ملک کو رام دیو کی سوچ کی نہیں سائنسی سوچ کی ضرورت ہے...سید خرم رضا
دراصل سائنس کے اس دور میں ان تمام غیر سائنسی اقدام کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے، تاکہ ملک میں سائنسی سوچ کو فروغ ملے اور ملک میں ترقی ہوسکے۔
وبا کے اس خوفناک دور میں سبھی لوگوں کو بہت ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، خاص طور سے ان لوگوں کو جن کی ملک کی ایک آبادی اتباع کرتی ہو یعنی فولو کرتی ہو۔ ایسے اشخاص کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ انتہائی اہمیت رکھتا ہے اس لئے ان کو اپنے بیانات میں بہت ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ رام دیو جن کو یوگ گرو کہا جاتا ہے اور ملک کی ایک آبادی ان کی اتباع کر تی ہے اگر ان کے خلاف ملک کی معروف اور مستند طبی تنظیم انڈین میڈیکل ایسو سی ایشن اور ایمس جیسے معتبر اسپتال کے ڈاکٹرس قانونی نوٹس بھیجتے ہیں تو یہ ملک کے لئے انتہائی شرم کی بات ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ رام دیو کا جھکاؤ حکمراں جماعت بی جے پی کی جانب ہے، وہ اس پارٹی کی اور اس کی حکومتوں کی کوئی تنقید نہیں سن سکتے۔ سال 2014 کے عام انتخابات سے قبل رام دیو نے ایک ٹی وی چینل پر اس وقت کی منموہن سنگھ کی قیادت والی حکومت کے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کو لے کرحکومت مخالف بیانات دیئے تھے اور اب جب پٹرول کی قیمتیں اب تک کی سب سے زیادہ ہیں، وہ بھی اس وقت جب عالمی منڈی میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں پہلے کے مقابلے بہت کم ہیں وہ حکومت کی تنقید کے بجائے دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔
رام دیو کا صرف پٹرول کی قیمتوں کو لے کر ہی موقف ایسا نہیں ہے جو ذی شعور لوگوں کو پریشان کرتا ہے بلکہ ان کی ایسی کئی حرکات ہیں جن کو لے کر ذی شعور ہندوستانی پریشان ہیں۔ رام لیلا میدان سے جاتے ہوئے جس بہادری کا انہوں نے مظاہرہ کیا تھا کہ رات کے اندھیرے میں خواتین کے کپڑے پہن کر چھپ کر نکل رہے تھے اس پر بھی ان کی کافی تنقید کی جا چکی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے جینس کے خلاف خوب بیان دیئے تھے اور بعد میں خود جینس بیچنا شروع کر دی تھیں۔
وبا کے اس دور میں ان کے بیانات نے جو انڈین میڈیکل ایسو سی ایسن اور ایمس کے ڈاکٹرس کو ان کے خلاف قانونی نوٹس جاری کرنے اور مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن سے ان کے خلاف سخت کارروائی کے مطالبہ کے لئے مجبور کیا ہے وہ انتہائی سنجیدہ ہے۔ ایک ایسا شخص جس کی کوئی تعلیمی لیاقت نہ ہو اور حکمراں جماعت کی قربت کے علاوہ جس کے پاس کوئی قابل ذکر چیز نہ ہو، اس کو سائنس اور ایلوپیتھی جیسے عالمی طور پر مستند طبی طریقہ کار پر سوال اٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ سائنس کو’ اسٹوپڈ ‘ یا بے وقوفی سے تعبیر کرنا ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ گزشتہ سال رام دیو نے کورونا کے علاج کے لئے دوا ایجاد کرنے کا دعوی کیا تھا اور اس کے لئے پریس کانفرنس بھی کی تھی جس کو بعد ان کی ہر سطح پر بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور رام دیو نے اپنے بیان میں اس کی تعریف ہی بدل دی تھی۔ وزیر صحت جو خود ایک تعلیم یافتہ ایلوپیتھی کے ڈاکٹر ہیں انہوں نے اگر وقت رہتے رام دیو جیسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کر دی ہوتی تو طبی برادری کو یہ قدم نہیں اٹھانا پڑتا۔
یہ بھی پڑھیں : آخر اسرائیل چاہتا کیا ہے؟... سید خرم رضا
رام دیو یا کسی بھی بی جے پی کے رکن نے ان بیانات کی تنقید نہیں کی، جس میں کہا گیا ہے کہ گائے کا پیشاب پینے سے کورونا نہیں ہوتا، گوبر کا لیپ لگانے سے کورونا سے محفوظ رہا جا سکتا۔ دراصل سائنس کے اس دور میں ان تمام غیر سائنسی اقدام کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے، تاکہ ملک میں سائنسی سوچ کو فروغ ملے اور ملک میں ترقی ہوسکے۔ مذہبی بیانات پر خاموشی اختیار کرنے سے ایسے اقدام اور بیانات کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جو بے انتہا نقصاندہ ہے۔ وقت آگیا ہے جب ملک میں سائنسی سوچ کو بڑھاوا دینا چاہیے اور رام دیو جیسے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔