لاک ڈاؤن میں شراب فروخت کر حکومتیں کمائی تو کر لیں گی، لیکن گھریلو تشدد کا کیا؟
لاک ڈاؤن کے درمیان کمائی بڑھانے کے لیے شراب فروخت کرنے کا فیصلہ تو لے لیا گیا، لیکن ان باتوں کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ شراب نوشی ڈپریشن جیسے نفسیاتی مسائل اور گھریلو تشدد کی وجہ بنتی ہے۔
بہت دیر سے شراب کی عادی لابی زور لگا رہی تھی کہ لاک ڈاؤن میں کسی طرح شراب فروخت کرنے کی چھوٹ مل جائے اور آخر کار حکومت نے ان کی سن لی۔ لیکن یہ فیصلہ لیتے وقت حکومت نے یہ نہیں سوچا کہ لاک ڈاؤن میں پہلے سے ہی نفسیاتی مسائل اور گھریلو تشدد بڑھے ہوئے ہیں اور اب شراب نوشی کی وجہ سے حالات کافی بگڑ سکتے ہیں۔ دھیان رہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران ملک کے متعدد حصوں سے اس طرح کی خبریں ملی ہیں کہ معاشی مسائل، بھوک اور بے روزگاری بڑھ جانے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے بارے میں فکر کرنے سے لوگ ذہنی طور پر بیمار ہو گئے ہیں۔ خاص طور سے ڈپریشن کی حالت بہت زیادہ نظر آ رہی ہے۔ شراب کی دستیابی سے یہ حالات مزید تیزی سے بگڑ سکتے ہیں۔
واضح رہے ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیدا ڈپریشن شراب نوشی کی وجہ سے مزید سنگین حالت اختیار کر سکتی ہے اور اس بارے میں بہت محتاط رہنا ہوگا۔ ایک احتیاط یہ کی جانی چاہیے کہ کسی بھی ہتھیار یا جراثیم کش جیسی زہریلی چیز کو نشہ کرنے والے سے دور رکھا جائے۔ ریسرچ بتاتی ہے کہ اگر شراب نہ پیے ہوئے شخص سے موازنہ کریں تو شراب پینے کے بعد کسی شخص میں خودکشی کا خطرہ 7 گنا بڑھ جاتا ہے۔ زیادہ مقدار میں شراب پینے کے بعد تو یہ خطرہ 37 گنا تک بڑھ جاتا ہے۔
کچھ سال قبل عالمی ادارہ صحت نے ایک رپورٹ تیار کروائی تھی جسے تشدد اور صحت پر عالمی رپورٹ کا عنوان دیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈپریشن کے لیے بھی الکحل ایک اہم وجہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق الکحل اور نشیلی دواؤں کے غلط استعمال کا خودکشی میں بھی ایک اہم کردار ہے۔ متحدہ ریاست ہائے امریکہ میں 4 میں سے کم از کم ایک خودکشی میں الکحل کا کردار محسوس کیا گیا ہے۔
اگر لگاتار شراب نوشی کرنے والے شخص کے مقابلے شراب نہ پینے والے شخص کی بات کی جائے تو کچھ ریسرچ نے کہا ہے کہ پہلی طرح کے شخص میں خودکشی کرنے کا امکان 60 سے 120 گنا زیادہ پایا جاتا ہے۔ روس کے ایک سروے میں رسودواجی نے بتایا ہے کہ جہاں ووڈکا کی فروخت پر روک لگائی گئی وہاں خودکشی کے عمل میں بھی کمی آئی۔
یہ بھی پڑھیں : حرم مکی: غلاف کعبہ کی دیکھ بھال اور مرمت کا کام مکمل
اس کے علاوہ لاک ڈاؤن کے اثر کے بارے میں کئی مقامات سے یہ خبریں بھی آئی ہیں کہ اس دور میں گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ شراب کی دستیابی کی وجہ سے یہ مسئلہ بھی پہلے سے زیادہ بگڑ سکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ نے گھریلو تشدد پر کئی ریسرچ کو بنیاد بنا کر بتایا ہے کہ جو خواتین زیادہ شراب پینے والوں کے ساتھ رہتی ہیں ان کے تئیں شوہر یا پارٹنر کے تشدد کا امکان کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق ان تحقیقوں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شراب پینے والے یا پی رہے شخص تشدد کرتے ہیں تو ان کے ذریعہ کیے گئے تشدد زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ اس رپورٹ میں کناڈا کے ایک سروے کے بارے میں بتایا گیا ہے جس سے پتہ چلا ہے کہ اگر شراب نہ پینے والوں کے ساتھ رہنے والی خواتین کے مقابلے زیادہ شراب پینے والوں کے ساتھ رہنے والی خواتین کی بات کی جائے تو دوسرے درجہ والی خواتین پر شوہر یا پارٹنر کے حملے یا تشدد کا امکان پانچ گنا بڑھ جاتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح دیگر پیغامات لوگوں تک پہنچائے گئے ہیں، ویسے ہی شراب مخالف پیغام، شراب سے ہونے والی بہت وسیع نقصان کی جانکاری دینے والے پیغام اس دوران لوگوں تک پہنچائے جاتے اور انھیں ہمیشہ کے لیے شراب چھوڑ دینے کے لیے تیار کیا جاتا۔ لیکن حکومت نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی۔ ویسے عام صورت حال میں بھی حکومت نے انسداد نشہ کے تعلق سے بہت کمزور کوششیں کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حال کے سالوں میں شراب کی فروخت میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔