سائنس سے دشمنی والا رشتہ بند کیجیے... سید خرم رضا
سائنس کے ساتھ دشمنی کا رشتہ رکھ کر بہت نقصان اٹھا چکے ہیں، اس لئے سائنس اور صحیح سوچ کو اپنا دوست بنائیے۔ اس وبا کو روکنے کے لئے اس کے راستے بند کیجیے اور یہ راستہ ٹیکہ لگوا کر ہی بند کیا جا سکتا ہے۔
کورونا کا ٹیکہ یعنی ویکسین کو لے کر طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں۔ سروے کے مطابق ہندوستان میں کورونا کا ٹیکہ لگوانے کو لے کر سب سے کم جھجھک ہے یعنی لوگ ٹیکہ لگوانے کے حق میں ہیں۔ یہ وہ سروے ہے جو لوگ انجان آدمی کے سامنے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں، لیکن زمینی حقیقت اس کے برعکس نظر آ تی ہے۔ ملک کی ایک بڑی آبادی اور خاص طور سے ہندوستانی مسلمانوں کے ذہن میں ویکسینیشن کو لے کر طرح طرح کے سوال ہیں اور ان میں اس ٹیکہ کو لے کر ایک جھجھک ہے۔
ہم صرف مسلمانوں کی آبادی کے تعلق سے آ ج بات کرتے ہیں۔ گزشتہ سال یعنی پہلی لہر کے دوران لوگوں نے اس بیماری کو وبا ماننے سے ہی انکار کر دیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں اس کے تعلق سے احتیاط کم برتنے کے باوجود بیماری نہ کے برابر تھی۔ اس لئے اس پر طرح طرح کے سوال پیدا ہوئے۔ سماج کا وہ طبقہ جو پہلے سے کئی بیماریوں میں مبتلا تھا اور جس کا مدافعتی نظام کمزور تھا اس پر اس وائرس نے حملہ کیا، لیکن کچھ وقفہ کے بعد ماسک، سماجی دوری اور لاک ڈاؤن کے نفاذ سے یہ وبا قابو میں آ گئی اور ہم نے اس تعلق سے لاپروائی برتنی شروع کر دی، سوچ بیٹھے کے برے دن گئے اور پرانے دن واپس آ گئے، لیکن وائرس نے زندہ رہنے کے لئے اپنی شکل بدلی اور اس نے نوجوانوں میں داخلہ کا راستہ اختیار کیا اور اس کے بعد دنیا کے سائنس دانوں نے وائرس کے میوٹیٹ یعنی شکل اور فطرت بدلنے پر تحقیق کی اور انہوں نے اپنی تحقیق میں یہ پایا کہ وائرس اپنی شکل بدل رہا ہے۔
وائرس کے شکل بدلنے کے بعد وبا میں شدت آئی اور وہ لوگ بھی اس کی زد میں آ گئے جن کو کوئی جان لیوا بیماری نہیں تھی اور ان کا مدافعتی نظام بہتر تھا۔ اس کو وائرس کی دوسری لہر کا نام دیا گیا اور اس دوسری لہر نے ان لوگوں کو بھی متاثر کیا جنہوں نے اس وائرس کے ہونے سے ہی انکار کیا تھا۔ مسلمان جو پہلی لہر کے بعد اس وائرس کے ہونے اور وبا پر سوال کھڑے کر رہے تھے، انہوں نے دوسری لہر کو قریب سے دیکھا اور اس کی تکلیف کو محسوس کیا۔ جب ان کے قریبی اس وبا سے متاثر ہوئے اور انہوں نے اپنے قریبیوں کو کھویا تو انہوں نے وائرس اور وبا کو تو تسلیم کر لیا اور احتیاط بھی برتی، لیکن ٹیکہ کو لے کر ابھی بھی ان کے ذہنوں میں سوال ہیں۔
دوسری لہر میں وائرس خود کو منوا چکا ہے اور اب تیسری لہر کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ ہندوستان میں طبی نظام اور سہولیات پر بہت سارے سوال کھڑے ہوئے ہیں لیکن اب دنیا کے ساتھ ہندوستان نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ ماسک، سماجی دوری، ہاتھ دھونا اور لاک ڈاؤن اس وائرس سے بچنے میں ایک عارضی حل ہے اور ٹیکہ کاری یعنی ویکسینیشن واحد مسقتل حل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ملک کے ہر شہری کو ٹیکہ نہیں لگا تو اس وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ برقرار رہے گا کیونکہ وائرس کے زندہ رہنے اور حملہ کرنے کے لئے راستہ کھلا رہے گا یعنی ٹیکہ کاری اس راستے کو بند کرنے کا واحد حل ہے۔
دوسری لہر سے جو بات ثابت ہوئی وہ یہ ہے کہ وائرس نے اس آبادی پر حملہ کیا جو پچھلی بار محفوظ رہی تھی یعنی نوجوان اور مسلمان۔ اب کیونکہ اس آبادی کے بھی ایک بڑے طبقہ کو کورونا ہوگیا ہے اور اینٹی باڈیز بننے کے بعد مدافعتی نظام بہتر ہو گیا اور زیادہ عمر کے لوگوں کی ایک بڑی آبادی کو ٹیکہ بھی لگ گیا ہے اس لئے یہ وائرس اب ان لوگوں کے راستے آبادی میں داخل ہو گا جن میں نہ تو کورونا ہونے کی وجہ سے اینٹی باڈیز بنی ہیں اور نہ ہی ٹیکہ لگا ہے۔ اس آبادی میں بچے اور دیہات و شہر کے وہ لوگ شامل ہیں جن کو ٹیکہ نہیں لگا ہے۔ اسی کو لے کر تیسری لہر کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس سب سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ اگر ہم نے ملک کی ایک بڑی آبادی کو ٹیکہ لگا دیا تو ہم وائرس کے لئے دروازہ بند کرنے میں تو کسی حد تک کامیاب ہو جائیں گے بس چھوٹی موٹی کھڑکی رہ جائیں گی جن سے آنے والے وائرس کو ہم ماسک، سماجی دوری، ہاتھ دھونے اور چھوٹے لاک ڈاؤن سے دور رکھ سکتے ہیں۔
کچھ چیزیں جن پر سرسری سی روشنی ڈالنی ضروری ہے اور وہ یہ ہیں کہ ویکسین جسم کے مدافعتی نظام کو مظبوط کر نے کا کام کرتی ہے اور ہم خود بچپن سے اور اب اپنے بچوں کو کئی بیماریوں سے لڑنے کے لئے الگ الگ ٹیکہ لگواتے ہیں اس لئے یہ بھی انہیں ٹیکوں کی طرح کا ایک ٹیکہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سائنس دانوں اور ماہرین کے مطابق زیادہ تر کورونا کے ٹیکوں کی ایفیکیسی یعنی مرض سے بچانے کی صلاحیت 90 فیصد سے زیادہ ہے یعنی کورونا کا ٹیکہ لگوانے کے بعد 90 فیصد بچاؤ کا یقین تو کیا جا سکتا ہے یعنی جان لیوا کورونا بیماری کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
اس کے ساتھ ایک اور حقیقت پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے کہ اس ٹیکہ سے نہ تو مردانگی اور نہ ہی جنسی طاقت پر کوئی اثر پرٹا ہے اور نہ ہی یہ کوئی مسلمانوں کے خلاف یہودی اور عیسائیوں کی سازش ہے، کیونکہ ایک تو ان کی اپنی بڑی آبادی یہ ٹیکہ لگوا رہی ہے دوسرا یہ کہ مسلمان اور مسلمانوں میں بھی خواتین اور مرد کے لئے الگ الگ ویکسین تیار کرنا اور اس کو لگانا ممکن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ عرب ممالک یہ ٹیکہ لگوانے میں پیش پیش ہیں۔ اس لئے ایسی افواہوں کو آگے بڑھانے یعنی فارورڈ کرنے سے بھی پرہیز کریں۔ سوشل میڈیا پر ایک افواہ ٹیکہ کے ذریعہ انسانی ذہن کو اپنے قبضہ میں کرنے کے لئے چپ لگائے جانے سے متعلق بھی ہے۔
آج کے دور میں انسان کا ذہن کب اپنا رہ گیا ہے، وہ وہی کرتا ہے جو مارکیٹ کی قووتیں اس سے کرواتی ہیں۔ آپ سب نے اس بات پر غور کیا ہوگا کہ آپ کسی چیز کو اپنے موبائل پر ڈھونڈتے ہیں یا بات بھی کرتے ہیں تو مارکیٹ کی قووتیں ان جیسی چیزوں کو آپ کے کمپیوٹر اور موبائل اسکرین پر دکھانا شروع کر دیتی ہیں اور یہ دیکھ کر آپ حیران بھی ہوتے ہیں۔ اس لئے انسان کے ذہن کو قابو کرنے کے لئے کسی چپ کی ضرورت اب نہیں رہی، یہ انسان کی غلط فہمی ہے کہ اس کا ذہن آزاد ہے۔ کچھ لوگ اپنی انفرادیت قائم کر نے کے لئے، اپنا حلقہ بنانے کے لئے اور متاثر کرنے کے لئے اس طرح کے ویڈیو سوشل میڈیا پر اس طرح شئیر کرتے ہیں کہ آپ متاثر ہو جائیں، اس لئے ہر چیز کو عقل کے ترازو میں تولنے کی ضرورت ہے۔
یہ بات بھی گوش گذار کرنی ضروری ہے کہ آئندہ کچھ سالوں تک سفر کے لئے ٹیکہ لگوانے کی رپورٹ لازمی ہوگی اور آپ یہ کہیں کہ آپ کہیں بھی سفر نہیں کرتے تو آپ اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کر سکتے کہ حج آپ کے اوپر فرض ہے اور اگر اس کی سعادت آپ کو نصیب ہو جاتی ہے تو پاسپورٹ کی طرح ٹیکہ لگوانے کی رپورٹ بھی لازمی ہو گی۔ اس لئے یہ ویکسینیشن آپ کے اپنے لئے ہے۔
آپ اگر اپنے قریبیوں سے بے خوف ہو کر ملنا چاہتے ہیں تو یہ ویکسین آپ کے لئے ہے۔ اگر آپ بے خوف ہو کر اپنے قریبیوں کی تدفین کرنا چاہتے ہیں تو یہ ویکسین آ پ کے لئے ہے۔ یہ ویکسین آپ کے اپنے بچوں کے لئے ہیں۔ مذہب کے پردے کے پیچھےکھڑے ہو کر خود کو دھوکا مت دیجیے اور سائنس کو مت نکا ریئے۔ سائنس کو اس کا ضروری مقام نہ دے کر اور اس کے ساتھ دشمنی کا رشتہ رکھ کر بہت نقصان اٹھا چکے ہیں، بہت ذلیل ہو چکے ہیں اس لئے سائنس اور صحیح سوچ کو اپنا دوست بنائیے۔ اس وبا کو روکنے کے لئے اس کے راستے بند کیجیے اور یہ راستہ ٹیکہ لگوا کر ہی بند کیا جا سکتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 30 May 2021, 6:11 PM