آخر ہمارا اجتماعی غصہ، ہماری اجتماعی ناراضگی کہاں ہے!... حمرا قریشی
موجودہ وقت میں خواتین کا تحفظ انتہائی زوال کا شکار نظر آ رہا ہے۔ اقتدار سیاسی مافیاؤں کے ہاتھوں میں ہے اور یہ قطعی حیرت انگیز نہیں کہ ہمہ جہت تنزلی دیکھنے کو مل رہی ہے
عصمت دری اور جنسی استحصال کے واقعات بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتہ میں عصمت دری اور جنسی زیادتی کی رپورٹس اتراکھنڈ، بہار، اتر پردیش، مہاراشٹر وغیرہ سے ملی ہیں... آپ خیال رکھیں کہ یہ وہ کیسز ہیں جو رپورٹس ہوئی ہیں، ان سینکڑوں کیسز اور واقعات کا کیا جن کی رپورٹ ہی نہیں ہوئی۔ عوامی مقامات پر جنسی زیادتی اور بدسلوکی کے واقعات لگاتار بڑھ رہے ہیں جو کہ فکر انگیز ہیں۔
کیا ہم نے کبھی اس افسوسناک پہلو پر غور کرنے کی زحمت کی ہے کہ عوامی مقامات پر اگر بدسلوکی، گمشدگی اور جنسی حملوں کی یہ سطح دیکھنے کو مل رہی ہے تو نام نہاد ’سخت سیکورٹی‘ والے مقامات پر کیا ہو رہا ہوگا؟ وہاں کیا ہو رہا ہوگا جہاں قیدی نگرانی والے دروازوں اور اونچی دیواروں کے اندر رہتے ہیں؟ آخر وہاں کیا ہو رہا ہوگا؟
فسادات اور قتل و غارت کے دوران خواتین و بچوں پر ہونے والے تشدد اور جبر کو آپ نظر انداز نہ کریں، خاص طور سے تب جب انھیں جبراً ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے، یا انھیں نقل مکانی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس دوران وہ (خواتین) کسی بھی جنسی زیادتی سے متعلق خاموش رہنے پر مجبور ہوتی ہیں، ورنہ مافیا کے ساتھ مل کر سیاسی غنڈے انھیں ٹکڑے ٹکڑے کر سکتے ہیں۔ فسادات کے دوران جنسی تشدد کا شکار ہونے والی کئی خواتین نے مجھے بتایا کہ ان کے پاس اپنی بقا اور خاندان و نسل کے وجود کی خاطر خاموش رہنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔
موجودہ وقت میں خواتین کا تحفظ انتہائی زوال کا شکار نظر آ رہا ہے۔ اقتدار سیاسی مافیاؤں کے ہاتھوں میں ہے اور یہ قطعی حیرت انگیز نہیں کہ ہمہ جہت تنزلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کمزوروں کو نہ صرف ہدف بنایا جاتا ہے بلکہ ان کے مستقبل کو بھی برباد کیا جاتا ہے۔ آپ دیکھیے کہ قومی و بین الاقوامی سطح کی چمپئن کھلاڑیوں ساکشی ملک، ونیش پھوگاٹ اور دیگر کئی مشہور ہستیاں پچھلے دنوں کتنی بے بس نظر آئی تھیں۔ ان کا کیریئر تباہ و برباد ہو گیا، کیونکہ داغی افراد کو سیاسی تحفظ حاصل تھا۔
تازہ ترین رجحان ’بلڈوزر کارروائی‘ کا ہے جس میں گھروں کو منہدم کر دیا جاتا ہے۔ ایسے میں متاثرہ خواتین اور ان کا پورا کنبہ اپنے مسمار گھر کے باہر بیٹھنے اور آنسو بہانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایسے میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ لوگ کہاں ہیں جو لڑکیوں اور خواتین کی حفاظت کے لیے آواز اٹھاتے ہیں؟ کیا انھیں اس بات کا احساس نہیں کہ گھروں اور آشیانوں کے اجڑنے کے بعد پورا خاندان بغیر چھت کے زندہ رہنے پر مجبور ہو رہا ہے۔ یقیناً وہ غیر محفوظ ہیں، ان کی حفاظت اس وقت ذیلی سطح پر ہے، کیونکہ وہ سڑک کے کنارے گزر اوقات کرنے پر مجبور ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ شب و روز گزارنے والی وہ پناہ گاہیں کہاں ہیں جہاں متاثرین پناہ حاصل کر سکیں؟ ان لوگوں کے لیے یہ مشکل دور ہے جن کے گھروں کے سامنے یا پھر گلیوں میں بلڈوزر کھڑے ہوئے ہیں۔
کسی کے لیے بے گھر ہونا، بے روزگار ہونا، پیسوں کا محتاج ہونا شاید اس وقت زندہ رہنے کے لیے بدترین حالات ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہزاروں افراد بالکل اسی سچائی کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان پر زمین مافیاؤں اور سیاسی مافیاؤں کی نظر رہتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے کوئی باز کسی کمزور جاندار پر جھپٹنے کا منتظر ہو۔
سیاسی آلودگی کے اس ماحول میں حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔ حقیقی ایشوز کو اس کی تمام جہتوں کے ساتھ حل کرنے کی جگہ اس پر سیاست حاوی ہو جاتی ہے۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہم کس بدتر حالت میں پہنچ چکے ہیں، جہاں زانیوں کو بھی کچھ حد تک فائدہ مل سکتا ہے، بس انھیں سیاسی جھکاؤ کے ساتھ آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ ایک بڑا معاملہ آئی آئی ٹی وارانسی کی طالبہ سے زنا کرنے والے تین ملزمین کا تھا۔ انھیں باضابطہ طور پر 60 دنوں بعد گرفتار کیا گیا، حالانکہ ان کے ٹھکانے کا پتہ پہلے ہی چل چکا تھا۔ لیکن یہ تاخیر کیوں ہوئی؟ بتایا جاتا ہے کہ ملزمین کی بی جے پی کے اعلیٰ لیڈران سے قربت تھی۔ ان ملزمین کی کئی ایسی تصویریں بطور ثبوت سامنے آ چکی ہیں جن میں وہ برسراقتدار پارٹی کے لیڈران کے ساتھ دکھائی دے رہے ہیں۔
آخر ہمارا اجتماعی غصہ، ہماری اجتماعی ناراضگی کہاں ہے! اس ماحول میں ہم کہاں بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ حکمراں لیڈران کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں اور ہمارے جسم و روح تار تار ہو رہے ہیں۔ ہم میں سے سینکڑوں لوگوں پر حملہ ہو رہا ہے، انھیں تباہ و برباد کیا جا رہا ہے، انھیں موت کی نیند سلایا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں بخدا یومِ خواتین اور یومِ انسانی حقوق کے موقع پر سیاسی لوگوں کے ذریعہ دی گئی تقریروں سے ہمیں چھٹکارا پانا چاہیے۔ جب زمین پر حالات بگڑ رہے ہیں، تو پھر کھوکھلے الفاظ کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔