کیوں نہ کہوں: سوچ اور نظریہ بدلنے کی ضرورت ہے... سید خرم رضا
آئمہ حضرات کی ذرا سی کوشش سے پورے سماج کی سوچ بدل سکتی ہے، لیکن افسوس، آپ اپنی ذمہ داری نماز پڑھانے اور محلہ کے صاحب حیثیت لوگوں کو خوش رکھنے تک محدود رکھتے ہیں، نظریہ بدلیے انشاللہ حالات بدلیں گے۔
ویسے تو ہرمذہب کے مذہبی لوگ کورونا کی وجہ سے نافذ لاک ڈاؤن سے ذہنی طور پر بے انتہا پریشان ہیں، لیکن مسلمان زیادہ ہی پریشان ہیں کیونکہ اسلام میں دن میں پانچ وقت کی نماز فرض ہے اور نماز ادا کرنے کے لئے مساجد کا ایک باقائدہ نظم ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے عبادات کا پورا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ مسلمانوں کے دل نہ صرف اس لئے بے چین ہیں کیونکہ مساجد بند رہیں اور ان کو گھروں میں نماز ادا کرنی پڑی بلکہ وہ اس بات سے بہت زیادہ غم زدہ ہیں کہ اس سال فریضہ حج بھی محدود طریقہ سے ادا ہوگا، جس میں بیرون ممالک سے کوئی بھی عازمین نہیں جائے گا اور جو بھی سعودی عرب سے باہر کے لوگ فریضہ حج ادا کریں گے وہ وہی ہوں گے جو سعودی عرب میں مقیم ہیں۔
لاک ڈاؤن کے دوران ملک کے کئی حصوں سے خبر آئی کہ مقامی لوگوں نے مقامی مساجد کو یا تو کورونا کے علاج کے لئے اسپتال کی شکل دے دی یا پھرمساجد کو کوارنٹائن مراکز یا ائٓسولیشن سینٹرمیں تبدیل کر دیا۔ دیگرمذاہب کی جانب سے بھی ایسی خبریں موصول ہوئی ہیں جس میں رادھا سوامی مسلک کے ماننے والوں نے دہلی میں کورونا کے علاج کے لئے اپنی زمین پر ایک بڑا مرکز قائم کیا۔ لاک ڈاؤن کے دوران انسانی زندگی میں کئی چیزیں نئی ہوئیں اور کئی چیزوں کے استعمال میں شدت آئی ہے۔ گھر سے آفس کا کام، آن لائن خریداری، آن لائن پڑھائی، آن لائن طبی مشورہ، آن لائن میٹنگس، آن لائن سیمینار اور نہ جانےکیا کیا۔ ظاہر ہے یہ سب اس لئے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔
مساجد اورعبادت گاہوں کے تعلق سے ہمارے ذہنوں میں جو تصور تھا وہ صرف عبادت تک محدود تھا۔ ان عبادت گاہوں کے بارے میں نہ صرف ہم کچھ اور سوچ سکتے تھے اور نہ مساجد اور دیگرعبادت گاہوں کے خود ساختہ ٹھیکیداروں کا رویہ سوچنے دیتا ہے۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ امام سے لے کر مقتدی تک تبلیغی جماعت کے علاوہ کسی دوسرے کو مذہبی بات کرنے کی اجازت ہی نہیں دیتے۔ ایسے ماحول میں مساجد کے کسی اور قسم کے استعمال کے بارے میں تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔
بہرحال اس بیماری نے جہاں زندگی کے کئی شعبوں میں نئی چیزوں اور طریقوں کو متعارف کرایا ہے وہیں مذہبی امور کو بھی از سر نو سمجھنے اور نئے تجربوں کو کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ مسجد میں اسپتال یا آئسولیشن سینٹر کھولے جانے کا کریڈٹ تواس وبا کو ہی جاتا ہے۔ اب اللہ تعالی نے اس وبا کے بہانے ہمیں کچھ نئے طرح سے سوچنے کا موقع فراہم کیا ہے تو ہمیں اس کا استقبال کرنا چاہیے۔
یہ ایک حقیقت ہےکہ گاؤں کی چھوٹی سے چھوٹی مسجد پر بھی زمین کی قیمت سے لے کر اس کی تعمیر تک لاکھوں روپےخرچ ہوجاتے ہیں اور شہروں میں کیونکہ زمین سے لے کر ہرچیز مہنگی ہے تو یہاں کی مساجد کئی کروڑ کی ملکیت ہوتی ہیں۔ ان مساجدکا پورے دن میں کل استعمال زیادہ سے زیادہ چارگھنٹے کا ہے۔ یعنی چوبیس گھنٹوں میں نماز کے لئے مسجد چارگھنٹے سے زیادہ استعمال نہیں ہوتی۔اس کے ساتھ یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں بنیادی سہولیات یعنی اسکول اور اسپتال کافقدان ہے۔مسلم سماج تعلیم کی کمی اور اچھی طبی سہولیات کی کمی کے لئے حکومت سے بھی نالارہتاہے اورسوتیلے برتاؤ کی بھی شکایت کرتا ہے۔مسلمان یہ سب کچھ اس وقت کرتا ہے جب حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو اس کے اپنے پاس ان مسائل کاحل موجود ہے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی مساجد کے دائرے کو محدود نہ رکھیں۔ مساجد اور ان میں کی جانے والی عبادت کا مقصد بہترسماج کا قیام ہے اس لئے ان مساجد کا کچھ خالی وقت کے لئے طبی مراکز کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے اور کچھ خالی وقت میں محلہ کے بچوں کے لئے جدید تعلیم کا انتظام کیا جا سکتاہے۔ محلہ کےل وگ آپس میں مشورہ کر کے ان کروڑوں کی جائدادوں کاعبادت کے علاوہ فلاحی کاموں کے استعمال کے بارے میں غور کر سکتے ہیں۔ ائمہ حضرات سے بھی درخواست ہے کہ وہ نہ صرف اس جانب رہنمائی کریں بلکہ جب وہ حجاج اور عمرہ پر جانے والے لوگوں کے لئے اور ان سے اہل محلہ کے لئے دعاؤں کی درخواست کراتے ہیں تو وہ امتحانات کے وقت محلہ کے بچوں کے اچھے نمبروں سے پاس ہونے کے لئے بھی دعائیں کرائیں۔ آپ کی ذرا سی کوشش سے پورے سماج کی سوچ بدل سکتی ہے اور یہی آپ کی ذمہ داری بھی ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ آپ اپنی ذمہ داری نماز پڑھانے، کمیٹی کے ذمہ داران اور محلہ کے صاحب حیثیت لوگوں کو خوش رکھنے تک محدود رکھتے ہیں۔ نظریہ بدلیے انشاللہ حالات بدلیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔