فوج اور زمینداروں کے جنجال میں پھنسا پاکستان… ظفر آغا
پاکستان نے مذہب کی بنیاد پر زمیندارانہ نظام کی بنیاد رکھی، جبکہ دوسرے نو آزاد ملک سیکولر اور جمہوری بنیادوں پر ایک جدید ملک کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ یعنی پاکستان حال نہیں بلکہ ماضی کے اصولوں پر قائم ہوا
جب کسی ملک کی بنیاد ہی غلط ہو تو وہ ملک آئے دن گہرے مسائل سے دو چار رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی قیمت ملک کے عوام کو چکانی پڑتی ہے۔ پاکستان بھی ایک ایسا ملک ہے جو آئے دن نہ صرف مسائل میں پھنسا رہتا ہے، بلکہ اکثر اس کے وجود کو بھی خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں سے پاکستان سخت معاشی بحران کا شکار تھا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ عام پاکستانی کے لیے روٹی دال کے لالے پڑ گئے۔ بڑی منت و سماجت کے بعد آئی ایم ایف نے تھوڑا بہت قرض دیا تو کچھ کام چلا۔ لیکن ابھی معاشی مسائل پوری طرح حل ہی نہیں ہوئے تھے کہ ملک زبردست سیاسی بحران کا شکار ہو گیا اور مسئلہ اتنا سنگین ہے کہ اب ملک کا وجود بھی خطرے میں آ گیا ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کو پہلے تو جیل ہوئی، پھر سپریم کورٹ نے ان کی رہائی کا حکم دیا۔ لیکن اس بیچ عمران کی گرفتاری پر عوام بھڑک اٹھی اور سڑکوں پر آگ لگ گئی۔ عوامی احتجاج حد سے گزر گئے۔ حالت اتنے بدتر ہوئے کہ احتجاجی راولپنڈی میں واقع آرمی ہیڈکوارٹر میں گھس گئے اور لاہور میں کور کمانڈر کے بنگلے پر قبضہ کر لیا۔ پاکستان میں فوج کے خلاف کچھ کرنا گناہ ہے۔ لیکن پھر بھی اس کی پروا کیے بنا عوام فوج کے خلاف سڑکوں پر اتری رہی۔ اس ہنگامہ آرائی کے درمیان ملک کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے حکم دیا کہ عمران کو فوراً کورٹ میں پیش کریں۔ اور پھر فوراً ان کو رہائی کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس کا یہ حکم پورے پاکستانی نظام کی مرضی کے خلاف تھا۔ پاکستان ایک زمیندارانہ سماج ہے۔ سپریم کورٹ کے اس حکم سے فوج اور عمران کی پارٹی کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیوں سمیت شہباز شریف حکومت کی ناک کٹ گئی۔ جواباً پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کو ہٹانے کے لیے ایک موشن پاس کر دیا۔ اب عمران اور ان کے حامیوں اور فوج و ان کے مخالفین کے درمیان ٹھن گئی ہے۔ اور ملک ایک سنگین سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔
الغرض فی الوقت پاکستان کا فوجی اور سیاسی اتفاق رائے بکھر چکا ہے۔ فوج، عدلیہ اور سیاسی پارٹیوں کے درمیان سخت اختلاف ہے جو ملک کے لیے ایک خطرناک بات ہے۔ حالات اس قدر سنگین ہیں کہ اکثر سیاسی مبصرین اس کو پاکستان کے وجود کا خطرہ بتا رہے ہیں۔ اب پاکستان سہی و سالم اس مسئلہ سے باہر نکل آئے یا پھر سنہ 1971 کی طرح ایک بار پھر ٹوٹ جائے یہ تو وقت اور انٹرنیشنل حالات ہی طے کریں گے۔ لیکن یہ طے ہے کہ پاکستانی صورت حال کچھ ویسی ہی شکل اختیار کر رہی ہے جیسی کہ سنہ 1970 کی دہائی کے شروع میں بنگلہ دیش کے قیام سے قبل تھی۔ اس وقت پنجابی اور بنگالیوں کے درمیان رسہ کشی تھی۔ سنہ 1971 میں چناؤ کے بعد جب اس وقت کہ پوربی پاکستان نے مجیب الرحمن کو اکثریت دے کر متحدہ پاکستان کا وزیر اعظم چن لیا تو پنجابی اور پچھمی پاکستان کے دوسرے گروپوں نے اس چناوی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ بس پورب میں بنگالی سڑکوں پر اتر پڑے۔ اب فوجی نظام نے پوربی پاکستان میں مداخلت کی اور بنگالیوں کو سبق سکھانے کے لیے ان کی نسل کشی تک کر ڈالی۔ بس بنگال مجیب الرحمن کی قیادت میں پاکستان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ دیکھتے دیکھتے یہ رسہ کشی بنگالیوں کی جنگ آزادی بن گئی اور آخر سنہ 1971 میں ہندوستان کی مدد سے بنگالیوں نے پاکستان سے نجات حاصل کر ایک آزاد ملک بنگلہ دیش بنا ڈالا۔
اس وقت بھی پاکستان کے سیاسی حالات کچھ وہی رنگ لے رہے ہیں جیسے کہ سنہ 1970 کی دہائی میں تھے۔ گو ابھی مسئلہ اتنا سنگین نہیں ہے۔ لیکن پنجابی قیادت میں عمران خان کے خلاف وہی سلوک ہونا شروع ہو گیا ہے جیسا اُس وقت مجیب الرحمن کے ساتھ ہوا تھا۔ اس وقت مسئلہ بنگالی اور پنجابی کے درمیان جنگ تھا۔ اب کچھ صورت حال یہ ہے کہ پنجابی اور دیگر پاکستانی سماجی گروہ پختون پٹھانوں کے خلاف صف آرا ہوتے جا رہے ہیں۔ عمران خان اور چیف جسٹس پختون ہیں۔ ان دونوں کے خلاف پنجابی شہباز حکومت اور فوج کا قہر ٹوٹ پڑا ہے۔ پختون پٹھان عمران کے ساتھ ہے اور دھیرے دھیرے ملک کے دھارے سے کٹتے جا رہے ہیں۔ ایسا ہی کچھ بنگلہ دیش کے قیام سے قبل بنگالیوں کے ساتھ ہوا تھا، اور آخر وہ الگ ہو گئے تھے۔ اگر صورت حال اسی طرح بگڑتی رہی تو پختون بھی بغاوت پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ آخر یہ پاکستانی مسئلہ کیا رنگ لیتا ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن عمران خان اب پاکستان کے وجود کا مسئلہ بنتے جا رہے ہیں۔ ان بگڑتے حالات کے درمیان یہ ایک فطری بات ہے کہ آخر پاکستان کے ساتھ کیا مسئلہ ہے کہ وہ آئے دن اپنے وجود کی لڑائی میں پھنس جاتا ہے۔
میری ادنیٰ رائے میں پاکستان کے تمام مسائل کا راز خود اس کی بنیاد میں پنہاں ہے۔ سنہ 1947 میں جب پاکستان قائم ہوا تو اس وقت زیادہ تر ایشیائی ممالک آزادی حاصل کر اپنے اپنے ملکوں کی بنیاد جدید اصولوں پر رکھ رہے تھے، لیکن پاکستان نے اپنے لیے مذہب اور زمیندارانہ نظام کا راستہ بطور بنیاد چنا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ پاکستان کا وجود ہی دراصل اس وقت ہندوستان کے زمینداروں نے اپنے مفاد کے لیے کروایا تھا۔ بات یوں ہوئی کہ ہندوستانی جنگ آزادی کے آخری دور میں ہندوستانی مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کو دو طرح کے خوف نے آن گھیرا۔ اول تو مسلمان کو ہندو اکثریت کا خوف پیدا ہوا، اور دوئم جب کانگریس پارٹی نے آزادی کے بعد ملک میں زمینداری ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو مسلمانوں کو یہ ڈر ہوا کہ اس سے تو ان کی معاشی کمر ہی ٹوٹ جائے گی۔ کیونکہ اس وقت تک مسلمانوں کا معاشی نظام زمیندارانہ اصولوں پر قائم تھا۔ چنانچہ دیکھتے دیکھتے مسلم زمیندار بھی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھا ہو گئے اور اپنے مفاد کے تحفظ کے لیے ملک کے بٹوارے کی مانگ کر ڈالی۔ اور اس طرح آخر کار سنہ 1947 میں ہندوستان کا بٹوارا ہوا اور پاکستان وجود میں آیا۔
ظاہر ہے کہ پاکستان نے مذہب کی بنیاد پر ایک زمیندارانہ نظام کی بنیاد رکھی، جبکہ دوسرے نو آزاد ملک سیکولر اور جمہوری بنیادوں پر ایک جدید ملک کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ یعنی پاکستان حال نہیں بلکہ ماضی کے اصولوں پر قائم ہوا۔
ملکوں کی ترقی جدید نظام پر ہوتی ہے جبکہ پاکستان ماضی کی بنیاد پر چل رہا تھا، تبھی پاکستان معاشی مسائل کا شکار ہوا جس کے حل کے لیے اس نے دنیا بھر سے امداد پر اپنا کام چلایا۔ دھیرے دھیرے موقع در موقع عوام کا غصہ سڑکوں پر بھڑک اٹھتا۔ اس مسئلہ سے نجات حاصل کرنے کو پاکستانی زمینداروں نے اپنے مفاد کے تحفظ کے لیے فوج کھڑی کر دی۔ اس فوجی نظام نے پہلے بنگالیوں کی نسل کشی کی اور ملک ٹوٹ گیا۔ پھر سنہ 1970 کی دہائی کے آخر میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے زمیندارانہ نظام کے خاتمے کے لیے چند قدم اٹھائے تو فوج نے ان کو پھانسی پر چڑھا دیا۔ اب ضیا الحق کی قیادت میں زمیندارانہ نظام نے جہادی اسلام کا نعرہ بلند کیا۔ لیکن پھر بھی آئے دن جمہوری نظام کی مانگ ہوتی رہی۔ اس سے بچنے کے لیے فوج نے ایک مصنوعی جمہوری ڈھانچہ کھڑا کیا۔ لیکن جب جب جمہوری لیڈروں نے فوج کی مرضی کے خلاف قدم اٹھائے تو ان کو بے نظیر بھٹو کی طرح مروا دیا گیا، یا نواز شریف کی طرح ملک بدر ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ اب عمران خان بھی فوج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ان کا کیا حشر ہوتا ہے یہ تو فوج طے کرے گی، لیکن اس بار پھر حالات بنگالی اور پنجابی کی رسہ کشی کی طرح پنجابی اور پختون پٹھان کی ناک کا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ پاکستان بچے یا پھر ٹوٹے یہ تو وقف ہی طے کرے گا۔ لیکن پاکستان ایک بار پھر اپنے وجود کی جنگ کے مرحلے میں گھرتا جا رہا ہے۔ زمیندارانہ نظام کے جنجال میں پھنسے پاکستان کے پاس فوج کے نظام کے سوا کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔ اب دیکھیے کیا ہوتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 21 May 2023, 10:11 AM