’وزیر قانون نے سپریم کورٹ پر تبصرہ کر اپنی حد پار کر دی‘، رجیجو کے بیان پر سینئر ایڈووکیٹ ہریش سالوے کا سخت رد عمل
سالوے نے کہا کہ ’’اگر وہ (رجیجو) سوچتے ہیں کہ سپریم کورٹ کو کسی ایسی چیز، جو کہ غیر آئینی ہے، اس سے اپنے ہاتھ پیچھے رکھنے چاہئیں، تو معاف کریں، یہ بالکل غلط ہے۔‘‘
مرکزی حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان کولجیم کی سفارشات اور الیکشن کمشنر کی تقرری جیسے معاملوں کو لے کر کچھ دنوں سے رسہ کشی کا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایک طرف سپریم کورٹ کولجیم کی سفارشات کو منظوری دینے میں مرکز کی تاخیر سے مایوس ہے، تو وہیں مرکزی حکومت اس بات سے نالاں ہے کہ الیکشن کمشنر کی تقرری معاملے پر اس سے جواب طلب کیا جا رہا ہے۔ مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے تو سپریم کورٹ کے اس رویہ پر اپنے بیان سے ناراضگی کا اظہار بھی کیا ہے۔ لیکن وزیر قانون کے بیان پر سینئر ایڈووکیٹ ہریش سالوے کا سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے خلاف تبصرہ کر رجیجو نے اپنی حد کو پار کر دیا ہے۔
دراصل کچھ دن قبل حکومت کی طرف سے ایک نوٹیفکیشن جاری کر ارون گویل کو الیکشن کمشنر مقرر کیے جانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس تقرری کو سپریم کورٹ میں چیلنج پیش کیا گیا ہے۔ معاملے پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکومت سے اس تقرری کی پوری تفصیل مانگی۔ حکومت پر الزام ہے کہ ارون گویل کو ریٹائرمنٹ دے کر فوراً اس عہدہ پر بٹھا دیا گیا۔ اسی لیے سپریم کورٹ نے سوال کیا ہے کہ آخر 24 گھنٹے سے کم وقت میں ارون گویل کو الیکشن کمشنر بنانے کا فیصلہ کیسے لے لیا گیا۔ حالانکہ حکومت نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ ایسا پہلے بھی ہوتا آیا ہے اور کسی بھی اصول کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔
جہاں تک وزیر قانون کرن رجیجو کے تبصرہ کی بات ہے، تو انھوں نے ایک تقریب کے دوران سپریم کورٹ کے سوالات پر حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ کس طرح کا سوال ہے؟ اگر ایسا ہے تو آگے لوگ یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ کولجیم کس طرح سے ججوں کے ناموں کو چنتا ہے۔ اس پر بھی سوال اٹھائے جا سکتے ہیں۔ ججوں کو اپنے فیصلوں کے بارے میں بولنا چاہیے، اور اس طرح کے تبصرے کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔‘‘
کرن رجیجو کے اس بیان کو سینئر ایڈووکیٹ ہریش سالوے نے بھی ایک تقریب کے دوران ہی تنقید کا نشانہ بنایا۔ بار اینڈ بنچ کے مطابق سالوے نے کہا کہ ’’میرا ماننا ہے کہ وزیر قانون نے جو کچھ بھی کہا، اس سے انھوں نے اپنی حد پار کی ہے۔ اگر وہ سوچتے ہیں کہ سپریم کورٹ کو کسی ایسی چیز، جو کہ غیر آئینی ہے، اس سے اپنے ہاتھ پیچھے رکھنے چاہئیں اور قانون میں ترمیم کے لیے حکومت کے رحم پر منحصر رہنا چاہیے تو معاف کریں، یہ بالکل غلط ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔