سطح پر طے شدہ شراکت یا قومی آب و ہوا کے ایکشن پلان جمع کروانا چاہیے تاکہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود کیا جا سکے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔