کیوں نہ کہوں: یہ ایک تَاریخی غلطی ہے... سید خرم رضا
رجب طیب اردوغان نے اپنی سیاست اور کرسی کے لئے دیگر قوم پرست رہنماؤں کی طرح ترکی کو تباہ کر دیا ہے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو اپنے مخالفین سے جواب لینے سے محروم کر دیا ہے، یہ ایک تاریخی غلطی ہے۔
کسی بھی مسلمان کے لئے اس سے بڑی خوشی کی خبر کیا ہوسکتی ہے کہ عدالت نے ایک تاریخی مسجد کی بازیابی کاحکم دے دیا اورحکم کے بعد گزشتہ جمعہ کو وہاں باقائدہ جمعہ کی نماز بھی ادا ہوگئی۔ جمعہ کو جہاں بڑی تعداد میں لوگوں نے نماز ادا کی وہیں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے بھی وہاں نماز پڑھ کر خود کو بڑا متقی اور پرہیزگار ثابت کرنے کے لئے پوری دنیا میں اپنی نماز کی تصاویر شائع اور نشر کرانے کو یقینی بنایا۔
جس مسجد کی بازیابی کی بات ہو رہی ہے وہ دراصل ترکی کے تاریخی شہر استنبول کی آیا صوفیہ گرینڈ مسجد ہے۔ 84 سال بعد اس مسجد میں عدالت کے فیصلہ کے بعد نماز ادا ہوئی ہے۔ اس مسجد کی بھی عجیب تاریخ ہے پہلے چرچ پھر مسجد پھر میوزیم اور اب پھر مسجد، 11 جولائی کو ترک عدالت نے آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کی اجازت دی تھی جس کے بعد ترک صدر رجب طیب ایردوغان نے عمارت کو مسجد میں تبدیل کرنے کی منظوری دے دی۔
استنبول میں واقع تاریخی آ یا صوفیہ 1453 سے قبل 900ء سال تک بازنطینی چرچ تھا اور کہا جاتا ہے کہ مذکورہ عمارت کو سلطنت عثمانیہ کے بادشاہوں نے پیسوں کے عوض خرید کر مسجد میں تبدیل کیا تھا۔ آیا صوفیہ عمارت کو 1934 میں مصطفیٰ کمال اتاترک نے میوزیم میں تبدیل کردیا تھا، جسے سلطنت عثمانیہ کے قیام کے بعد مسجد میں تبدیل کی گئی تھی۔
پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سلطنت عثمانیہ کے بکھرنے اور جدید سیکولر ترکی کے قیام کے بعد مصطفیٰ کمال اتاترک نے مسجد کو 1934ء میں میوزیم میں تبدیل کردیا تھا۔ اتاترک کا مطلب ہوتا ہے بابائے ترک یعنی ترکی کے فادر آف دی نیشن۔ آج کے عدالتی فیصلہ پرغور کرنے سے پہلے تھوڑا آیا صوفیہ کو تاریخ کے روشن دان میں جھانک کر دیکھتے ہیں۔
مغرب میں قبائیلی حملوں کے بعد عظیم رومن سلطنت بکھر گئی تھی اور اس کا اقتدار مرکز روم سے ہٹ کر مشرق میں بازنطین یعنی بائزنٹائن بن گیا تھا اور بائزنٹائن یعنی بازنطین اس سلطنت کی نئی دارالحکومت بن گئی تھی جس کا بعد میں نام کانسٹنٹی نوپل یعنی قسطنطنیہ ہو گیا تھا اور یہ نام اس وقت کے بازنطینی بادشاہ کانسٹنٹائن اول کے نام پر رکھا گیا تھا۔ حضرت عیسی کے انتقال کے بعد چھٹی صدی یعنی 6 سنچری اے ڈی میں جسٹینین اول کے دور اقتدار میں آیا صوفیہ نامی چرچ تعمیرکرایا گیا تھا۔ اس کے کئی سو سال بعد عثمانیہ سلطنت اقتدار میں آئی اور اس نے نہ صرف قسطنطنیہ کا نام بدل کر استنبول رکھا بلکہ چرچ آیا صوفیا کو خرید کر مسجد میں تبدیل کر دیا۔ چرچ کو مسجد کی شکل دینے کے لئے میناریں تعمیر کرائی گئیں اور اندر جہاں حضرت عیسی، حضرت مریم اوردیگر عیسائی مذہبی تصاویر تھیں ان پر پلاسٹر کرا دیا گیا۔ اس کے بعد پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جس میں ترکی حکومت اور جرمنی میں اتحاد تھا، ترکی سلطنت بکھر گئی اور اس وقت مصطفی کمال اتا ترک نے جہاں فوج کی جوشیلی قیادت کی وہیں دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے ترک سلطنت کو پوری طرح بکھرنے سے بچا لیا۔ اپنی دور اندیشی کی وجہ سے ہی انہوں نے یہ بھی فیصلہ لیا کہ آیا صوفیہ کو ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا جائے۔ میوزیم میں تبدیلی کے بعد انہوں نے وہ تمام پلاسٹر جو چرچ کے نشانات کو مٹانے کے لئے کیے گئے تھے ان کو ہٹوایا۔ اتاترک کے اس فیصلہ کے بعد جہاں مسلم عیسائی نفرت اور دشمنی میں کمی آئی وہیں آیا صوفیہ سیاحت کا ایک بڑا مقام بن گیا جس کا زبردست فائدہ ترکی معیشت کو ہوا۔
یہ تاریخی پہلو تھا اب ہم حال میں آتے ہیں، رجب طیب اردوغان گزشتہ 23 سالوں سے پہلے بطور وزیر اعظم اور پھر ترک صدر کی حیثیت سے ترکی پرحکومت کر رہے ہیں۔ وہ استنبول کے میئر بھی رہے ہیں اور ابھی 2023 تک وہ صدر ہیں۔ گزشتہ سال میئر اور کونسلر کے ہونے والے انتخابات میں رجب طیب اردوغان کی پارٹی اور ان کی اتحادیوں کی کارکردگی اچھی نہیں رہی اور یہاں تک ہوا کہ دارالحکومت انقارہ اور استنبول میں میئر کا عہدہ حزب اختلاف کے پاس چلا گیا۔ یہی نہیں ملک کی معیشت بری طرح تباہ ہوگئی ہے جس کی وجہ سے اردوغان کے خلاف عوام کا غصہ بڑھ تا جا رہا ہے۔ اب خبریں یہ بھی گشت کر رہی ہیں کہ رجب طیب اردوغان دو سال پہلے صدارتی انتخابات کرانا چاہتے ہیں کیونکہ دو سال بعد ان کی مقبولیت زبردست کم ہو جائے گی۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ آیا صوفیہ کے ذریعہ عوام کا ذہن بنیادی مدوں سے ہٹا دیا جائے۔
پوری دنیا میں قوم پرستی اور شخصیت پرستی کی لہر ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ، ولادمیر پوتن، انجیلامارکل، نریندر مودی اور اردوغان اس کی مثال ہیں۔ مغرب میں مبصرین ترکی عدالت کے اس فیصلہ کی مخالفت کرتے وقت رام مندر کے عدالتی فیصلہ سے موازنہ کر رہے ہیں۔ اور یہ بھی اتفاق ہے کہ آیا صوفیہ میں جولائی ماہ میں نماز ادا ہونی شروع ہوتی ہے اور ایودھیا میں 5 اگست کو بھومی پوجن ہونا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : ملک پر موت اور بھکمری کا سایہ، حکومت لاپرواہ... ظفر آغا
رجب طیب اردوغان کی قیادت والی حکومت نے نہ صرف ترکی کے بابائے قوم کے فیصلوں کو غلط ٹھہرا دیا ہے بلکہ مذہبی شدت پسندی کی بنیاد رکھ دی ہے۔ شدت پسندی کسی بھی طرح کی ہو عوام اور سماج کے لئے تباہی ہی لاتی ہے۔ جس دور میں آپسی بھائی چارہ کو فروغ دینے کے لئے قدم اٹھانے کی ضرورت تھی، قوم کے لئے ترقی اور تعلیم کے نئے راستہ کھولنے کی ضرورت تھی اس وقت ترکی کی عدالت نے کھولا بھی تو کیا کھولا، جس سے معیشت کو استحکام پہنچانے والی سیاحت کا راستہ بند ہوجائے اور یوروپ سے برابری کے راستہ بند ہو جائیں گے۔ بہت کم لوگوں کوعلم ہے کہ عثمانیہ سلطنت کی پوری دنیا میں پہچان مساجد نہیں تھیں بلکہ اس دور کی سائنسی اور تعلیمی ترقی تھی۔ رجب طیب اردوغان نے اپنی سیاست اور کرسی کے لئے دیگر قوم پرست رہنماؤں کی طرح ترکی کو تباہ کر دیا ہے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو اپنے مخالفین سے جواب لینے سے محروم کردیا ہے، یہ ایک تاریخی غلطی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 26 Jul 2020, 8:11 PM