رمضان سے پہلے جنگ بندی نہ ہوئی تو صورت حال بہت خطرناک ہو جائے گی: جوبائیڈن
امریکی صدر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’اس کے لیے کوئی عذر یا بہانہ نہیں ہو سکتا ہے کہ لوگوں تک فلسطینی علاقے میں امدادی سامان نہ پہنچنے دیا جائے۔‘
امریکی صدر جوبائیڈن نے خبردار کیا ہے کہ رمضان سے پہلے جنگ بندی کا نہ ہونا بہت خطرناک ہو جائے گا۔ اس بات کا انحصار اب حماس پر ہے کہ وہ 6 ہفتوں کے لیے جنگ بندی کی تجاویز کو قبول کرتا ہے یا نہیں۔ انہوں نے یہ باتیں کیمپ ڈیوڈ میں کچھ دن قیام کے بعد واپس وائٹ ہاؤس جانے سے پہلے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہیں۔
امریکی صدر نے اس موقع پر غزہ میں اسرائیلی فوج کی طرف سے انسانی بنیادوں پر امداد کی ترسیل کی راہ میں پیدا کردہ رکاوٹوں کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ’’اس کے لیے کوئی عذر یا بہانہ نہیں ہو سکتا ہے کہ لوگوں تک فلسطینی علاقے میں امدادی سامان نہ پہنچنے دیا جائے۔‘‘ امریکی صدر نے جنگ بندی کو حماس پر ڈال دیا۔ واضح رہے پچھلے ماہ امریکہ نے اسرائیلی خواہش کی تیسری بار تعمیل کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا۔ تاہم اس کے بعد امریکی انتظامیہ کو امریکہ کے اندر اور باہر سے سخت دباؤ کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : کانگریس کے منشور کا مسودہ کھڑگے کو سونپا گیا
صدر جوبائیڈن جنگ کے 5 ماہ مکمل ہونے اور 30600 سے زائد فلسطینیوں کے غزہ میں قتل کے بعد کے درپیش مرحلے پر اطمینان ظاہر کیا کہ اسرائیل جنگ بندی کے لیے تعاون کر رہا ہے، جوبائیڈ نے کے بقول ’’اس کی پیش کش منطقی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ہم اگلے ایک دو دنوں کے دوران جنگ بندی کے بارے میں جان جائیں گے مگر ہم جنگ بندی چاہتے ہیں۔‘‘
امریکی صدر نے مزید کہا ’’رمضان سے پہلے جنگ بندی ضروری ہے اگر اس میں ہم کامیاب نہ ہوئے تو یہ یروشلم اور اسرائیل کے لیے بہت بہت خطر ناک ہو سکتا ہے۔‘‘ خیال رہے رمضان المبارک کا آغاز 10 یا 11 مارچ کو متوقع ہے۔ تاہم اسرائیلی وزیر اعظم کے اہم ترین اتحادیوں میں سے ایک انتہا پسندی یہودی رہنما اور وزیر ایتمار بین گویر نے کہا ہے کہ ’’رمضان کے دوران ہم مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ میں جانے کی اجازت دے کر اپنے لیے خطرہ مول نہیں لے سکتے۔‘‘ دوسری جانب امریکہ نے پچھلے ماہ اسرائیل پر زور دیا تھا کہ رمضان کے دوران مسجد اقصیٰ میں عبادات کی اجازت دی جائے۔ اس بارے میں اسرائیلی حکومت ابھی تک سخت رائے رکھتی ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے کیمپ ڈیوڈ میں رپورٹروں سے بات چیت کے دوران کہا ’’ ہم ان کے ساتھ مل کر سخت محنت کر رہے ہیں، ہمیں غزہ میں مزید امداد چاہیے۔ اس کے لیے کوئی عذر قبول نہیں ہو سکتا ہے۔‘‘ واضح رہے اسرائیلی وزیر اعظم کی جنگی کابینہ میں شامل سب سے بڑے حریف سیاسی رہنما بینی گانٹز نے پیر کے روز وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا ہے اور نائب صدر کملا ہیرس کے علاوہ دوسرے امریکی حکام کے ساتھ بھی ملاقات کی ہے۔ اس موقع پر یرغمالیوں کی رہائی کا معاملہ بطور خاص زیر گفتگو رہا۔
بشکریہ: العربیہ ڈاٹ نیٹ
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔