بی جے پی نے اپنے ترجمانوں کو سزا دینے کا قدم خوف کے عالم میں اٹھایا!... سجاتا آنندن
ہندوتوا کے کٹر پسند افراد ہندوستان میں مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی اپیل کر رہے تھے، لیکن اب یہی سب الٹا ان کے سر پر پھوٹ گیا ہے اور ملک کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
بی جے پی نے حال ہی میں اپنے دو ترجمانوں کو پارٹی سے برخاست کیا ہے۔ ایک کو معطل اور دوسرے کو باہر کا راستہ دکھا دیا گیا ہے۔ مجھے اس واقعہ پر ترس آتا ہے... نہیں، ان ترجمانوں کے لیے نہیں، بلکہ بی جے پی کے اس قدم کے بعد برآمد ہونے والے نتیجوں پر۔ اور اب تو ظاہر ہے ہی کہ بی جے پی اور وی ایچ پی کے اسلاموفوبیا (اسلام کا خوف پیدا کرنے کی کرتوتیں) کی وجہ سے ملک کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
ہندوتوا کے کٹر پسند افراد ہندوستان میں مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی اپیل کر رہے تھے، لیکن اب یہی سب الٹا ان کے سر پر پھوٹ گیا ہے اور ملک کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ترکی نے ہمارا گیہوں لوٹا دیا ہے، سعودی عرب اور یو اے ای نے ہماری مصنوعات خریدنا بند کر دیا ہے، انڈونیشیا نے ہمیں پام آئل فروخت کرنا بند کر دیا ہے، جو کہ ہمارے ملک میں سب سے سستا اور سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا تیل ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ہندوستانی مصنوعات کے اس بائیکاٹ سے ہندوستانی معیشت کی حالت بہت ہی خراب ہونے کا اندیشہ بڑھ گیا ہے۔ ویسے بھی ہماری معیشت کوئی بہت اچھے حال میں نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں : کانپور فساد: سنگ وخشت مقید اور سگ آزاد... اعظم شہاب
ایسی سرگوشیاں ہیں کہ اسلاموفوبیا کا پرچم بلند کرنے والی برسراقتدار پارٹیوں کے کئی لیڈران اپنا پیسہ سوئس بینکوں میں نہیں (کیونکہ سوئس بینک اب زیادہ سود وصولنے لگے ہیں) بلکہ دبئی اور یو اے ای کے دیگر بینکوں میں رکھنے لگے ہیں۔ اور اگر بی جے پی کی حرکتوں کے سبب انھوں نے یہ بینک اکاؤنٹس فریز کر دیے تو زبردست نقصان اٹھانا پڑے گا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ شاید اسی خوف سے آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کو یہ بیان دینا پڑا کہ مسلمانوں کے پیچھے پڑنا بند کرو اور ہر مسجد میں شیولنگ تلاشنا بند کرو۔ اور ہاں، یہ سب صرف اس لیے نہیں ہوا کہ امریکی وزیر خارجہ نے ہندوستان میں اقلیتوں کی حالت پر فکر کا اظہار کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں : کیا اعظم خان نے رامپور لوک سبھا سیٹ بی جے پی کے حوالے کر دی؟
کسی بھی قسم کی شورش پسندی کی ایک حد ہوتی ہے اور ایک بریکنگ پوائنٹ ہوتا ہے۔ اور شاید، پیغمبر محمدؐ پر قابل اعتراض بیان دینا وہی حد اور بریکنگ پوائنٹ تھا جس کے بعد ان ممالک نے ہندوستان کو متنبہ کیا اور اپنا سخت اعتراض درج کرایا۔ مجھے وہ دور اچھی طرح یاد ہے جب شیوسینا سربراہ بال ٹھاکرے سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ مرکز کی واجپئی حکومت ملک کے مسلمانوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ان کے ساتھ خیر سگالی پر مبنی رشتے کیوں بنا رہی ہے۔ تب واجپئی حکومت میں ایک وزیر نے مجھ سے کہا تھا کہ مرکز کی کوئی بھی حکومت ہندوستان کے تیل کی ضرورتوں کو ہمیشہ دھیان میں رکھتی ہے۔ اسی بات کو بعد میں اندرا گاندھی کے دور کے ایک کانگریس لیڈر نے بھی دہرایا تھا کہ مسلمانوں پر مظالم اور ان کے پیچھے پڑنے سے اوپیک (تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم) ملک جو زیادہ تر مسلم اکثریت ہیں، ہندوستان کو تیل برآمدگی روک سکتے ہیں اور اس کا ہندوستانی معیشت پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔
بلاشبہ ہندوستان روسی تیل حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اس سے مسئلہ کا حل تو ہو نہیں سکتا کیونکہ ہماری بہت ساری برآمدگی تو خلیجی ممالک میں ہی ہوتی ہے اور یہ بند ہو سکتی ہے۔ ایسے میں بی جے پی کا یہ بے حد خیالی اور دوغلہ بیان کہ بی جے پی کسی بھی مذہبی شخصیت یا مذہب کے خلاف قابل اعتراض الفاظ کی حمایت نہیں کرتی ہے، اور اسی لیے اس نے اپنے دو ترجمانوں کو سزا دی ہے، بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔
ویسے دوسرے مذاہب، طبقات اور یہاں تک کہ خواتین کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال کرنا بی جے پی کی عادت ہے (یاد ہے بی جے پی رکن پارلیمنٹ اور بی جے پی یوتھ وِنگ کے صدر تیجسوی سوریہ کا وہ بیان جو انھوں نے عرب ممالک کی خواتین کے بارے میں دیا تھا)۔ لیکن اب بی جے پی کو خود ہی اپنے ان الفاظ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ وہ پنڈت نہرو کے الفاظ کو دو بار دہرانا ہو یا پھر اسلاموفوبیا سے پیچھے ہٹنے کا دِکھاوا کرنا، وہ اب اسے خود ہی بھاری پڑ رہا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔