عبوری بجٹ 2024: معاشی ترقی کے پیچھے پوشیدہ پیشگی انتباہ کو سمجھنا کیوں ضروری؟... رچرڈ مہاپاترا
24-2023 میں زرعی شعبہ کا شرح اضافہ 1.8 فیصد رہنے کا امکان ہے جو کہ مالی سال 23-2022 کے 4 فیصد اضافہ کے مقابلے بہت کم ہے۔
این ایس او (نیشنل اسٹیٹسٹکس آفس) نے 24-2023 کے لیے قومی آمدنی کا اپنا پہلا پیشگی اندازہ جاری کر دیا ہے۔ این ایس او کا اندازہ ہے کہ سبھی اندازوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے جی ڈی پی میں 7.3 فیصد کا اضافہ درج کیا جائے گا۔ لیکن یہ اچھی خبر ایک معاشی حقیقت کو چھپا رہی ہے، جو ملک کے سب سے بڑے ایمپلائر مانے جانے والے زرعی شعبہ کے لیے بہت اچھی خبر نہیں ہے۔ 24-2023 (12-2011 کی قیمتوں کی بنیاد پر) میں زرعی شعبہ (لائیو اسٹاک، جنگلات اور ماہی گیری سمیت) 1.8 فیصد کی شرح سے بڑھنے کا اندازہ ہے، جو مالی سال 23-2022 میں 4 فیصد تھا۔
این ایس او کے اندازے میں شامل آٹھ معاشی سرگرمیوں میں زراعت کی شرح ترقی سب سے کم ہے۔ یہ حالیہ سالوں میں سب سے کم زرعی ترقی میں سے ایک ہے۔ 22-2021 میں زرعی شعبہ کی شرح ترقی 21-2020 کے 3.3 فیصد کے مقابلے میں گر کر 3 فیصد رہ گئی۔ 2021 سے قبل چھ سالوں تک زرعی شعبہ میں اوسطاً 4.6 فیصد کا اضافہ ہوا (بھلے ہی چھ میں سے تین سالوں میں یہ شرح 4 فیصد سے نیچے تھی، جبکہ باقی تین سالوں میں یہ تقریباً 6 فیصد تھی) کیونکہ تقابل کے لیے بنیاد کا سال 16-2015 تھا، جس سال سنگین خشک سالی کے سبب زراعت میں شرح اضافہ 0.6 فیصد تھی۔
رواں سال میں کم اضافہ کی وجہ بے قاعدہ مانسون اور النینو کا اثر رہا۔ اس کے سبب بڑے پیمانے پر فصل کو نقصان ہوا۔ این ایس او کے مطابق 23-2022 کے مقابلے میں 24-2023 میں چاول کا پروڈکشن 5.4 فیصد کم رہا۔ مالی سال 23-2022 میں چاول پروڈکشن میں 22-2021 کے مقابلے میں 0.5 فیصد کا معمولی اضافہ درج کیا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک کے کسانوں کے ایک بڑے حصے کو روزگار دینے والی اہم مصنوعات کا دو سال سے زیادہ وقت تک کم پروڈکشن ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ گزشتہ ایک دہائی سے کسانوں کی کمائی مستحکم رہی ہے یا 1.3 فیصد کی معمولی زرعی مزدوری شرح اضافہ سے بڑھ رہی ہے، جو 2014 سے شروع ہونے والی موجودہ حکومت کی دو مدت کار کے ساتھ میل کھاتا ہے۔ تو پھر اس کم اضافہ کا ملک کی معیشت کے لیے کیا مطلب ہے؟
زراعت ملک کے 45 فیصد سے زیادہ وَرک فورس کو روزگار دیتی ہے۔ ان کی کمائی قومی جی ڈی پی کو متعارف کرتی ہے۔ کم اضافہ کا اندازہ ایسے وقت میں آیا ہے جب نجی صارفیت ملک کی جی ڈی پی کا تقریباً 61 فیصد ہے (اسے این ایس او اکاؤنٹنگ میں نجی آخری صارفیت یا پی ایف سی ای کہا جاتا ہے)۔ اگر اتنے فیصد صارفین کے پاس خرچ کرنے کی صلاحیت نہیں ہوگی تو جی ڈی پی پر اثر پڑنا فطری ہے۔ اس کے علاوہ اتنے طویل وقت تک اتنی پریشانی کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ لوگ قرض میں ڈوب رہے ہیں، یا غریبی کے جال میں پھنس رہے ہیں۔
24-2023 میں فی کس ذاتی آخری صارفیت 129400 روپے (موجودہ قیمتوں پر یا شرح مہنگائی کو شامل کیے بغیر) ہونے کا اندازہ ہے، جو 23-2022 کے مقابلے میں صرف 10123 روپے زیادہ ہے۔ خرچ کو عام طور پر آمدنی کے نمائندہ (پراکسی) کی شکل میں مانا جاتا ہے، کیونکہ لوگ اپنی آمدنی کے مطابق خرچ کرتے ہیں۔ یہ خرچ میں یہ قلیل اضافہ آمدنی کی حالت کا اشارہ دیتا ہے۔ پی ایف سی ای ڈاٹا پچھلے کچھ سالوں میں مستحکم دکھائی دیتی ہے، اور اگر مہنگائی کو اس میں شامل جائے تو یہ منفی اضافہ زمرہ میں جا سکتا ہے۔
این ایس او کے پیشگی اندازوں کے باوجود سرمائی فصلوں کے کم رقبہ اور ستمبر 2023 کے بعد سے بے قاعدہ و شدید موسم کے واقعات کی وجہ سے فصل کے نقصان کو دیکھتے ہوئے مالی سال کی دوسری ششماہی میں زرعی ترقی اتنا حوصلہ بخش نہیں ہے۔ جیسا کہ ترمیم شدہ اندازہ ہے آنے والے کچھ ہفتوں میں صاف تصویر سامنے آ جائے گی۔ لیکن یہ اندازہ بدلے ہوئے ماحول میں زرعی شعبہ کے سلوک کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ زراعت پر انحصار کرنے والے بیشتر ہندوستانی کس طرح نقصان برداشت کرتے رہیں گے۔ ظاہر ہے اس کا قومی معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے۔
(تحریر: رچرڈ مہاپاترا، ڈاؤن ٹو اَرتھ فیچر سروس)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔