منی پور تشدد: سیکورٹی فورسز کے سہارے امن بحالی آخر کب تک ممکن ہے؟
حالات معمول پر لانے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر اب تک خاص قسم کے ڈرونز یا کواڈ کاپٹرز، اسنائفر ڈاگز مخصوص علاقوں میں گشت کر رہے ہیں اور اضافی مسلح اہلکاروں کی تعیناتی کی گئی ہے۔
امپھال: منی پور میں تشدد شروع ہونے کے دو ہفتے بعد 16 مئی کو انٹرنیٹ پر پابندی میں مزید 5 دن کی توسیع کر دی گئی ہے۔ دریں اثنا، یہ الزامات بھی عائد کیے جا رہے ہیں کہ یہ پابندی منتخب طور پر اور صرف پہاڑی علاقوں پر عائد کی جا رہی ہے۔ 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں جو کچھ ہوا اسی طرح منی پور کو بھی انٹرنیٹ پابندیوں کا سامنا ہے۔ حالات معمول پر لانے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر اب تک خاص قسم کے ڈرونز یا کواڈ کاپٹرز، اسنائفر ڈاگز مخصوص علاقوں میں گشت کر رہے ہیں اور اضافی مسلح اہلکاروں کی تعیناتی کی گئی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیکورٹی فورسز آخر کب تک امن قائم رکھ سکیں گی؟
یہ بھی پڑھیں : فوج اور زمینداروں کے جنجال میں پھنسا پاکستان… ظفر آغا
منی پور کی پہاڑیوں میں کوکی-چِن قبائل اور وادی امپھال میں میتیوں کے درمیان عدم اعتماد کی کھائی مزید چوڑی ہو رہی ہے۔ 3 مئی سے شروع ہونے والے تشدد میں متعدد افراد ہلاک ہو چکے ہیں لیکن پہاڑی قبائل زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور بڑی تعداد میں بے گھر ہوئے ہیں۔ اس ذات پات کے تشدد میں مارے گئے لوگوں کے بارے میں ابھی تک صورت حال واضح نہیں ہے۔ ریاستی حکومت کی طرف سے پیش کیے جانے والے 50-70 کے اعداد و شمار پر کوئی بھی یقین نہیں کرتا۔
لوگ قریبی میزورم، آسام اور دیگر علاقوں میں پناہ لے رہے ہیں۔ وہ اس تشدد کی لرزہ خیز تفصیلات پیش کر رہے ہیں۔ چونکہ پڑوسی ریاستوں میں انٹرنیٹ پر کوئی پابندی نہیں ہے، اس لیے یہ تفصیلات دوسرے حصوں تک پہنچ رہی ہیں۔ منی پور میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں قائل کرنے والی داستانوں کی عدم موجودگی میں، قبائلیوں کو گولی مار دیئے جانے، ان پر حملہ کرنے اور عصمت دری کی کہانیاں گردش کر رہی ہیں، جو حالات کو مزید خراب کر رہی ہیں۔
میزورم قریب ترین پڑوسی ریاست ہے اور منی پور کے پہاڑی قبائل وہاں کے لوگوں کے ساتھ نسلی تعلقات رکھتے ہیں۔ 5822 بین الاقوامی طور پر بے گھر افراد بھی وہاں رپورٹ کیے گئے ہیں۔ کوکی لوگوں کی بڑی تعداد نے آسام اور میگھالیہ سے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ دہلی میں پناہ لی ہے۔ بہت سے لوگ جو بڑی مشکل سے اینٹ سے اینٹ جوڑ کر اپنا گھر بناتے ہیں انہوں نے اپنی روزی روٹی کو آگ میں جھلستے دیکھا ہے۔ اس سے قبل منی پور کو کبھی اس طرح کی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔
منی پور کی پہاڑیوں میں ناگاوں اور کوکیوں کے درمیان مبینہ تجاوزات کے نام پر 1992-1997 کے درمیان کئی تنازعات ہوئے ہیں۔ ناگاوں نے الزام لگایا کہ کوکیوں نے ان کے آبائی گھروں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ کوکی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ این ایس سی این (آئی ایم) نے اس وقت 350 گاؤں کو تباہ کر دیا اور تقریباً 1500 غیر مسلح کوکیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس وقت بھی ہزاروں کوکی لوگ بے گھر ہوئے تھے۔
اس کے سبب کوکی دہشت گرد تنظیمیں اپنے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ اس کے بعد ناگا کوکی تنازعہ میں کئی لوگ مارے گئے۔ اس کے باوجود دونوں قبائل کے درمیان تعلقات اتنے خراب نہیں ہوئے کہ وہ ایک ساتھ نہ رہ سکیں لیکن منی پور کے 10 کوکی ارکان اسمبلی نے مرکزی وزیر داخلہ کو لکھے ایک خط میں علیحدہ 'انتظامیہ' کا مطالبہ کیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ان میں سے 7 ارکان اسمبلی بی جے پی کے ہیں۔ اس خط میں الگ ریاست کا مطالبہ تو نہیں کیا گیا، تاہم یہی بات الگ انداز میں کہی گئی ہے۔
اس جدوجہد کا مرکز آبادی اور زمین کی غیر مساوی تقسیم ہے۔ میتیی آبادی کا تناسب 52 سے 60 فیصد کے درمیان ہے لیکن وہ منی پور کے 10 فیصد علاقے پر قابض ہیں۔ باقی حصہ زیادہ تر قبائلیوں پر مشتمل ہے جو ریاست کے جغرافیائی رقبے کے 90 فیصد پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس بار تشدد کو پہاڑی قبائل کے اس خدشے کی وجہ سے ہوا ملی کہ اگر ویشنوی ہندو میتیوں کو درج فہرست ذات کا زمرہ دے دیا گیا تو وہ نہ صرف مزید نوکریاں حاصل کر سکیں گے بلکہ وہ پہاڑیوں میں زمین بھی خرید سکیں گے، جس کی فی الحال انہیں اجازت نہیں ہے۔ میتیوں کی مالی حالت بہتر ہے اور قبائلیوں کو خوف ہے کہ انہیں پہاڑیوں میں زمین خریدنے میں وقت نہیں لگے گا۔
قبائلیوں کے لیے زمین ان کے آباؤ اجداد کا دیا ہوا تحفہ ہے اور اسے کسی غیر قبائلی کو کسی بھی شکل میں دینا اس زمین کی توہین سمجھا جاتا ہے۔ میتئی صرف وادی امپھال میں مرکوز ہیں۔ منی پور کا رقبہ تقریباً 20000 مربع کلومیٹر ہے۔ وادی امپھال ان میں سے تقریباً 2000 مربع کلومیٹر ہے۔ میتئی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی آبادی بڑھ رہی ہے اور یہ زمین ان کے لیے قیمتی ہے، جب کہ وسائل کی کمی ہے۔
میتیوں کا غصہ اور قبائلیوں کے خدشات - دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہیں جبکہ حالات کو سنبھالنے کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔ ریاستی حکومت نے حل کی تلاش میں قبائلی کونسلوں اور آئینی طور پر تشکیل شدہ ہل ایریا کونسل (ایچ اے سی) سے رابطہ نہیں کیا ہے۔ اس کے بجائے ایچ اے سی یا قبائلیوں کو اعتماد میں لیے بغیر منی پور کی بی جے پی حکومت نے پہاڑیوں کے جنگلاتی علاقے پر قبضہ کر کے انہیں محفوظ جنگلات اور جنگلی حیات کی پناہ گاہوں میں تبدیل کر کے معاملے کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔
زمین اور آبادی کے درمیان اس قسم کے تفاوت کی تاریخی وجوہات ہیں۔ کوکی چن قبائل اصل میں برما (موجودہ میانمار) کی چن پہاڑیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سفاک برمی حکمرانوں سے بچنے کے لیے وہاں سے آئے تھے۔ درحقیقت برمی بادشاہ طاقتور تھے اور انہوں نے 1819 سے 1825 کے درمیان سات سال تک منی پور پر حکومت کی تھی۔ اس مدت کو تباہی کے سات سال قرار دیا جاتا ہے۔ برمی جنرل منگی مہا بندولا نے راجہ مارگیت سنگھ اور اس کے حامیوں کو کچھار سے بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ منی پور کی ایک بڑی تعداد بھی کچھار سے بھاگ گئی تھی کیونکہ وہ برمی جبر اور استبداد کو برداشت نہ کر سکے۔ برمی حکمرانی نے برطانوی حکمرانوں کو بھی للکارا تھا۔ آخر کار 1825 میں منی پوری کے شہزادے گمبھیر سنگھ نے برطانوی فوج کی مدد سے برمیوں کو امپھال سے باہر نکال دیا تھا۔ دسمبر 1825 اور جنوری 1826 کے درمیان گمبھیر سنگھ برطانوی تعاون سے برمیوں کو کابو وادی سے باہر نکالنے میں کامیاب رہے تھے۔
لیکن برطانوی فوج نے آگے بڑھ کر برما کے اس وقت کی راجدھانی آوا سے 25 کلومیٹر دور یانڈابو پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد انگریزوں اور برمی حکمرانوں کے درمیان ینڈابو معاہدہ ہوا جس میں برما نے آسام، کچھار اور جینتیا کے علاوہ منی پور کے علاقوں میں مداخلت نہ کرنے پر اتفاق کیا۔ منی پور کا راجہ برطانوی سیاسی نمائندگان کی نگرانی میں کام کرتا رہا لیکن ان کے مشورے کے بغیر برطانوی حکومت نے وادی کابو کو برما کے حوالے کر دیا۔ منی پور کی مشرقی سرحد اور دریائے چندوین کے درمیان تقریباً 1200 مربع کلومیٹر کا یہ علاقہ بہت زرخیز ہے۔
اس سے منی پور کو شدید صدمہ پہنچا۔ 1891 کی اینگلو منی پور جنگ کے بعد انگریزوں نے کانگلا محل پر قبضہ کر لیا اور منی پور برطانوی ہندوستان کا حصہ اور یہاں کا بادشاہ کٹھ پتلی بن گیا۔ پھر 1907 میں جنرل ایڈمنسٹریشن آف اسٹیٹ رولز (آر ایف جی اے ایس) کے تحت انگریزوں نے راجہ چورا چند کی سربراہی میں ایک دربار قائم کیا اور ریاست کا اقتدار ان کے حوالے کر دیا لیکن ناگاوں، کوکیوں اور دیگر قبائل کے زیر قبضہ پہاڑیوں نے انتظامیہ کو وادی سے الگ کر دیا گیا۔ اس کی ذمہ داری دربار کے نائب صدر پر تھی جو ایک انگریز افسر تھا۔ بادشاہ کا پہاڑوں پر کوئی اختیار نہیں تھا۔ آزادی کے بعد منی پور ستمبر 1949 میں مہاراجہ بودھ چند سنگھ کے دستخط سے ہندوستان میں شامل ہو گیا۔ پہلے یہ یونین ٹریٹری تھا، جبکہ 1962 میں اسے مکمل ریاست کا درجہ حاصل ہوا لیکن زمین اور آبادی کی عدم مساوات کا مسئلہ حل نہ ہو سکا۔
بی جے پی کی این بیرین سنگھ حکومت کی منشیات کے خلاف مہم اور پہاڑیوں میں گانجا-بھنگ-پوست کی کاشت کے رقبے میں کمی کی وجہ سے اس بار تشدد پھوٹ پڑا۔ اس میں امپھال کے منشیات فروشوں کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر حکومت کی مہم ٹھیک چلتی تو قبائلیوں کی روزی روٹی متاثر ہوتی جبکہ منشیات کا کاروبار کرنے والوں اور اس میں سرمایہ کاری کرنے والوں کا بہت نقصان ہوتا۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ زیادہ تر میتئی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس وقت قبائلیوں کے لیے الگ ریاست کا مطالبہ بہت ناپختہ ہے لیکن اس سب کا مستقل حل زیادہ دیر تک ٹالا نہیں جا سکتا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔