’بیف کی دہشت‘ نے سماجی و اقتصادی پیٹرن کو متاثر کر دیا… حمرا قریشی

غور کرنے والی بات ہے کہ فرقہ واریت کا یہ جنون گزشتہ 10 سالوں میں کس طرح عروج پر پہنچ گیا ہے اور لگاتار فروغ پا رہا ہے۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کے سبب سینکڑوں بے گناہ لوگوں کا قتل ہو رہا ہے

<div class="paragraphs"><p>گئو رکشا گروپ کے ارکان / Getty Images</p></div>

گئو رکشا گروپ کے ارکان / Getty Images

user

حمرا قریشی

مجھے بتائیں کہ آخر ’گائے کا گوشت‘ معاملہ پر مزید کتنے افراد کی لنچنگ کی جائے گی، قتل کا بازار کب تک گرم رہے گا! یہ دیکھنا انتہائی حیرت انگیز اور ناگوار ہے کہ غنڈوں کا گروپ کس طرح قتل پر آمادہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان غنڈوں کو ہندوتوا بریگیڈ کی پشت پناہی حاصل ہے اور وہ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ صورت حال بہت زیادہ خطرناک اس لیے معلوم ہو رہی ہے کیونکہ سیاسی اور سرکاری مشینری موجودہ وقت میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کے کنٹرول میں ہے۔

دن بہ دن ایسے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جب ’گائے کے گوشت‘ کا حوالہ دے کر مسلمانوں کو ذلیل و خوار کیا جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے مہاراشٹر میں ایک چلتی ٹرین کے اندر شریف النفس مسلم بزرگ پر یہ الزام عائد کرتے ہوئے پیٹا گیا اور ذلیل کیا گیا کہ وہ پیکٹ میں گائے کا گوشت لے کر جا رہا تھا۔ حالانکہ تفتیش کے بعد پتہ چلا کہ وہ گائے کا گوشت نہیں تھا۔ یہ جانکاری کسی سے پوشیدہ نہیں ہوگی کہ مسلم بزرگ پر ظلم کرنے والے تینوں ملزمین پولیس بھرتی کا امتحان دینے جا رہے تھے۔ تصور کیجیے کہ اگر وہ ان رسمی امتحانات سے گزر کر پولیس میں بھرتی ہو جاتے تو کس طرح کی تباہی کا پیشہ خیمہ بنتے۔ یہ معاملہ مجھے بہت کچھ غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ کیا اس بنیادی عنصر پر پولیس والوں کے لیے کوئی لیکچر اور گفتگو و رہنمائی کا سیشن ہوتا ہے جس میں بتایا جائے کہ اقلیتی طبقات اور اقلیت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو صرف اس لیے ہدف نہیں بنانا چاہیے کیونکہ غلط فہمیاں اور گمراہیاں پھیلائی گئی ہیں۔ کیا ایسے خرافات سے متعلق انھیں محتاط کیا جاتا ہے جو کہ سماج میں شر پسند عناصر پھیلاتے ہیں۔

برسراقتدار طبقہ کی طرف سے ہر روز فرقہ واریت کا زہر پھیلایا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے اس کوشش کا منفی اثر آنے والے دنوں میں دکھائی دے گا۔ گزشتہ پندرہ دنوں میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما مسلم مخالفت پر مبنی کئی بیانات دیتے ہیں، اور پھر فرقہ واریت پر مبنی عمل سے بچ کر نکل جاتے ہیں۔ ایک ریاست کے وزیر اعلیٰ کی زبان سے ایسے بیانات سن کر دل کو تکلیف پہنچتی ہے، لیکن پھر یہ بھی خیال آتا ہے کہ وہ بی جے پی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے موجودہ تاریک ماحول میں ان کے بیانات اور تقاریر بی جے پی کے اصولوں پر ہی مبنی ہوں گے۔


گزشتہ ہفتہ ہریانہ میں بھی ’بیف‘ (گائے کا گوشت) کے نام پر لنچنگ اور قتل کے دو سنگین واقعات سامنے آئے، جس نے کچھ حد تک شور اور ہلچل پیدا کی۔ مغربی بنگال کے باشندہ ایک مسلم تارکین وطن صابر کو ہریانہ کے چرکھا دادری میں ہندوتوا بریگیڈ نے اس لیے پیٹا کیوں کہ اس نے گائے کا گوشت کھایا تھا۔ اس حملہ میں صابر کی موت ہو گئی۔ صابر کے ساتھ ایک دیگر شخص اسیرالدین کی بھی پٹائی کی گئی جو شدید زخمی ہوا۔ ایک دیگر واقعہ میں ہندو طالب علم آرین مشرا کو فریاد آباد میں نام نہاد ’گئو رکشک‘ گروپ کے ارکان نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ قتل اس شبہ میں کیا گیا کہ وہ گائے کا اسمگلر تھا۔ یہاں غالباً آرین کو مسلمان سمجھنے کی غلطی بھی حملہ آوروں سے سر زد ہو گئی!

غور کرنے والی بات ہے کہ فرقہ واریت کا یہ جنون گزشتہ 10 سالوں میں کس طرح عروج پر پہنچ گیا ہے اور لگاتار فروغ پا رہا ہے۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کے سبب سینکڑوں بے گناہ لوگوں کا قتل ہو رہا ہے۔ اتر پردیش کے دادری میں محمد اخلاق کی وحشیانہ طریقے سے لنچنگ کی گئی تھی، اور پھر اس کے بعد جو سلسلہ شروع ہوا تو یہ پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ دہلی، راجستھان، ہریانہ و مضافاتی علاقوں اور دیہاتوں میں لنچنگ کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں۔ جھارکھنڈ کے اندرونی علاقوں میں بھی لنچنگ کے واقعات ہوئے ہیں۔ چند سال قبل کی ہی بات ہے جب مویشی کے کم از کم 2 مسلم تاجروں کو قتل کیا گیا اور پھر ان کی لاشوں کو درخت سے لٹکا دیا گیا۔ مہلوکین میں سے ایک 13 سال کا لڑکا تھا، وہ وہاں برسرعام قتل کر دیا گیا تھا اور ہم سب نے اس پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی! کوئی آواز نہیں، یہاں تک کہ کسی اقلیتی کمیشن اور حقوقِ اطفال کے کسی فورم تک نے آواز نہیں اٹھائی۔ میں سوچتا ہوں کہ آخر یہ خاموشی کیوں ہے!

گزشتہ کچھ سالوں میں یکے بعد دیگرے کئی ہولناک واقعات رونما ہوئے ہیں۔ 2016 کے موسم خزاں میں پیش آئے اس واقعہ کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے جب نئی دہلی کے مضافات میں موجود ضلع فرید آباد میں دو مسلم نوجوانوں کو نہ صرف بے رحمی سے پیٹا گیا بلکہ گائے کا گوبر کھانے اور گائے کا پیشاب پینے کے لیے مجبور کیا گیا۔ آپ یاد رکھیں کہ یہ واقعہ کسی جنگل میں پیش نہیں آیا بلکہ راجدھانی دہلی سے بمشکل 20 کلومیٹر دور سرانجام دیا گیا۔

چند سال پہلے کی ہی بات ہے جب راجستھان کے میواڑ (چتوڑ گڑھ علاقہ) میں زیر تعلیم 4 نوجوان کشمیری طلبا کی حالت دیکھ کر بہت تکلیف پہنچی تھی۔ انھیں اس طرح مجرموں کی مانند کھڑا کیا گیا تھا جیسے انھوں نے کوئی چوری یا گھناؤنا عمل انجام دیا ہو۔ ان کشمیری طلبا کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے مقامی بازار سے 300 گرام مٹن خریدا تھا۔ افواہ پھیلانے کے لیے بس یہ بات کہنا کافی تھا کہ یہ مٹن نہیں بلکہ بیف (گائے کا گوشت) ہے۔ پھر کیا تھا، ان کشمیری طلبا پر متوقع حملے کیے گئے۔ آپ یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ کوئی علیحدہ معاملہ نہیں ہے، بلکہ اس طرح کے واقعات جو رپورٹ کیے گئے، ان میں سے ہی ایک ہے۔


2017 کے اس موسم گرما کو بھی یاد کیجیے جب 16 سالہ محمد جنید کا اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ ٹرین میں ہریانہ کے ضلع بلبھ گڑھ جا رہا تھا۔ ٹرین میں سفر کرنے والوں نے ہی جنید کا پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا اور باقی لوگ یہ سب دیکھتے رہے۔ ظالموں نے اس کی پیشانی پر ’بیف کھانے والا‘ جیسے الفاظ بھی لکھ دیے۔

آج ایک منظم طور پر یہ فرقہ وارانہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ صرف مسلم، دلت اور عیسائی ہی گائے کے گوشت یا مٹن سے لطف اندوز ہوتے ہیں! اس کا مقصد صرف یہ گمراہی پھیلانا ہے کہ یہ برادریاں ہی مویشیوں کو مارتی ہیں اور اس کا گوشت کھاتی ہیں۔ یاد رکھیں، یہ پروپیگنڈا زور پکڑ رہا ہے کہ مسلمان گوشت کے ٹکڑے کھاتے ہیں، یا بیٹھ کر گوشت کے نوالے بناتے ہیں۔ اس پروپیگنڈا کا مقصد مسلمانوں کو بطور ’آدم خور‘ اور ’خونخوار‘ پیش کرنا ہے۔

آپ کسی بھی گوشت کی دکان کے اندر جائیں اور قصاب سے دریافت کریں تو وہ آپ کو اس حقیقت سے روشناس کرا دے گا کہ ہندوستانی مسلمان ہندوستان میں گوشت کے سب سے بڑے خریدار اور صارف نہیں ہیں۔ گوشت کی صنعت غیر مسلموں کے زیر کنٹرول ہے۔ میں چھوٹی سطح پر یا جز وقتی گوشت کاروبار کرنے والوں کی بات نہیں کر رہی، بلکہ اس صنعت کے معروف سپلائرز اور مالکان کی بات کر رہی ہوں۔ ویسے اگر کوئی ملک بھر کے قصابوں، گوشت سپلائی کرنے والوں اور ڈیری مالکان سے بات کرے تو وہ اس قدیم نظریہ کو آپ کے سامنے پیش کریں گے کہ اگر آپ کسی شخص کو بھوکا رہنے پر مجبور کرتے ہیں تو وہ یا تو مر جائے گا یا پھر جرائم کی زد میں آ جائے گا! اس وقت سینکڑوں افراد بے روزگار بیٹھے ہوئے ہیں جس کے سبب بھوک سے متعلق اموات کا گراف اوپر جانے کا ہر امکان ہے۔ نیز، جرائم کی شرح میں بھی اضافہ یقینی ہے کیونکہ مایوسی اور بھوک کی سطح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔


’بیف کی دہشت‘ نے سماجی و اقتصادی پیٹرن کو بھی متاثر کیا ہے۔ میں نے ان حالیہ برسوں میں جب دو متوسط طبقہ کے مسلم خاندانوں کی شادی کی تقریبات میں شرکت کی، تو گوشت کے ایک بھی پکوان کا نام و نشان نہیں تھا۔ اس تقریب میں خالص سبزی پر مشتمل پکوان تھے۔ آخر ایسا کیوں؟ اس لیے کہ میزبان ہر ممکن احتیاطی تدبیر اختیار کر رہے تھے۔ بھلا غنڈوں کے سامنے یہ کون ثابت کرے گا کہ یہ مٹن ہے یا چکن؟ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہندوتوا بریگیڈ شادی کی تقریب میں کس طرح سے خلل خلل ڈالے۔

یہی افسوسناک حالت دیکھنے کو مل رہی ہے! یہاں بھی دوہرا معیار نظر آ رہا ہے! ایک طرف شمال مشرق کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاست داں گائے کا گوشت کھانے یا پھر اسے پکانے کے بارے میں اپنی روایات پر کھل کر بات کر سکتے ہیں، دوسری طرف یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں اور طالب علموں، حتیٰ کہ ضعیفوں پر بھی محض اس شبہ میں حملہ کیا جاتا ہے کہ انھوں نے گائے کا گوشت پکایا ہے یا پھر لے جا رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔