’دی کشمیر فائلس‘ پر تبصرہ کرنے سے پہلے خوفزدہ تھے اسرائیلی فلمساز، خود بیان کیے تقریر سے پہلے کے حالات
نادو لاپڈ نے کہا کہ ’’جب میں نے یہ فلم دیکھی، تب میں اس کا موازنہ اسرائیل سے کرنے لگا۔ حالانکہ وہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے، لیکن ہو سکتا ہے۔ اس لیے مجھے لگا کہ مجھے اس کے خلاف بولنا ضروری ہے۔‘‘
بالی ووڈ ہدایت کار وویک اگنیہوتری کی متنازعہ فلم ’دی کشمیر فائلس‘ کو بھدی فلم اور پروپیگنڈہ بتانے والے اسرائیلی فلم ساز نادو لاپڈ کا ایک تازہ بیان سامنے آیا ہے۔ اس بیان میں انھوں نے ’دی کشمیر فائلس‘ سے متعلق کی گئی اپنی تقریر سے پہلے کے حالات کا تذکرہ کیا ہے۔ انڈین انٹرنیشنل فلم فیسٹیول (آئی ایف ایف آئی) کے جوری ہیڈ اور اسرائیلی فلمساز نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ ’دی کشمیر فائلس‘ کے خلاف بولنا آسان نہیں تھا، بہت ہمت کے بعد وہ تقریر کی گئی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ خوفزدہ تھے، لیکن اس فلم کے خلاف بولنا ضروری تھا۔
نادو کا کہنا ہے کہ ’’جب میں نے دی کشمیر فائلس دیکھی تب میں اس بات سے حیران ہو گیا تھا کہ کشمیر کے مسئلہ پر یہ فلم حکومت کے پیمانوں پر عمل کتنے واضح طریقے سے کرتی ہے۔ وویک اگنیہوتری نے یہ فلم 32 سال قبل ہوئی نسل کشی پر بنائی ہے اور وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فلم کا ایک بھی منظر یا ڈائیلاگ جھوٹا نہیں ہے۔‘‘ حالانکہ نادو لاپڈ کا کہنا ہے کہ یہ بنیادی طور سے کشمیر میں ہندوستانی پالیسی کو صحیح ٹھہراتی ہے، اور اس میں فاشزم پر مبنی عناصر موجود ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’مجھے حیرانی نہیں ہوگی اگر دی کشمیر فائلس جیسی فلم اگلے کچھ سالوں میں اسرائیل میں بنائی جائے۔‘‘
اسرائیلی فلم ساز نے بتایا کہ ’’میری تقریر کے بعد لوگ میرے پاس آئے اور میں نے جو کچھ کہا اس کے لیے میرا شکریہ ادا کیا۔‘‘ اتنا ہی نہیں، فلم ساز نے بہت وضاحت کے ساتھ یہ بھی کہا کہ ’’جب میں نے یہ فلم دیکھی، تب میں اس کا موازنہ اسرائیل سے کرنے لگا۔ حالانکہ وہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے، لیکن ہو سکتا ہے۔ اس لیے مجھے لگا کہ مجھے اس کے خلاف بولنا ضروری ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔