برطانیہ میں چینی پر ٹیکس عائد کئے جانے سے کھپت میں کمی: مطالعہ

برطانیہ میں چینی پر ٹیکس عائد کئے جانے سے بچوں میں چینی کے روزانہ استعمال میں تقریباً 5 گرام اور بڑوں میں 11 گرام کی کمی واقع ہوئی ہے

<div class="paragraphs"><p>چینی کی علامتی تصویر / آئی اے این ایس</p></div>

چینی کی علامتی تصویر / آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

لندن: برطانیہ میں چینی پر ٹیکس عائد کئے جانے سے بچوں میں چینی کے روزانہ استعمال میں تقریباً 5 گرام اور بڑوں میں 11 گرام کی کمی واقع ہوئی ہے۔

تحقیق کے مطابق 50 سے زائد ممالک نے سافٹ ڈرنکس پر چینی ٹیکس عائد کیا ہے تاکہ مینوفیکچررز کو اپنی مصنوعات میں اصلاحات کی ترغیب دی جا سکے۔ برطانیہ میں شوگر ٹیکس کا اعلان مارچ 2016 میں کیا گیا تھا اور اپریل 2018 میں نافذ ہوا تھا۔

کیمبرج، باتھ اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں کے محققین نے 7999 بالغوں اور 7656 بچوں پر یوکے نیشنل ڈائیٹ اینڈ نیوٹریشن سروے کے 11 سال کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔

جرنل آف ایپیڈیمولوجی اینڈ کمیونٹی ہیلتھ میں آن لائن شائع ہونے والے نتائج کے مطابق، برطانیہ میں شوگر ٹیکس کے نفاذ کے ایک سال بعد بچوں نے کھانے پینے کی چیزوں سے ملنے والی چینی کی مقدار میں روزانہ تقریباً 5 گرام (10 فیصد) کمی کی۔ جبکہ بالغوں نے روزانہ تقریباً 11 گرام (20 فیصد) کی مقدار کم کی۔


اس کل مقدار کا نصف سے زیادہ حصہ صرف سافٹ ڈرنکس سے آتا ہے، جوکہ بچوں میں تقریباً 3 گرام فی دن اور بالغوں میں تقریباً 5 گرام فی دن ہے۔ جبکہ بچوں اور بڑوں میں پروٹین کی مقدار مستحکم رہی۔

محققین نے بتایا کہ بچوں میں روزانہ 4.8 گرام چینی کی کمی تقریباً 2000 کلوکیلوری کی روزانہ کی مقدار میں سے تقریباً 19.2 کلوکیلوری کے برابر تھی، جو کہ توانائی کی مقدار میں تقریباً ایک فیصد کی کمی کے برابر ہے۔

اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ شوگر میٹھے مشروبات کا استعمال خاص طور پر بچوں میں وزن میں اضافہ، ٹائپ 2 ذیابیطس، کورونری دل کی بیماری اور وقت سے پہلے موت کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

محققین کے مطابق، مفت شوگر لیول سے یومیہ توانائی کی مقدار اب بھی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی تازہ ترین سفارشات سے 5 فیصد زیادہ ہے، جو بالغوں کے لیے 30 گرام یومیہ، 7-10 سال کے بچوں کے لیے 24 گرام اور 4-6 سال کے بچوں کے لیے 19 گرام کے برابر ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔