کیوں نہ کہوں: علماء غور کریں اور رہنمائی کریں... سید خرم رضا

جو صوتحال ہے اس میں علماء اکرام کا کردار اہم ہو جاتا ہے۔ ان کو نہ صرف سمجھانا ہوگا بلکہ ایک راستہ طے کرنا ہوگا کہ واجب قربانی کو ادا کیا جائے یا نہیں

user

سید خرم رضا

100 سال سے تھوڑا پہلے یعنی فروری 1918 میں اسپینش فلو کے نام سے ایک وبائی زکام پوری دنیا میں پھیلا تھا جس کو الگ الگ ممالک میں علیحدہ علیحدہ ناموں سے جانا جاتا تھا، کیونکہ اس وقت کمیونیکشن کے نظام نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ سیکنڈس میں ایک خبر بمع آواز اور تصویر دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جائے۔ برازیل میں جہاں اس کو جرمن فلو، ہندوستان میں بامبے فلو، سینیگل میں برازلین فلو کہا جاتا تھا اور جس ملک کے نام سے یہ جانا جاتا ہے یعنی اسپینش فلو اس اسپین میں اس کو نیپلس سولجر کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس وبائی زکام سے پوری دنیا میں کروڑوں لوگوں کی جانیں گئیں اور اعداد و شمار کے مطابق خود ہندوستان میں 12 ملین سے زیادہ لوگ اس وبا سے ہلاک ہوئے تھے۔

کووڈ- 19 یعنی کورونا وائرس وبا اور اسپینش فلو میں بہت مشابہت ہے، پھیلنے کا طریقہ، بچے اور بوڑھوں کے لئے زیادہ خطرہ، احتیاط کے طریقہ یعنی ماسک اور سماجی دوری وغیرہ وغیرہ۔ دو سال تک چلنے والے اسپینش فلو کے 4 دور آئے تھے اور فروری 1918 سے شروع ہو نے والی یہ وبا اپریل 1920 میں ختم ہوئی تھی۔ اس وقت نہ تو معیشت کے نقصان کو ناپنے کے کچھ ضابطہ تھے اور نہ ہی معیشت کا انحصار ایک دوسرے ملک پر بہت زیادہ تھا۔ زراعت معیشت کا مرکزی اور سب سے بڑا ذریعہ تھا اس لئے اس وبا کے معاشی بحران پر زیادہ تبصرہ نہیں ہوا۔


آج دنیا بدل گئی ہے جہاں کمیونکیشن کے ذرائع اتنے زیادہ اور برقی رفتار کے ہیں کہ پوری دنیا اب ہر شخص کی مٹھی میں موبائل کی شکل میں موجود ہے۔ دوسرا یہ کہ ایک دوسرے پر معاشی انحصار اتنا ہے کہ اگر ایک ملک کے اسٹاک ایکسچینج میں گراوٹ یا اچھال درج کی جاتی ہے تو اس کا اثر پوری دنیا کی معیشت پر پڑتا ہے۔ ان دونوں مرکزی وجوہات کی بنیاد کی وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ علاج اور احتیاط کے طریقہ پوری دنیا میں ملتے جلتے ہی ہیں۔

اس وبا کی چین توڑنے کے لئے جہاں لاک ڈاؤن کا نفاذ ایک طریقہ ہے وہیں ضروری کاموں کو کرتے وقت بھی اس وبا کو پھیلنے سے روکنے اور خود کو اس وبا سے دور رکھنے کے لئے ماسک پہننا اور سماجی دوری بنائے رکھنا ضروری اقدام میں شامل ہیں۔ سماجی دوری کی وجہ سے سماج تو کمروں میں قید ہو کر رہ گیا ہے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے معیشت بری طرح تباہ ہو رہی ہے۔ ان دونوں وجہ سے پوری دنیا کے عوام ہر طرح کی قربانیاں دینے پر مجبور ہیں۔ ایک دوسرے سے ملنے کا سلسلہ تقریباً ختم ہو گیا ہے، تقریبات کا انعقاد برائے نام ہو رہا ہے، تعلیمی نظام پوری طرح متاثر ہو چکا ہے اور نئی شکل اختیار کر رہا ہے، عبادت گاہوں کی رونقیں ختم ہوگئی ہیں، پیسہ اور روزگار بہت تیزی کے ساتھ ختم ہو رہے ہیں اور وبا سے خوفزدہ انسان ہر طرح کی قربانی دینے پر مجبور ہے۔


زیادہ تر ممالک میں مسلمان ماہ رمضان میں گھر پر ہی رہے اور تراویح بھی گھر پر ادا کرنے پر مجبور ہوئے، عید بھی کچھ ایسی ہی گزری، نہ عید گاہ جانے کا تصور نہ ایک دوسرے سے ملنے کا کوئی راستہ۔ ماہ رمضان میں سب سے زیادہ لوگ پوری دنیا سے عمرہ کرنے جاتے تھے لیکن اس مرتبہ مکہ مکرمہ خالی رہا اور کچھ ایسی ہی صورتحال اب حج کے موقع پر بھی ہونے والی ہے۔

اس سال عمرہ، حج، عید، رمضان سب اس وبا کی نذر ہو چکے ہیں اب عید قرباں آنے والی ہے اور حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے یعنی نہ تو وبا کی شدت میں کوئی کمی آئی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی دوائی سامنے آئی ہے۔ اب تلوار یہ لٹکی ہوئی ہے کہ عوام بقرعید پر قربانی کیسے ادا کریں گے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حکومت نے عبادات کو لے کر کچھ مشروط اجازت دے دی ہیں اور مساجد میں نمازیں ادا ہونے لگی ہیں، لیکن قربانی کے عمل میں بہت سے پہلو ہیں۔ جانور کا ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا، جانور کو بیچنا خریدنا، عید کے دنوں میں قربانی کرنا، جانور کے فضلات کو ٹھکانے لگانا، جانوروں کی کھالوں کو مدارس یا تنظیموں کے حوالہ کرنا، قربانی کے گوشت کو تقسیم کرنا۔ اس سب میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ میں آنا لازمی ہے۔ ایسے میں اگر لاک ڈاؤن کا نفاذ ہو گیا تو یہ سب پوری طرح گیا۔ اس میں سب سے پیچیدہ مسئلہ فضلات کو ٹھکانے لگانا ہے جس میں حکومت کے صفائی محکمہ کا اہم کردار ہے اور اس بیماری کا خوف اتنا زیادہ ہے کہ کوئی بھی خود سے کچھ کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔


جو صوتحال ہے اس میں علماء اکرام کا کردار اہم ہو جاتا ہے۔ ان کو نہ صرف سمجھانا ہوگا بلکہ ایک راستہ طے کرنا ہوگا کہ واجب قربانی کو ادا کیا جائے یا نہیں، ادا کیا جائے تو کیسے ادا کیا جائے اور اگر نہ کیا جائے تو قوم کو کیا کرنا چاہیے۔ ہر ملک کے تقاضہ الگ ہیں اس لئے ہمارے ملک کے تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہیے، لیکن ایک بات کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ایسے مسائل پر کوئی فیصلہ نہ لینے سے مسئلہ حل نہیں ہو جائے گا اور فیصلہ میں تمام پہلؤوں کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ آج کے حالات میں ضروری ہے کہ صاحب حیثیت افراد جانور کی قربانی نہ کر کے اس کے پیسوں کے ذریعہ کو آپریٹو گروپ بناکر مستحقین کی مدد کریں اور عید کی قربانی کو قربان کر کے اصل قربانی دیں۔ انشا اللہ آپ کا عمل اللہ تعالی کو پسند آئے گا۔ حضرت ابرہیمؑ اپنی سب سے پیاری چیز اللہ کے کہنے پر یعنی اولاد کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے اور اللہ کو حضرت ابراہیم کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ امت کے صاحب حیثیت افراد پر یہ لازم کر دیا کہ کہ ہرسال 10 ذلحجہ کو وہ بھی جانور قربان کریں۔ آج کے حالات ایسے ہیں کہ آپ حضرت ابراہیمؑ کی اس محبوب ادا کی قربانی دیں اور مستحقین کی مدد کریں۔ علماء غور کریں اور رہنمائی کریں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


    Published: 12 Jul 2020, 8:40 PM