ریس کے بے تاج بادشاہ مکھن سنگھ نے فلائنگ سکھ ملکھا سنگھ کو شکست دی تھی

مکھن سنگھ جیتے جی اتنی قدر نہیں ہوئی جتنا مرنے کے بعد ہوئی۔ مکھن سنگھ اپنے گھر والوں کو اکثر کہا کرتے تھے مرنے کے بعد بہتر طور پر ان کو جانا جائے گا۔

<div class="paragraphs"><p>فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس

user

یو این آئی

ہندوستان میں کچھ کھلاڑی وقت کے ساتھ ساتھ لیجنڈ بن جاتے ہیں اور کچھ لیجنڈ تاریخ کے اوراق میں گم ہو جاتے ہیں اور کچھ کھلاڑی اتنی شہرت کمانے کے بعد بھی گمنامی ،غربت اور لاچاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک لیجنڈ ایتھلیٹ مکھن سنگھ تھے، جو بجلی کی رفتار سے ٹریک پر بھاگا کرتےتھے۔ مکھن 1960 کی دہائی کے دوران ہندوستان کے سب سے بڑے ایتھلیٹس میں سے ایک تھے۔"اگر ٹریک پر کوئی برق رفتار ی سے دوڑ سکتا تھا تو وہ مکھن سنگھ تھے۔ وہ ایک شاندار ایتھلیٹ تھے۔اس تجربہ کار اسپورٹس لیجنڈ نے اپنی قوم کے لیے بہت نام روشن کیا اور جن کی کامیابیوں اور خدمات کو ملک کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔

وہ پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے گاؤں بٹولہ میں یکم جولائی 1937 کو پیدا ہوئے۔ انہیں بچپن سے ہی دوڑنے کا شوق تھا اور اسی شوق کی وجہ سے وہ فوج میں بھرتی ہوئے۔ جب وہ 1955 میں ہندوستانی فوج میں شامل ہوئے تو انہوں نے ایتھلیٹکس کیمپ میں شمولیت اختیار کی۔ ان کی شہرت کا سب سے بڑا دعویٰ سال 1964 میں کلکتہ میں نیشنل گیمز آف انڈیا میں ملکھا سنگھ پر ان کی جیت تھی۔فلائنگ سکھ ملکھا سنگھ کو شکست دینے کے بعد مکھن سنگھ روشنی میں آئے اور اس جیت نے انہیں بلندیوں پر بٹھادیا۔ ملکھا کو ہرانے کے علاوہ، وہ 1964 کے ٹوکیو اولمپکس میں ہندوستانی مردوں کی 4×400 میٹر ریلے اور 4×100 میٹر ریلے ٹیموں کا بھی حصہ تھے۔ انہیں اسی سال ارجن ایوارڈ سے نوازا گیا، جو کہ ان کی کامیابیوں کے لیے کھیلوں کی بہترین کارکردگی کے لیے ملک کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔ لیکن مکھن میں عاجزی نے اسے کبھی اپنی کامیابیوں پر فخر نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے نیشنل گیمز میں کئی گولڈ میڈل جیتے اور 1962 کے ایشین گیمز اور 1964 کے سمر اولمپکس میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔


مکھن نے 1959 میں کٹک میں ہونے والے قومی کھیلوں میں اپنا پہلا تمغہ جیتا تھا۔ انہوں نے 1960 میں مدراس میں ہونے والے قومی کھیلوں میں چاندی اور سونے کا تمغہ جیتے۔ سال 1962 کے جکارتہ ایشین گیمز میں انہوں نے ریلے ایونٹ میں طلائی تمغہ اور کوارٹر میل ریس میں چاندی کا تمغہ بھی جیتا۔
سال 1963 میں ترویندرم میں چاندی کا تمغہ جیت کر اپنی کامیابی کو جاری رکھا۔ انہیں کامیابی کا پہلا ذائقہ 1959 میں کٹک میں منعقدہ قومی کھیلوں میں کانسہ کے تمغے کی صورت میں ملا۔ اگلے سال انہوں نے دہلی کے نیشنل گیمز میں اعلیٰ کھیل کا مظاہرہ کیا ۔ جب اس ا سپرنٹر نے طلائی اور 300 میٹر میں چاندی کا تمغہ جیتا ۔ مکھن نے اس کامیابی کو اس کے بعد کے قومی کھیلوں میں جاری رکھا، انہوں نے 1960 میں مدراس میں ایک طلائی اور ایک چاندی، 1962 میں جبل پور میں چار طلائی اور 1963 میں ترویندرم میں دو سونے اور ایک چاندی کا تمغہ جیتا۔ ان کی سب سے بڑی جیت کلکتہ میں 1964 کے نیشنل گیمز میں تھی جہاں انہوں نے 400 میٹر کی دوڑ میں ملکھا سنگھ کو 47.5 سیکنڈ سے 47.9 سیکنڈ میں شکست دی۔انہوں نے اس قومی مقابلے میں چار طلائی تمغے جیتے تھے۔ انہوں نے جکارتہ میں 1962 کے ایشین گیمز میں ہندوستان کی نمائندگی کی جہاں اس نے 4400x میٹر میں ریلے گولڈ اور 400 میٹر میں چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔

مکھن سنگھ کے لیے نیشنل گیمز کی خاص اہمیت تھی۔ انہوں نے 1959 سے 1964 تک تمام کھیلوں میں حصہ لیا اور کل 12 طلائی، تین چاندی اور ایک کانسہ کے تمغے جیتے جو کہ کلکتہ میں ان کی بہترین کارکردگی تھی۔ ملکھا سنگھ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا ’’اگر کوئی شخص تھا جس سے میں ٹریک پر ڈرتا تھا تو وہ مکھن تھا۔ وہ ایک شاندار ایتھلیٹ تھا ۔


سال 1962 کا سال مکھن کا سنہری دور تھا۔ اسی سال وہ ایشین گیمز میں شرکت کے لیے جکارتہ گئے۔ 400 میٹر ریلے ریس میں دلجیت سنگھ، جگدیش سنگھ اور ملکھا سنگھ ان کے ساتھ تھے۔ چاروں نے پھر ایک نیا ریکارڈ بنایا اور گولڈ میڈل جیت لیا۔ مکھن نے 400 میٹر ریس میں چاندی کا تمغہ بھی حاصل کیا۔

سال 1972 میں وہ ایتھلیٹ سے ریٹائر ہوئے۔تاہم ایک ریٹائرڈ اولمپیئن کے لیے زندگی آسان نہ تھی۔وہ ہندوستانی فوج میں صوبیدار کے عہدے پر بھی فائز ہوئے اور فوج سے ریٹائر ہونے کے بعدان کا گذر بسر مشکل ہوگیا۔ غربت کو مات دینے کے لیے انہوں نے اپنے گاؤں میں اسٹیشنری کی دکان کھولی ۔ یہاں تک کہ دنیا کے سب سے بڑے کھیل کے میدان میں ملک کی نمائندگی کرنے کے بعد بھی، سنگھ نے اپنا مقصد پورا کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ وہ شوگر کے مرض میں مبتلا بھی ہوگئے تھے اور 1990 میں ان کی ٹانگ سڑک حاثہ میں شیشے کے ٹکڑوں سے زخمی ہو گئی تھی، اس لیے ڈاکٹروں نے ان کی ٹانگ کاٹنے کا مشورہ دیا۔ سنگھ ایک عزت دار اور غیرت مند آدمی تھے، انہوں نے اپنی بہن سرجیت کور سے پیسے لینے سے بھی انکار کر دیا۔


حکومت کی طرف سے مالی امداد نہ ملنے کی وجہ سے، انہوں نے ناگپور میں ٹرک چلانا شروع کر دیا تاکہ وہ اپنا خرچ پورا کر سکیں۔ ملکھا نے مٹی کے تیل کا ڈپو حاصل کرنے میں مکھن کی مدد کی تاکہ مکھن کے مالی بحران پر قابو پایا جا سکے۔ لیکن وہ باعزت زندگی گزارنے کے لیے اتنی کمائی نہ کر سکے۔ان کی بیوی نے ایک بار اپنے خاندان کے اخراجات چلانے کے لیے اپنے ایوارڈزتک فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔

ہندستانی ایتھلیٹ کا ایک بھولا ہوا ہیروجسے ریسنگ کا بادشاہ کہا جاتا ہے، اپنی کامیابیوں کے لیے سال 1964 میں ارجن ایوارڈ سے نوازا گیا۔ سنگھ کی موت21 جنوری 2002 میں چبےوال میں دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ۔ مکھن سنگھ جیتے جی اتنی قدر نہیں ہوئی جتنا مرنے کے بعد ہوئی۔ وہ اپنے گھر والوں کو اکثر کہا کرتے تھے مرنے کے بعد بہتر طور پر ان کو جانا جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔