شیلا دکشت طاقت کے لئے نہیں بلکہ دہلی کی بہتری کے لئے لڑیں، اجے ماکن کا دہلی کے اختیارات پر بیان

سپریم کورٹ نے اس معاملہ میں ریاستی حکومت کے حق میں فیصلہ سنایا، جبکہ مرکزی حکومت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے اس فیصلے کو الٹ دیا ہے۔

اجے ماکن / ٹوئٹر
اجے ماکن / ٹوئٹر
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: دہلی حکومت اور مرکزی حکومت اس بات پر دست و گریباں ہیں کہ دہلی کے افسران کے تبالوں اور تعیناتی کا اختیار کس کے پاس ہوگا۔ سپریم کورٹ نے اس معاملہ میں ریاستی حکومت کے حق میں فیصلہ سنایا دیا ہے، جبکہ مرکزی حکومت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے اس فیصلے کو الٹ دیا ہے۔ اس تنازعہ کے درمیان کانگریس لیڈر اجے ماکن نے ٹوئٹ کرکے دہلی کی سابق وزیر اعلی شیلا دکشٹ کے کام کرنے کے انداز کو یاد کیا ہے۔

اجے ماکن نے ٹوئٹ کیا ’’دہلی 2000 کی دہائی کے اوائل میں ایک تاریخی تبدیلی سے گزر رہی تھی۔ میں ٹرانسپورٹ، بجلی اور سیاحت کے وزیر کے طور پر وزیر اعلیٰ شیلا دکشت کی قیادت میں کام کر رہا تھا۔ ہم نے پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے سی این جی کو استعمال کرنے، میٹرو شروع کرنے اور محکمہ بجلی میں اصلاحات کرنے جیسے کئی اقدامات کی قیادت کی۔‘‘


اجے ماکن نے کہا ’’ایک صبح مجھے پریشان کن خبر ملی۔ مجھے معلوم ہوا کہ میری ٹرانسپورٹ کمشنر سندھوشری کھلر کا تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ ان کے تبادلے سے پبلک ٹرانسپورٹ کی سی این جی پر منتقلی میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر نیا افسر لابسٹ ہوا تو کیا ہوگا؟ میں نے شیلا جی سے بات کی، کہا میڈم آپ نے میرا ٹرانسپورٹ کمشنر بدل دیا ہے، میں نے اخبار میں پڑھا، اس سے ہمارے پبلک ٹرانسپورٹ کو سی این جی پر تبدیل کرنے کے منصوبے کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا آپ کو کس نے کہا؟ آپ افواہوں کی بنیاد پر پریشان کیوں ہوتے ہیں؟‘‘

کانگریس لیڈر نے کہا ’’لیکن جلد ہی یہ افواہیں حقیقت میں تبدیل ہو گئیں۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ نے کہا کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ مجھے پہلے اس کے بارے میں علم نہیں تھا لیکن پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہم اسے چیلنج کریں گے۔ ایل جی ایسا فیصلہ کس طرح لے سکتے ہیں! ہم نے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے اپیل کی لیکن ایل جی اپنا فیصلہ بدلنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس احکامات آ چکے ہیں، میں اس فیصلے کو واپس نہیں لے سکتا۔‘‘


ماکن نے کہا، "شیلا جی نے مرکزی حکومت کے کئی سینئر عہدیداروں کو طلب کیا۔ انہوں نے ان سے مداخلت کی درخواست کی۔ بدقسمتی سے شام تک فیصلہ نہیں بدلا گیا۔ میں نے اس سیاسی رکاوٹ کو بے نقاب کرنے کے لیے ایک پریس کانفرنس کی تجویز پیش کی۔ تاہم شیلا جی کی حکمت عملی مختلف تھی۔ انہوں نے کہا، نہیں، نہیں، ہماری ناکامی کے بارے میں کسی کو مت بتانا۔ حکام کو یہ نہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے کوشش کی اور کامیاب نہیں ہوئے۔ اگر انہیں معلوم ہوا تو وہ ہماری بات سنجیدگی سے سننا چھوڑ دیں گے۔‘‘

وزیراعلیٰ نے کہا کہ نئے افسر کو طلب کریں۔ انہیں بتائیں کہ وزیر اعلیٰ ان کی تقرری سے خوش ہیں۔ انہیں بتائیں کہ سی این جی کی تبدیلی کیوں ضروری ہے۔ انہیں چائے اور پکوڑوں کی دعوت دیں۔ یہ افسران کسی کے ساتھ نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ ہوشیاری سے پیش آئیں۔ وزیر اعلیٰ کے مشورے پر اپنے شکوک و شبہات کے باوجود میں نے نئے افسر کے ساتھ چائے اور پکوڑوں کا اشتراک کیا۔ انہیں بتایا کہ سپریم کورٹ فضائی آلودگی کو کم کرنے کی ہماری کوششوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ ہمارے لیے دہلی میں سی این جی کا نفاذ ضروری ہے۔ نئے افسر نے صورتحال کی سنگینی کو سمجھا۔ ہم مختلف لابیوں کے خلاف متحد ہو گئے۔ سپریم کورٹ اور یہاں تک کہ امریکی حکومت کی طرف سے بھی تعریف ہوئی۔ میں فخر سے کہتا ہوں کہ ہم پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو مکمل طور پر سی این جی میں تبدیل کرنے والا دنیا کا پہلا شہر بن گئے۔


اجے ماکن نے مزید کہا کہ شیلا دکشت جی کی حکومت کے پہلے 6 سال سب سے زیادہ نتیجہ خیز تھے۔ انہوں نے اقتدار کے لیے نہیں بلکہ دہلی کی بہتری کے لیے لڑائی لڑی۔ بجلی کی نجکاری، سی این جی کی تبدیلی، میٹرو لانچ، فلائی اوورز کی تعمیر، اسپتال، اسکول یہ سب دہلی کے لیے ان کی انتھک جدوجہد کا نتیجہ ہیں۔ مجھے امید ہے کہ موجودہ وزیر اعلیٰ بھی اس سفر کا نوٹس لیں گے اور اس سے سبق حاصل کریں گے۔

اجے ماکن نے کہا کہ افسران کے ساتھ احترام سے پیش آئیں، بات چیت کریں اور انہیں دہلی کی ترقی کے لیے قائل کریں۔ اگر آپ کا ویژن مخلص ہے تو وہ یقینی طور پر اس پر عمل کریں گے۔ آپ کے ماضی کے اعمال، افسروں کو غیر اخلاقی اوقات میں طلب کرنا، بدسلوکی اور سخت الفاظ کا سہارا لینا، یہ سب کچھ تعمیری کام نہیں ہیں۔ آپ کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس طرح کے برتاؤ سے صرف شہر کی پریشانی میں اصافہ ہوتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 21 May 2023, 3:16 PM