کیوں نہ کہوں: یہ بات نہ جانے ہمیں کب سمجھ آئے گی... سید خرم رضا
مسلم قیادت نے ایک مرتبہ پھر قوم کو کوئی راستہ نہ دکھا کر مایوس کیا ہے۔ نہ تو مسقبل کی حکمت عملی کے تعلق سے سر جوڑ کر بیٹھے اور نہ ہی قوم کو موجودہ خدشات اور ان کے حل کے تعلق سے کوئی رائے دی۔
وبا کے اس دور میں کچھ لوگ اس لئے پریشان ہیں کہ ان کا روزگار چلا گیا، کاروبار پوری طرح ختم ہوگیا، تعلیم پوری متاثر ہو گئی، کھیل بند ہو گئے، عبادات کی روح اور رونقین دونوں سکڑ گئیں، لیکن آبادی کے ایک طبقہ کے پاس ویسے تو سب کچھ ہے لیکن بیماری کے خوف نے جو انہیں ایک دوسرے سے دور رہ کر گھروں میں رہنے پر مجبور کیا ہے اس کی وجہ سے ان کو اب ان کا اپنا ہی گھر کاٹنے لگا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : کیوں نہ کہوں: علماء غور کریں اور رہنمائی کریں... سید خرم رضا
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ وبا کی شدت تو زیادہ نظر آ رہی ہے، لیکن اس وبا سے ہونے والی اموات کی تعداد اتنی تشویشناک نہیں ہے جتنی تشویش ناک اس کے پھیلنے کا خوف ہے۔ یہی خوف ہے جس کی وجہ سے لاک ڈاؤن بھی نافذ کیا گیا، لیکن معیشت کی بدحالی اور اس کے مسقبل کے لئے لاک ڈاؤن بھی مرحلہ وار ختم کرنا پڑا۔ بہت دنوں بعد اتنے وقت تک گھر پر رہنے کی مجبوری کی وجہ سے شروع میں لوگوں میں جوش نظر آیا، گھروں کے کھیل یعنی کیرم اور لوڈو خوب کھیلے گئے، نئی ڈشز پر ہاتھ آزمائے گئے، غریبوں کی مدد کی گئی، ویڈیو خوب بنائی گئیں، کام کرنے اور خود کو مصروف رکھنے کے نئے نئے طریقہ ایجاد کیے گئے لیکن اب سب تھک چکے ہیں اور کسی بھی طرح اپنی پرانی زندگی میں لوٹنا چاہتے ہیں مگر خوف اب بھی ان کے پیروں کی بیڑیاں بنا ہوا ہے۔
مذہبی ادارے اور مذہبی امور سے جڑے ہوئے لوگ ایسے ہی سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جیسے ہوائی جہاز، سیاحت اور ہوٹل کی صنعت سے جڑے ہوئے افراد۔ ان حالات کو یا یوں کہیے کہ اس خالی وقت کو بہت سے لوگوں نے مستقبل کے لئے ایک حکمت عملی تیار کرنے کے لئے استعمال کیا، لیکن مذہبی تنظیموں اور اداروں نے اس وقت کو بھی ذائع کر دیا۔ ایک دو چیزوں کو چھوڑ کر باقی کہیں سے کچھ ایسا دیکھنے میں نہیں آیا جس میں مستقبل کے لئے کوئی لاحہ عمل یا دور اندیشی نظر آتی۔
افسوس صد افسوس، مسلم مذہبی رہنماؤں نے اس وقت کو پوری طرح ذائع کر دیا۔ بس کسی مسجد کو کوارنٹائن سینٹر یا اسپتال بنا دیا یا پھر کچھ مستحقین کی مدد کر دی۔ مسلمانوں کی کسی بھی بڑی تنظیم نے یہ کوشش نہیں کی کہ وہ تمام مذہبی رہنماؤں کا کوئی آن لائن اجلاس طلب کرتی اور حال و مستقبل کے بارے میں غور کرتی۔ یہ دیگر اکابرین کے ساتھ آن لائن اجلاس کیا کرتے جب انہوں نے اپنی تنظیموں کے ساتھ کوئی اجلاس نہیں کیا۔ یہ موقع تھا جب آپ اپنے غیر مسلم دوستوں کی تعداد میں اضافہ کر سکتے تھے اور ان تک آن لائن میٹنگس کے ذریعہ قربت بڑھا سکتے تھے۔
آپ آپس میں یا دوسروں سے تو کیا بات کرتے، مذہبی رہنماؤں نے تو کسی بھی مسئلہ پر اپنی ذمہ داری نہیں ادا کی۔ عید الضحی کے تعلق سے بھی کوئی غور و خوض نہیں کیا، بس قربانی کے تعلق سے جو کہا گیا اس کو صرف دہرا دیا گیا۔ بدلے ہوئے حالات کی روشنی میں کوئی رائے نہیں دی گئی، کوئی ہدایت نہیں جاری کی گئی۔ عام مسلمان اتنے پریشان ہیں کہ آیا وہ قربانی کے لئے جانور خریدیں یا نہیں، خریدیں تو ان حالات میں ان کے چارہ کا انتظام کہاں سے کیا جائے۔ بڑے شہروں کی انتظامیہ جانوروں کی خرید و فروخت کے لئے بازار لگانے کی اجازت نہیں دے رہی، مہاراشٹر حکومت نے تو آن لائن بکروں کی خرید و فروخت کی بات کہہ دی۔ قربانی کا عمل صرف جانوروں کی خریداری تک محدود نہیں ہے، اس میں فضلات کو ٹھکانے لگانے سے قربانی کے گوشت کی باقائدہ تقسیم تک کا عمل شامل ہے اور کورونا وبا کے اس دور میں ہندوستان کی ہر ریاست میں یہ ممکن نہیں ہے، خاص طور سے جہاں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔
کچھ سالوں سے شمالی ہندوستان میں ساون کے مہینے میں ہندؤوں کی ایک بڑی تعداد کانوڑ لے کر آتی ہے اور اس کی وجہ سے عوام کو پریشانی بھی ہوتی ہے اور حکومتوں کو بھی 15 دن تک بہت محنت کرنی پڑتی ہے، لیکن اس سال کورونا وبا کی وجہ سے کانوڑ یاترا اسی طرح ہوئی جیسے حج بیت اللہ امسال بہت محدود انداز میں ادا کیا جا رہا ہے۔ ایسے ماحول میں جب بھائی سے بھائی مل رہا ہے تو اس کو یہ خوف ہے کہ کہیں بھائی کورونا متاثر نہ ہو، ایسے میں اس وبا کی روشنی میں قربانی کی عبادت کے تعلق سے روائتی بیان دے کر خاموش رہنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ مذہبی قیادت کو اپنی ترجیحات اور ذمہ داریوں کے بارے میں علم ہی نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں : ’’اقرباء میرے کریں قتل کا دعویٰ کِس پر‘‘… نواب علی اختر
ہندوستان کے مسلم مذہبی رہنماؤں کی یہ وہی جماعت ہے جو ایک وقت تو قوم کو بابری مسجد کے معاملہ میں سڑکوں پر اتار دیتی ہے اور دوسرے وقت میں عدالت کے فیصلہ سے پہلے ہی بیان دے کر ہر ذمہ داری سے دست بردار ہو جاتی ہے، طلاق ثلاثہ کے لئے ہنگامہ برپا کرتی ہے اور بعد میں خود اعتراف کرتی ہے کہ وہ خود اصلاح پر غور کر رہے ہیں۔ اس قیادت نے ایک مرتبہ پھر قوم کو کوئی راستہ نہ دکھا کر مایوس کیا ہے۔ نہ تو مسقبل کی حکمت عملی کے تعلق سے سر جوڑ کر بیٹھے اور نہ ہی قوم کو موجودہ خدشات اور ان کے حل کے تعلق سے کوئی رائے دی۔ دراصل ان مذہبی قائدین نے معصوم مسلم عوام کے مذہبی جذبات کا بری طرح استحصال کیا ہے۔ یہ بات نہ جانے ہمیں کب سمجھ میں آئے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔