آئینی حقوق کی خلاف ورزی، شہریوں کا اضطراب اور عدلیہ کا کردار... سہیل انجم
2014 کے بعد اور بالخصوص 2019 کے بعد مرکزی حکومت نے ایسے متعدد فیصلے کیے ہیں جو آئینی ماہرین کے مطابق آئین و دستور کے منافی ہیں۔
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔ یہاں آئین کی حکمرانی ہے۔ حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ آئین کا احترام کریں اور جو بھی فیصلے کریں وہ آئین کے دائرے میں کریں۔ جو بھی قانون سازی کی جائے وہ آئین کو سامنے رکھ کر کی جائے۔ آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہ تو حکومتوں کو دی جا سکتی ہے اور نہ ہی شہریوں کو۔ اس ملک میں متعدد ادارے ایسے ہیں جنھیں آئینی حیثیت حاصل ہے اور حکومت کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ ان اداروں کی خود مختاری پر ضرب لگائے یا ان کے حقوق و اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کرے۔
یہ بھی پڑھیں : یہ تو ٹریلر ہے، فلم ابھی باقی ہے... سہیل انجم
سال 2014 سے قبل ملک میں جو بھی حکومتیں قائم ہوئیں انھوں نے عام طور پر آئین کا احترام کیا اور انھوں نے جو فیصلے کیے وہ آئین کے دائرے میں کیے۔ لیکن 2014 کے بعد اور بالخصوص 2019 کے بعد مرکزی حکومت نے ایسے متعدد فیصلے کیے ہیں جو آئینی ماہرین کے مطابق آئین و دستور کے منافی ہیں۔ اس نے ایسے کئی قوانین بھی بنائے جو ماہرین کے نزدیک آئین کی روح کے خلاف ہیں۔ اپوزیشن کی جانب سے ان قوانین کی مخالفت کی گئی اور کی جا رہی ہے لیکن یہ حکومت اپنے مبینہ غیر آئینی فیصلوں پر قائم اور قوانین کو باقی رکھے ہوئے ہے۔
ان فیصلوں اور قوانین کو سپریم کورٹ اور ملک کے مختلف ہائی کورٹوں میں چیلنج کیا گیا لیکن عدالتیں ان عذرداریوں پر سماعت کرنے میں کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہیں۔ جب پانچ اگست 2019 کو مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کو خصوصی اختیارات تفویض کرنے والی دفعہ 370 اور آئین کی دفعہ 35 کو کالعدم یا منسوخ کر دیا تو اس فیصلے کے خلاف پورے ملک میں شدید احتجاج کیا گیا۔ صرف احتجاج ہی نہیں ہوا بلکہ سپریم کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے متعدد پٹیشنس داخل کی گئیں۔ لیکن سب کچھ بے نتیجہ رہا۔ حبس بیجا کی بھی درخواستیں داخل کی گئیں لیکن ان پر بھی سماعت نہیں ہو رہی ہے۔ حالانکہ حبس بیجا کی درخواستوں پر فوری سماعت ہونی چاہیے۔
دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف دو درجن عذرداریاں سپریم کورٹ میں معرض التوا میں ہیں لیکن عدالت عظمیٰ کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔ 28 اگست 2019 کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بینچ ان عذرادریوں پر سماعت کرے گی۔ آخری بار دو مارچ 2020 کو سابق چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڈے کے سامنے ان درخواستوں کو سماعت کے لیے اِن لسٹ کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد کوئی سماعت نہیں ہوئی۔
گیارہ دسمبر 2019 کو حکومت نے شہریت کا ترمیمی قانون سی اے اے منظور کیا۔ اس کے بارے میں بھی آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قانون خلاف آئین ہے۔ اس میں مذہب کی بنیاد پر تین ملکوں سے آنے والے افراد کو شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے جبکہ آئین مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کے خلاف ہے۔ اس قانون کے خلاف پورے ملک میں زبردست احتجاج کیا گیا اور پورے ملک نے اٹھ کر اس قانون کی مخالفت کی۔ اس قانون کے خلاف 143 درخواستیں سپریم کورٹ میں پینڈنگ ہیں۔ لیکن عدالت عظمیٰ اس پر بھی کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ قانون بننے کے اتنے عرصے کے بعد بھی اس کے ضوابط وضع نہیں کیے جا سکے ہیں۔
غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق دہشت گردی مخالف قانون یو اے پی اے کو بھی عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ پہلے اس قانون میں کسی تنظیم کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی بات کہی گئی تھی لیکن اس میں ترمیم کرکے اس کے دائرے میں انفرادی شخص کو بھی شامل کر دیا گیا۔ یعنی ایجنسیاں چاہیں تو کسی انفرادی شخص کو بھی دہشت گرد قرار دے کر اس کے خلاف یو اے پی اے کے تحت کارروائی کر سکتی ہیں۔ اس قانون کے بننے کے بعد پولیس اور ایجنسیوں کی جانب سے عام لوگوں پر بھی یو اے پی اے لگا کر مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر تری پورہ میں ہونے والے مسلم مخالف فساد کی جانچ کرنے اور اس کی رپورٹنگ کے لیے جانے والے وکلا، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف بھی یو اے پی اے لگا دیا گیا۔ اس قانون کے خلاف بھی متعدد درخواستیں عدالت میں زیر التوا ہیں لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔
شہریوں کے آئینی حقوق کی پامالی غداری کے قانون سے بھی ہو رہی ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں جب ہندوستانی شہری حکومت کے خلاف احتجاج کرتے تھے تو حکومت نے ان احتجاجوں کو کنٹرول کرنے اور احتجاج کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے یہ قانون بنایا تھا۔ لیکن وہ اب بھی جوں کا توں موجود ہے۔ سابقہ حکومتیں اس قانون کا کم سے کم استعمال کرتی تھیں۔ لیکن اس حکومت میں اس قانون کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے۔ اگر کسی نے حکومت کے خلاف کوئی بیان دے دیا یا اس کے خلاف کوئی مضمون لکھ دیا تو اس کے خلاف اس قانون کے تحت کارروائی کر دی جاتی ہے۔ اس قانون کو بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ لیکن اس پر بھی عدالت عظمیٰ نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
اسی طرح اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ کے اسپائی سافٹ وئیر پیگاسس کی مدد سے شہریوں کی جاسوسی کی گئی۔ جن میں انسانی حقوق کے کارکن، سیاست داں، صحافی، تاجر، وکلا اور دوسرے لوگ بھی شامل ہیں۔ ہندوستان کے تین سو افراد کی جاسوسی کی گئی جو کہ آئین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ شہریوں کو نجی زندگی جینے اور پرائیویسی کا حق دیا گیا ہے لیکن پیگاسس کی مدد سے اس حق کی پامالی کی گئی۔ اس کے خلاف بھی سپریم کورٹ میں متعدد درخواستیں داخل کی گئی ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس بارے میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے لیکن حقیقتاً اس سلسلے میں بھی کوئی اہم پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔
متنازعہ زرعی قوانین کا معاملہ بھی ایسے ہی معاملات میں شامل ہے۔ حالانکہ اب حکومت نے ان قوانین کی واپسی کا اعلان کیا ہے لیکن اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ میں درخواستیں داخل کی گئی ہیں اور ان پر بھی کوئی بہت زیادہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
گزشتہ دنوں ملک کے دو سو سے زائد شہریوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے نام ایک کھلے خط میں اپیل کی اور کہا کہ ان فوری توجہ کے معاملات پر سماعت کی جائے۔ لیکن اس خط پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔ خط کے مطابق جن معاملات کو اٹھایا گیا ہے ان میں دفعہ 370 کی منسوخی، یو اے پی اے کا بے دریغ استعمال، شہریت کا ترمیمی قانون (سی اے اے)، زرعی قوانین، غداری کا قانون، پیگاسس اور آدھار کارڈ کے تحت شہریوں کی نجی زندگی کا معاملہ، رافیل سودہ اور الیکٹورل بانڈ اور الیکشن فنڈنگ میں شفافیت جیسے معاملات شامل ہیں۔
خط کے مطابق عدالت کی مختلف آئینی بینچوں کے سامنے 421 معاملات زیر التوا ہیں جن میں 49 کلیدی معاملات ہیں اور 372 ان سے متعلق ہیں۔ خط کے دستخط کنندگان کا کہنا ہے کہ دفعہ 370 کا خاتمہ مقررہ پارلیمانی عمل سے گزرے بغیر کر دیا گیا۔ زرعی قوانین کی جانچ کے لیے عدالت عظمیٰ نے ایک کمیٹی بنائی تھی اس نے اپنی رپورٹ بھی دے دی اس کے باوجود اس پر ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ان معاملات سے شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں اور یہ قومی اہمیت کے معاملات ہیں۔
خط کے مطابق حال ہی میں سپریم کورٹ میں نو ججز کا تقرر ہوا ہے اور اب ججز کی تعداد بڑھ کر 31 ہو گئی ہے۔ جس کی وجہ سے طویل عرصے سے زیر التوا معاملات پر فوری سماعت کے حوالے سے عوام کی توقعات بڑھ گئی ہیں۔ ان میں سے کئی معاملات دو سال سے زائد عرصے سے زیر التوا ہیں جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی زندگی متاثر ہوئی ہے اور ان کی روزی روٹی کا سنگین مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ ان آئینی معاملات کے جلد نمٹارے سے عدلیہ اور سپریم کورٹ پر شہریوں کا اعتماد بحال ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں : پنجاب نہیں، معاملہ اتر پردیش چناؤ کا ہے… ظفر آغا
لیکن اس خط کا بھی عدالت عظمیٰ پر کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ بھی صدا بہ صحرا ثابت ہوا ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر چہ ہندوستان کی عدالتیں بہت حد تک آزاد ہیں اور اکثر و بیشتر ایسے فیصلے سنائے جاتے ہیں جو حکومت کے لیے پریشان کن ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ایسا محسو ہوتا ہے کہ عدلیہ پر بھی حکومت کا اثر ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ مذکورہ معاملات پر کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔