محرم! حق اور باطل کی جنگ کا گواہ
موجودہ دور میں بھی یزید اور حرملہ اپنے اپنے انداز میں موجود ہیں جو معصوم اور بے گناہوں کا خون پوری بے دردی کے ساتھ بہا رہے ہیں
محرم وہ مہینہ ہے جس میں حق و باطل کی وہ تاریخی جنگ لڑی گئی جو رہتی دنیا تک آزادی و حریت کے متوالوں کے لیے ظلم و جبر سے مقابلے کی راہ دکھاتی رہے گی۔ حق و باطل کے اس معرکے میں ایک طرف فرزند رسول جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین تھے تو دوسری طرف ظالم و جابر حکمراں یزید تھا۔ حضرت امام حسین نے یزید کے خلاف علم جہاد اس لئے بلند کیا کہ اس نے بیت اللہ الحرام اور روضہ نبوی کی حرمت کو پامال کرنے کے علاوہ اسلام کی زریں تعلیمات کا تمسخر اڑاتے ہوئے ہر قسم کی برائیوں کو فروغ دیا اور ایک بار پھر دور جاہلیت کے باطل اقدار کو زندہ کر کے اس دین مبین اسلام کو مسخ کرنے کی کوشش کی ،جس کی خاطر پیغمبر اکرم نے 23 برس تک اذیت و تکلیف برداشت کی تھی۔
حضرت امام حسین دین اسلام کے وہ محافظ ہیں جنہوں نے اپنے خون مطہر ہ سے اسلام کے درخت کی آبیاری کی ،اسی لئے ایک معاصر عربی ادیب نے کہا ہے کہ اسلام قیام کے لحاظ سے محمدی ہے اور بقا کے اعتبار سے حسینی مذہب ہے۔ محرم ، خون کی شمشیر پر فتح کا مہینہ ہے، یہ وہ مہینہ ہے جو دنیا کی تمام نسلوں اور ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کو پیغام دیتا ہے کہ زندگی گذارنی ہے تو آزاد رہ کر گذارو، ظلم و ستم اور استبداد کے سامنے کبھی بھی سر نہ جھکاؤ اور نہ ہی ذلت آمیز زندگی تحمل کرو کیونکہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے اور اس کی گواہ کربلا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اگر کربلا نہ ہوتی تو آج ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کے لئے کسی میں بھی ہمت نہ ہوتی۔
کربلا نے دنیا کے تمام انسانوں کو یہ حوصلہ دیا ہے کہ وہ کم تعداد میں رہنے کے باوجود بھی ظالموں کی کثرت سے ٹکرا سکتے ہیں۔ اگر ایمان اور اللہ پر بھروسہ ہے تو بڑی سے بڑی جنگی مشینریوں کو ناکام بنا کر ہر دور کے یزید کے لیے روسیاہی کا اسباب فراہم کر سکتے ہیں کیونکہ یزید و حرملہ کربلا کے بعد اب کسی شخص کے نام ہی نہیں رہ گئے بلکہ یہ ظلم و بربریت اور سفاکی کی علامت بن چکے ہیں۔ کربلا کے بعد بھی دیگر آئمہ طاہرین کے دور میں یزید و حرملہ پیدا ہوتے رہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے مگر یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اس طرح کے یزیدوں اور حرملاوں سے مقابلہ کرنے اور ان کی ناک رگڑنے کے لئے ہر دور میں مکتب حسینیت کے پیرو بھی موجود رہے ہیں۔
موجودہ دور میں بھی یزید اور حرملہ اپنے اپنے انداز میں موجود ہیں جو معصوم اور بے گناہوں کا خون پوری بے دردی کے ساتھ بہا رہے ہیں۔ آج سرزمین فلسطین میں معصوم بچوں خواتین اور بے گناہ شہریوں کا خون بہانے والے کوئی اور نہیں بلکہ وقت کے یزیدی اور حرملہ صفت جلاد ہیں۔ جنھیں آج کی خبری اصطلاح میں امریکی، صہیونی اور نیوکانز یا سامراجی کہا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف جذبہ ایمانی سے سرشار نہتے و بے سہارا لوگ ہیں جو عصر حاضر کے یزیدیوں اور یزیدی فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں کیونکہ ان کے سامنے کربلا موجود ہے اور کربلا تو وہ ابدی کارنامہ ہے جو ہر دور کے استبداد اور ظلم کے بانیوں کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
بقول جوش ملیح آبادی ’کربلا ایک ابدی جنگ ہے سلطانوں سے‘۔ اس میں شک نہیں کہ کربلا کا سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں اس پر بھروسہ کر کے ظلم کے ایوانوں کو مسمار کیا جا سکتا ہے۔ کربلا کے میدان میں شہادت حسین علیہ السلام کے بعد کائنات انسانی کو دو کردار مل گئے۔ یزیدیت جو بدبختی ظلم، استحصال، جبر، تفرقہ پروری، قتل و غارت گری اور خون آشامی کا استعارہ بن گئی اور حسینیت جو عدل، امن، وفا اور تحفظ دین مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی علامت ٹھہری، قیامت تک حسین بھی زندہ رہے گا اور حسینیت کے پرچم بھی قیامت تک لہراتے رہیں گے۔ یزید قیامت تک کے لیے مردہ ہے اور یزیدیت بھی قیامت تک کے لیے مردہ ہے۔
حسین علیہ السلام کی روح ریگ کربلا سے پھر پکار رہی ہے۔ آج سیدہ زینب علیہا السلام کی روح اجڑے ہوئے خیموں سے ہمیں صدا دے رہی ہے۔ آج علی اکبر اور علی اصغر کے خون کا ایک ایک قطرہ دریائے فرات کا شہدائے کربلا کے خون سے رنگین ہونے والا کنارہ ہمیں آواز دے رہا ہے کہ حسین علیہ السلام سے محبت کرنے والو! حسینیت کے کردار کو اپنے قول و عمل میں زندہ کرو۔ یزیدیت کو پہچانو، یزیدیت تمہیں توڑنے اور تمہارے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے، حسینیت تمہیں جوڑنے کے لئے ہے۔ حسینیت اخوت، محبت اور وفا کی علمبردار ہے، یزیدیت اسلام کی قدریں مٹانے کا نام ہے۔ حسینیت اسلام کی دیواروں کو پھر سے اٹھانے کا نام ہے، یزیدیت قوم کا خزانہ لوٹنے کا نام ہے، حسینیت قوم کی امانت کو بچانے کا نام ہے۔
اس دنیائے فانی میں اپنے مکر و فریب اور جبر و تشدد سے حاصل کی ہوئی قوت کے بل بوتے پر کسی کا بظاہر کامیاب نظر آنا اور اقتدار حاصل کر لینا، اصل کامیابی نہیں بلکہ حقیقی اور دائمی کامیابی یہ ہے کہ انسان کو تخت ملے یا تختہ وہ دنیاوی جاہ و حشمت کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا دامن نہ چھوڑے۔ ظالم و فاسق لوگوں کا کچھ وقت کے لئے اقتدار کے نشے میں بد مست ہونا تمہیں ان کی کامیابی کا مغالطہ نہ دے کیونکہ ان کے یہ دنیاوی فوائد تو چند روزہ ہیں پھر جب اللہ تعالیٰ گرفت فرمائیں گے تو یہ سب مال و متاع اور جاہ و حشمت دھری کی دھری رہ جائے گی اور یہ لوگ دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیئے جائیں گے۔ مزید برآں آخرت کے ساتھ ان کی دنیا بھی جہنم زار بنا دی جائے گی۔
بے شمار لوگ ایسے ہوئے کہ جو کرسی اقتدار پر بیٹھ کر تکبر کرتے رہے اور اپنے زعم باطل میں خدا بن بیٹھے مگر ان کا انجام یہ ہوا کہ وہ نہ صرف اس جھوٹی خدائی کے تخت سے ہٹا دیئے گئے بلکہ انہیں اسی دنیا میں نشان عبرت بنا کر نیست و نابود کر دیا گیا۔ کسی شاعر نے ایسے ہی نشہ اقتدار میں بد مست حکمران کے لئے کیا خوب کہا ہے۔ ’تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا، اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا‘۔ جو شخص اللہ کے دین سے بغاوت کرتا ہے، قوت ربانی کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے چند دنوں کے لئے اسے ڈھیل دی جاتی ہے تاکہ وہ ظلم میں اپنی انتہا اور بدبختی میں اپنی آخری حد کو پہنچ جائے۔ جب اس کا ظلم اپنے انجام کو پہنچتا ہے اللہ تعالیٰ کا عذاب اور گرفت آتی ہے، اسے نیست و نابود کر دیا جاتا ہے اور آنے والی نسلوں میں اس کا نام تک لینے والا کوئی نہیں ہوتا۔
یزید کہ جس نے دنیا کی چند روزہ حکومت اور اقتدار کی خاطر اپنے ایمان کا سودا کرتے ہوئے خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ظلم کی انتہا کر دی اور کربلا کے تپتے ہوئے ریگزار میں بھوک اور پیاس سے نڈھال اہل بیت کو شہید کر دیا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے عہد و پیماں کو جو ہم نے امام سے کئے تھے، پورے خلوص کے ساتھ انجام دیں ورنہ رحلت پیمبر اکرم کے بعد ایک بار پھر کربلا میں روز عاشور، حسین ابن علی کے خون سے عصر خونین نمودار ہوگی، ورنہ ایک بار پھر اہل حرم کے لئے شام غریباں برپا ہوگی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔