نئے سال پر خاص: وبا سے زیادہ مہلک یہ ذہنیت ہے
کورونا وبا کے ابتدا میں ہی ہم نے جس طرح ملک کے ایک خاص مذہبی فرقہ کو اس وبا کے پھیلانے کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا اور اس کو نشانہ بنایا وہ ذہنیت وبا سے بھی زیادہ مہلک ہے۔
سال 2020 کے تعلق سے بہت کچھ کہا اور لکھا جا سکتا ہے۔ ایک طرح سے پورا سال ہی وبا کی نظر ہوگیا، کاروباری شعبہ کو کتنا نقصان ہوا یا دنیا اور قومی معیشت کا کیا حال ہوا، اس پر لمبا چوڑا مضمون لکھا جا سکتا ہے اور لکھے جا چکے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وبا کی وجہ سے جن لوگوں کی نوکری گئی، کام کرنے کی جگہ چھوٹی، خوف میں پیدل ہی گھر واپسی کرنی پڑی یا جو لوگ اس وبا کا شکار ہوئے، ان میں سے بہت سے مریضوں کی جان بھی گئی، ان سب کے لئے یہ سال بہت ہی خوفناک اور تکلیف دہ رہا۔
لوگ خوف کے بیچ اپنی زندگی جینے کے طریقوں میں انقلابی تبدیلیاں لائے اور وہ سب کچھ کیا جس کو کرنے کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ مردوں نے لاک ڈاؤن کے دوران کھانا بنانے سے لے کر گھر کے ہر طرح کے کام کیے۔ جس نے جو بتا دیا یا سوشل میڈیا کے ذریعہ جو پیغام آ گیا اس پر انہوں نے مذہبی انداز میں عمل کیا۔ ہر فرد کو کاڑھے اور گھریلوں نسخوں کے استعمال کرنے کی عادت پڑ گئی۔ بچوں نے تعلیم آن لائن حاصل کرنا شروع کر دی۔
1918 میں جب اسپینش فلو نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اس کے بعد پہلی مرتبہ ایسی وبا دیکھنے کو ملی جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کچھ نے اس کو سرمایہ داروں اور طبی کمپنیوں کی ایک سازش قرار دیا تو کچھ نے انسانوں کے اعمال کی سزا قرار دیا، کچھ نے قدرت کے ساتھ زیادتی کی وجہ بتائی اور کچھ نے اس کا ٹھیکرا کھانے کے طور طریقوں پر پھوڑ دیا۔ جس کو جس پر یقین کرنے میں سکون ملا، اس نے اس پر یقین بھی کیا اور اپنی بات کو سوشل میڈیا کے ذریعہ دوسروں تک پہنچانے کی کوشش بھی کی۔ وجہ کچھ بھی رہی ہو لیکن انسان کی زندگی میں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی اور جس چیز کا ہم دس سال بعد آنے کا تصور کر رہے تھے وہ اس وبا کی وجہ سے انسانی زندگی کا حصہ ایک ہی سال میں بن گئی۔
اس وبا کے دوران بہت سی نئی چیزیں سامنے آئیں اور بہت سے نئے مسائل اور ان کے حل سے اس وبا نے متعارف کرایا۔ اس پر بھی شائد بحث کرنے سے کوئی فائدہ نہیں کہ ہندوستان میں حکومت نے غریبوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور ان کو مجبوری میں میلوں پیدل چل کر گھر واپسی کرنی پڑی، یا کووڈ کی ویکسین کو دریافت کرنے میں بھی ہمیں دوسرے ممالک کی جانب منہ اٹھا کر دیکھنا پڑا، ہم سے تھالی اور تالی بجوانے کے بجائے اگر کچھ ٹھوس احتیاطی اقدامات کے بارے میں بتایا جاتا تو بہتر ہوتا۔ بہرحال اب اس وبا سے متاثر ہونے والے مریضوں کی تعداد فی الحال کم نظر آ رہی ہے جس سے یہ بھی بات مسترد ہو گئی جس کو شروع میں کہا گیا تھا کہ یہ وائرس گرمی کی حرارت میں اپنی موت مر جائے گا، لیکن اس کی تعداد گرمیوں میں نہیں سردیوں میں کم ہوئی ہے۔ اب ان چیزوں پر بات کرنا فضول ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ اس سال کچھ بھی ہوا ہو، لیکن ہم نہیں بدلے اور اس وبا نے ہماری گندی ذہنیت کو ایک بار پھر پوری دنیا کے سامنے پیش کیا۔ وبا کے ابتدا میں ہی ہم نے جس طرح ملک کے ایک خاص مذہبی فرقہ کو اس وبا کے پھیلانے کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا اور اس کو نشانہ بنایا وہ ذہنیت وبا سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ اس کے بعد جو ذہنیت سامنے آئی کہ ایک خاص طبقہ کے غریب سبزی فروشوں سے نہ صرف سبزی خریدنا بند کر دیا بلکہ ان سبزی والوں کو بے انتہا ذلیل کیا گیا۔ بات یہیں پر نہیں رکی بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعہ تشہیر کی گئی کہ اس مخصوص فرقہ کے لوگ کورونا پھیلانے کے لئے پانچ سو روپے کے نوٹ گھروں کے باہر ڈال رہے ہیں تاکہ جو شخص بھی اس نوٹ کو اٹھائے اس کو کورونا ہو جائے۔ اس ذہنیت نے وبا سے زیادہ لوگوں کو تکلیف پہنچائی۔
ایسا صاف لگتا ہے کہ اس نفرت کو پھیلانے کے لئے ایک سازش رچی گئی جس میں ہمارے ذرائع ابلاغ نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور ایک خاص طبقہ یا جماعت کو اس کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا گیا لیکن جھوٹ کی زندگی بہت چھوٹی ہوتی ہے۔ اگر 21ویں صدی میں بھی ہم اسی ذہن سے کام لیتے رہے تو پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم ترقی کے راستہ پر نہیں بلکہ پستی کے راستہ کی جانب گامزن ہیں۔ سرمایہ داروں اور طبی کمپنیوں کی سازش ہو، اعمال کی سزا ہو، قدرت کے ساتھ زیادتی ہو یا کھانے کے طور طریقوں کو وجہ کہا جائے، لیکن ان پر پھر بھی بات ہو سکتی ہے لیکن اس عالمی وبا کو بھی اگر فرقہ وارانہ رنگ سے دیکھا گیا تو اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ وبا اتنی مہلک نہیں ہے جتنی کی یہ ذہنیت۔ یہ ذہنیت افراد کو نہیں بلکہ قوموں اور تہذیبوں کو ختم کر دے گی۔ سال آئیں جائیں، وبائیں آئے یا جائے لیکن اس ذہنیت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوجانا چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔