خواتین کے خلاف جرائم میں تیزی کی وجہ کیا ہے؟... حمرا قریشی

گزشتہ روز یہ خبر آئی کہ بہار کے ایک گاؤں میں 14 سالہ دلت لڑکی کی عصمت دری کی گئی اور درانتی سے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، یہ انتہائی المناک ہے کیونکہ سب کچھ لوگوں کی نظروں کے سامنے ہوا

<div class="paragraphs"><p>کولکاتا میں احتجاج کرتے ڈاکٹر / آئی اے این ایس</p></div>

کولکاتا میں احتجاج کرتے ڈاکٹر / آئی اے این ایس

user

حمرا قریشی

کولکاتا کے آر جی کر میڈیکل کالج میں 31 سالہ خاتون ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل کا واقعہ اس قدر وحشیانہ اور بہیمانہ معلوم پڑتا ہے جس کے بیان کے لیے الفاظ یا جملے کافی نہیں۔ میں اس کے کنبہ کی جذباتی اور شدید ذہنی اذیت سے متعلق پڑھ رہی تھی، جس کا انھیں سامنا کرنا پڑا۔ پہلے تو انھیں اسپتال کے حکام نے بتایا کہ موت خودکشی کے سبب ہوئی ہے، لیکن پھر تین گھنٹے بعد جب انھوں نے اس کی لاش دیکھی تو حیرت میں پڑ گئے۔ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اس پر وحشی زانی نے ظلم کیا تھا، اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

عصمت دری کی شکار ایک خاتون یا بچی کے لیے زندہ رہنا یا اس کی حفاظت مشکل امر ہے، بلکہ انتہائی مشکل ہے۔ منی پور میں کوکی خواتین کی عصمت دری اور قتل واقعہ کو کیسے بھول سکتے ہیں، اور کٹھوعہ کی 8 سالہ بچی کی عصمت دری کرنے والوں اور قاتلوں کے حق میں ہندوتوا بریگیڈ کی مہم بھی ہم نے دیکھی، اور پھر ہاتھرس میں عصمت دری متاثرہ کو جس طرح مرنے کے بعد جلدبازی میں سپرد خاک کیا گیا اسے بھی نہیں بھلایا جا سکتا۔ ریاستی مشینری نے رات کی تاریکی میں اس کی آخری رسومات ادا کر دی گئی تاکہ ظلم کی پردہ پوشی ہو سکے۔

گزشتہ روز یہ خبر آئی کہ بہار کے ایک گاؤں میں 14 سالہ دلت لڑکی کی عصمت دری کی گئی اور درانتی سے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہ انتہائی المناک خبر ہے۔ سب کچھ لوگوں کی نظروں کے سامنے ہوا، پھر بھی اس بچی کی حفاظت نہیں ہو سکی، اسے نہیں بچایا جا سکا۔ ایسے سینکڑوں واقعات ہو سکتے ہیں جہاں متاثرین کے والدین انتہائی بے بس اور بہت کمزور نظر آتے ہیں، وہ اپنی اولاد کی چاہ کر بھی حفاظت نہیں کر پاتے۔ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ پولیس مشینری اس طرح کے معاملوں میں بے اثر ہے۔ انتظامیہ اور سیاستداں تو ایسے معاملوں میں صرف عوام کی توجہ بھٹکانے میں مصروف ہوتے ہیں۔ اس کے لیے وہ ہندو-مسلم سمیت دیگر اشتعال انگیز ہتھکنڈوں کا سہارا لیتے ہیں۔

اگر قاتلوں اور زانیوں کی گرفتاریاں ہوئی بھی ہیں تو ہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ قصوروار ثابت ہو چکے زانیوں کو پیرول یا فرلو پر جیل سے باہر نکلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ وہ تمام زانی جو جیل میں ہوں، طویل یا مختصر مدت کے لیے باہر ہو سکتے ہیں۔ یہاں صرف چند ناموں کا ذکر کرنا مناسب سمجھتی ہوں، اور وہ نام ہیں آسام رام باپو جو سات دن کی پیرول پر جیل کی قید سے باہر ہیں۔ ڈیرہ سچا سودا کے گرمیت رام رحیم کو 21 دنوں کی فرلو دی گئی ہے۔ اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ گزشتہ سال بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری میں قصوروار ٹھہرائے گئے تمام 11 مجرموں کو قبل از وقت رِہا کر دیا گیا تھا۔ وہ تب تک رِہا رہے جب تک کہ سپریم کورٹ نے انھیں دوبارہ جیل بھیجنے کا حکم نہیں دے دیا۔


موجودہ حالات کو دیکھ کر تشویش میں مبتلا کوئی شخص اگر یہ سوال کرے کہ خواتین کے خلاف جرائم میں یہ تیزی کیوں آئی ہے، تو سب سے بہتر یہ ہوگا کہ برندا کرات کی تازہ ترین کتاب ’ہندتوا اینڈ وائلنس اگینسٹ وومین‘ (ہندتوا اور خواتین کے خلاف تشدد) کا اقتباس ان کے سامنے رکھ دیا جائے۔ اس کتاب میں وہ ایک مقام پر لکھتی ہیں کہ ’’ہندوستان میں ہم نے اپنی تاریخ کے تجربات اور جنگ آزادی کے ذریعہ سے خواتین کی حالت کو سمجھا ہے، جس میں سیاسی، سماجی و معاشی، ثقافتی حقائق، جس میں ذات پات کا نظام بھی شامل ہے، کے ضمن میں خواتین کے خلاف تشدد کے کئی شکل اور جہات شامل ہیں۔ اس وسیع ڈھانچے میں خواتین کے خلاف تشدد کے معاملوں کا تجربہ کرنے کے بعد آج ہندوستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے بدلتے ہوئے زاویے دکھائی دیتے ہیں۔ بدلاؤ سے میرا مطلب ضروری نہیں کہ کچھ ’نیا‘ ہو، بلکہ منفی اور کبھی کبھی زہریلی روش کی شدت میں اضافہ (جو کئی وجوہات سے اہم روش بن جاتی ہیں) بھی تبدیلی میں شامل ہوتی ہے۔ یہ تبدیلی ہندوستان کی سیاسی و سماجی زندگی میں دایاں بازو کی فرقہ وارانہ طاقتوں کے ذریعہ حاصل غلبہ کے نتیجہ میں ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے بی جے پی کی قیادت میں ایک حکومت کی تشکیل ہوئی ہے، اور یہ آر ایس ایس کے ذریعہ چلتی ہے، یا پھر اثرانداز ضرور ہوتی ہے۔ ہم اسے آر ایس ایس اور اس کے سیاسی وِنگ بی جے پی کا مشترکہ منصوبہ کہہ سکتے ہیں۔‘‘ وہ مزید لکھتی ہیں کہ ’’لیکن موجودہ حکومت کی ایک دہائی پر مشتمل حکمرانی کے دوران ہم ہندوستان میں ایک بنیادی طور پر تبدیل شدہ حالت دیکھ سکتے ہیں۔ اس تبدیلی کی وجہ آر ایس ایس کے ذریعہ مقرر ایجنڈا اور پروگرام ہے جس کی بنیاد 1925 میں پڑی تھی۔ اور وہ ایجنڈا ہے ’ہندو راشٹر‘ کی تعمیر۔‘‘

جی ہاں، یہی حقیقت ہے۔ گزشتہ شام جب ہم نے وہ پریشان کن مناظر دیکھے جس میں راجستھان کے ایک شخص نے اپنی بیوی کو اپنی موٹر سائیکل سے باندھا اور اسے چاروں طرف گھسیٹتا رہا، تو اس کے بعد ہم خود کو ترقی یافتہ کہنے کی ہمت نہیں کر سکتے۔ اس شخص نے اپنی بیوی پر یہ ظلم برسرعام سڑک پر کیا، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بیوی نے اپنی بہن کے گھر جانے پر اصرار کرنے کی ہمت کی۔ آپ دیکھیے کہ ہم سفاکیت کی کس سطح پر پہنچ چکے ہیں! اور ان وحشیانہ واقعات کے درمیان ہمیں باور کرایا جا رہا ہے کہ ہم آگے بڑھ رہے ہیں، ترقی کر رہے ہیں، لیکن کہاں! صرف ان آفات کی طرف جو کمزور انسان کو ختم کر رہی ہے، جو فرقہ وارانہ نفرت و تصادم اور جنونی حملوں کی پرانی روش پر پرورش پا رہی ہے۔

اس بات کو دہرانا بے کار ہے کہ بنیادی ڈھانچے ٹوٹ رہے ہیں، ناکام ہو رہے ہیں۔ یہ فکر مزید بڑھتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے ذریعہ زور و شور سے کی گئی یقین دہانیاں بھی ناکام ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ اور تقریباً ہر شعبہ میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ آپ کو بس اِدھر اُدھر گھوم کر دیکھنا ہوگا کہ سنگینیوں والے حالات اور تشدد کے درمیان عوام کس طرح زندگی گزار رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔