یہ تو ٹریلر ہے، فلم ابھی باقی ہے... سہیل انجم
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بی جے پی کچھ بھی کر لے وہ یو پی نہیں جیت سکتی۔ ضمنی انتخابات کے نتائج ٹریلر تھے پوری فلم ابھی باقی ہے۔
گزشتہ دنوں تیرہ ریاستوں میں ضمنی انتخابات ہوئے ہیں۔ ان میں تین پارلیمانی حلقے تھے اور 29 اسمبلی حلقے۔ ان انتخابات کے نتائج پر حکومت کی بھی نظریں لگی ہوئی تھیں اور اپوزیشن کی بھی۔ کیونکہ اگلے سال کے اوائل میں یعنی غالباً فروری اور مارچ میں انتہائی اہم ریاست اترپردیش سمیت پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ لہٰذا یہ سمجھا گیا تھا کہ ضمنی انتخابات کے نتائج آنے والے انتخابات کے سلسلے میں کوئی اشارہ دیں گے۔ اور انھوں نے اشارہ دے دیا ہے اور پورے ملک میں پیغام پہنچا دیا ہے جو بہت صاف اور بہت واضح ہے۔ یہ پیغام حکومت تک بھی پہنچا ہے اور مرکز میں حکمراں بی جے پی تک بھی پہنچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سات نومبر کو بی جے پی کا ایک اہم اجلاس ہوا جس میں خصوصی طور پر انتخابی نتائج پر اور ان کی روشنی میں آنے والے انتخابات پر غور کیا گیا۔
ان انتخابی نتائج کا پیغام یہ ہے کہ بی جے پی کے لیے حالات اچھے نہیں ہیں۔ اترپردیش کا الیکشن جیتنا اس کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ دراصل تین پارلیمانی سیٹوں میں سے بی جے پی کو صرف ایک سیٹ ملی ہے جبکہ تینوں پر اس کا قبضہ تھا۔ اسی طرح 29 اسمبلی سیٹوں میں سے صرف آٹھ پر وہ کامیاب ہو سکی ہے۔ جیسا کہ قارئین کو معلوم ہے کہ اسے سب سے شرمناک شکست ہماچل پردیش اور مغربی بنگال میں ہوئی۔ مغربی بنگال میں تو خیر ٹی ایم سی کی حکومت ہے۔ وہاں کے وہ نیتا جو اسمبلی انتخابات سے قبل بی جے پی میں چلے گئے تھے ٹی ایم سی میں واپس آنے کے لیے ان میں ہوڑ لگی ہوئی ہے۔ وہاں بی جے پی کی حالت پہلے کے مقابلے میں انتہائی خستہ ہو چکی ہے۔ جبکہ اس نے اسمبلی انتخابات اور اس سے قبل پارلیمانی انتخابات میں اچھی کامیابی حاصل کی تھی۔ لیکن اس کو وہاں اب اپنا وجود بچائے رکھنے کے لیے لوہے کے چنے چبانے پڑ رہے ہیں۔ اس لیے بنگال کا نتیجہ اتنا چونکانے والا نہیں ہے جتنا کہ ہماچل پردیش کا ہے۔
ہماچل پردیش میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ وہاں ایک پارلیمانی اور تین اسمبلی سیٹوں پر الیکشن ہوئے۔ بی جے پی پارلیمانی سیٹ بھی ہار گئی اور اسمبلی سیٹیں بھی۔ حالانکہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ برسراقتدار جماعت اپنی ہی ریاست میں اس طرح ہار جائے۔ ہماچل پردیش میں کسانوں کی اکثریت ہے جو سیب پیدا کرتی ہے۔ وہاں سیبوں کی کاشت پر ہی معیشت کا انحصار ہے۔ اڈانی گروپ کو وہاں سیب خریدنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس نے گزشتہ سال سیبوں کی اچھی قیمت دی تھی لیکن اس بار اس سے کافی کم قیمت پر اس نے خرید کی ہے۔ جس کی وجہ سے سیب کاشت کرنے والے کسان ناراض ہو گئے۔ یہ تو ایک مقامی وجہ ہے۔ دوسری وجہ شکست کی قومی ہے۔ یعنی ملک میں تیزی سے بڑھتی مہنگائی نے بھی الیکشن پر اثر ڈالا ہے۔ خود ہماچل پردیش کے وزیر اعلیٰ جے رام ٹھاکر نے یہ اعتراف کیا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے پارٹی کی شکست ہوئی ہے۔
اسی طرح دوسری ریاستوں میں بھی بی جے پی کو شکست کا سامنا رہا۔ البتہ اس نے مدھیہ پردیش اور آسام میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ جب سے ہیمنت بسوا سرما آسام کے وزیر اعلیٰ بنے ہیں ریاست میں فرقہ واریت کی سیاست عروج پر ہے۔ جس کی وجہ سے بی جے پی کو مذہب کی بنیاد پر ہندووں کے بڑے طبقے کو اپنی جانب راغب کرنے میں آسانی ہو گئی ہے۔ اس نے وہاں ایک دوسری پارٹی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا تھا۔ لہٰذا اسے اپنے حلیف کے ساتھ تمام پانچوں سیٹوں پر کامیابی مل گئی۔ لیکن راجستھان اور دیگر ریاستوں میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ہریانہ کے ایلن آباد سیٹ پر بھی ضمنی الیکشن ہوا۔ وہاں ابھے چوٹالہ ممبر اسمبلی رہے ہیں لیکن انھوں نے متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا تھا۔ ریاست میں کسانوں کی تحریک کا خاصا زور ہے۔ کسانوں نے ریاست میں حکمراں بی جے پی، جے جے پی کے امیدوار کے خلاف پرچار کیا اور اسے شکست ہوئی۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ وہاں کا نتیجہ یہ واضح کرتا ہے کہ آنے والے الیکشن پر کسان تحریک کا اثر پڑے گا۔ اگلے سال پنجاب اور اترپردیش میں بھی اسمبلی انتخابات ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ جو نتیجہ ہریانہ میں برآمد ہوا وہی ان دونوں ریاستوں میں بھی برآمد ہوگا۔
انتخابی نتائج نے مرکزی حکومت کو پریشان کر دیا ہے اور اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ان نتائج کے بعد ہی اس نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں تخفیف کر دی ہے۔ جس پر سوشل میڈیا میں خوب لطیفے بن رہے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر مہنگائی سے اور تیل اور رسوئی گیس اور خوردنی تین کی قیمتوں میں تیزی سے ہونے والے اضافے سے نجات حاصل کرنی ہے تو آنے والے الیکشن میں بی جے پی کو ہرایا جائے۔ حکومت بھی یہی سمجھ رہی ہے کہ اگر مہنگائی پر قابو نہیں پایا گیا تو الیکشن میں نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ اسی لیے وہ اب کچھ مزید اشیا کی قیمتوں میں تخفیف پر غور کر رہی ہے اور اگر اگلے سال مزید کچھ اشیا کی قیمتوں میں کمی کر دی جائے تو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ضمنی انتخابات میں عام طور پر اسی پارٹی کی جیت ہوتی ہے جو برسرِ اقتدار ہو۔ اقتدار میں آنے کے بعد کم از کم دو سال تک اسی کے حق میں نتیجے آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی بنگال میں ٹی ایم سی کو کامیابی ملی ہے اور بی جے پی کو بڑی شکست ہوئی ہے۔ لیکن بی جے پی ہماچل پردیش میں برسرِ اقتدار ہے اور پھر بھی اس کی ہار ہوئی۔ اسی طرح ہریانہ میں بھی وہ حکومت میں ہے البتہ پھر بھی اس کو شکست ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی کی شکست کی کوئی وجہ ہو گی۔ اور وجہ بہت صاف ہے کہ کسانوں اور مہنگائی کا اثر الیکشن پر پڑا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آگے جو الیکشن ہوں گے ان پر بھی اثر پڑے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اقتصادی ایشوز کا انتخابات پر اثر پڑتا ہے اور آگے بھی پڑے گا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ملکی معیشت بری طرح زوال پذیر ہے۔ وہ زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مہنگائی، کسان تحریک، خواتین کے خلاف جرائم اور حکومت کا من مانے انداز میں کام کرنا، یہ وہ ایشوز ہیں جن کا آنے والے انتخابات پر اثر پڑے گا۔
لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بی جے پی جب اپنی شکست سامنے دیکھتی ہے تو مذہبی ایشوز کو ہوا دینے لگتی ہے اور ملک میں ایسا ماحول بنانے لگتی ہے کہ ایک خاص مذہب کے ماننے والے دوسرے مذہب کے خلاف ہو جائیں اور پھر بی جے پی اسی بنیاد پر الیکشن کی فصل کاٹ لے۔ سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ یہ حکومت سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ اس لیے اگر اسے لگے گا کہ یو پی میں ہار رہی ہے تو تحریک چلانے والے کسانوں سے ایسا کوئی سمجھوتہ کر لے گی کہ تحریک کا الیکشن پر کم سے کم اثر پڑے۔
یہ بھی پڑھیں : کیجریوال: ’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘… ظفر آغا
لیکن بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والے انتخابات بی جے پی کے لیے مشکل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے گزشتہ دنوں یو پی کے دورے پر اپنی تقریر میں کہا تھا کہ اگر 2024 میں نریندر مودی کو جتانا ہے تو 2022 میں یو پی میں بی جے پی کو جتانا ہوگا۔ اس الیکشن کو جیتنے کے لیے ابھی سے فرقہ وارایت کا کارڈ بھی کھیلنا شروع کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ اب سے پہلے کی حکومتیں عوام کا پیسہ قبرستانوں پر خرچ کرتی تھیں لیکن یہ حکومت مندروں پر خرچ کر رہی ہے۔ اسی طرح کیدار ناتھ میں وزیر اعظم مودی نے کاشی اور متھرا کا نام لیا۔ یہ دونوں باتیں واضح طور پر اشارہ کر رہی ہیں کہ بی جے پی مذہبی کارڈ کھیلنے کی تیاری کر رہی ہے۔ اگر انتخابات کے موقع پر بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ کا مسئلہ بھی اچھال دیا جائے تو کوئی تعجب نہیں ہوگا۔ لیکن سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بی جے پی کچھ بھی کر لے وہ یو پی نہیں جیت سکتی۔ ضمنی انتخابات کے نتائج ٹریلر تھے پوری فلم ابھی باقی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔