کورونا دور میں محرم اور مسلمانوں کی ذمہ داری... نواب علی اختر

آر ایس ایس جیسی بھگوا تنظیموں نے ’فیک لٹریچر‘ اور ’فرضی تاریخ‘ کے بل بوتے ہندوؤں کو اپنے دام فریب میں الجھایا ہوا ہے۔ حکومت میں ان کے تربیت یافتہ لوگ موجود ہیں، اس لئے مشکلات کا سامنا یقینی امر ہے۔

تصویر نواب علی اختر
تصویر نواب علی اختر
user

نواب علی اختر

کورونا کے اس وبائی عہد میں عزاداری سید الشہداؑ ہر ممکنہ طریقے سے منائی جا رہی ہے۔ ایسے ماحول میں عزاداروں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ محدود وسائل کے ساتھ بھی اسی تزک و احتشام کے ساتھ عزائے امام حسینؑ منا سکتے ہیں، جیسے عام حالات میں منائی جاتی تھی۔ ظاہر ہے امام بارگاہوں میں ہرسال کی طرح عزاداروں کی بھیڑ نہیں ہے، جلوس ہائے عزا پر پابندی عائد ہے، سبیلوں اور تبرک کا اہتمام نہیں ہے مگر اس وبائی عہد میں عوامی پلیٹ فارم کا جتنا اچھا اور موثر استعمال دیکھا گیا ہے اس سے استعماری طاقتیں اور ہمارے ملک کی یرقانی تنظیمیں بھی انگشت بدنداں ہیں۔ سوشل میڈیا سے لے کر دیگر ذرائع ابلاغ پر محافظ انسانیت امام حسینؑ کا غم محیط ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ عزاداری نہ کبھی رکی تھی اور نہ کبھی رک سکتی ہے!

دشمن عزا کو معلوم ہونا چاہیے کہ عزائے امام حسینؑ ایک دائمی و دوامی عمل ہے جسے اجتماعات، جلسات اور رقومات کی حاجت نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ نہ جانے کتنے ایسے زمانے گزر چکے ہیں کہ جب عزائے امام حسینؑ پر پوری طرح پابندی عائد کرنے کی کوشش کی گئی اور منصوبہ سازی ہوئی کہ عزاداری سید الشہداؑ کو دنیا سے ختم کردیا جائے، مگر آج ان منصوبہ سازوں کا اتا پتہ نہیں ہے، مگر عزائے امام حسینؑ اسی شان و شوکت کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ بلکہ امتداد زمانہ کے ساتھ اس کی شان و عظمت میں مزید اضافہ ہی ہوا ہے۔ آج بھی عزاداری کے دشمنوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ عبادت تو اس وقت بھی نہیں رکی جب زیارت امام حسینؑ کے عوض ماؤں سے ان کی گودیوں کے پالوں کو طلب کیا گیا۔ ماوں نے اپنے بچوں کی قربانیاں دے کر عزائے امام حسینؑ کی حفاظت کی اور ظالموں کو یہ واضح پیغام دیا کہ عزاداران امام حسینؑ کے لئے اس غم کی یادگار منانے سے زیادہ کوئی دوسری چیز اہمیت نہیں رکھتی ہے۔


کورونا کے اس وبائی عہد میں ہم حکومت کی طرف سے جاری گائیڈ لائن کے پابند ہیں اور اسی کے مطابق عزاداری کے تمام اعمال انجام پا رہے ہیں۔ ملک کا قانون ہمارے لئے محترم ہے اور مراجع کرام کا بھی یہی حکم ہے کہ اپنے ملک کے قانون کی پاسداری ہم پر فرض ہے، لیکن اگرکوئی سفاک، ظالم، جابر، دشمن امام حسینؑ یہ سمجھتا ہے کہ اس کی عائد کردہ ناروا پابندیوں کی بنیاد پر عزائے سید الشہدا کا عمل ماند پڑجائے گا تو اسے بھیانک مغالطہ ہے۔ غم حسینؑ نہ کبھی ماند پڑا ہے اور نہ پڑے گا۔ ظالم حکومتیں مٹ گئیں، سفاک بادشاہوں کے تختے پلٹ گئے، وسیع و عریض سلطنتیں تاریخ کے صفحات میں گم ہوگئیں، مگر غم کربلا کا آفتاب آج بھی اسی طرح تابندہ ہے۔ دشمنان حسینؑ کو اپنا ذہنی علاج کروانا چاہیے اور اس کے بعد تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ اسے عزاداری کی اہمیت اور عزاداروں کی قربانیوں کا صحیح علم ہوسکے۔ امام حسینؑ اور ان کے جانثاروں کی عظمت واہمیت کیا ہے؟ اس سے متعلق مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بابائے قوم مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہرلال نہرو کے خیالات کا مطالعہ کیا جانا چاہیے۔

ہمارا فریضہ اس وبائی عہد میں مزید بڑھ جاتا ہے، ہمیں چونکہ جلسے اور جلوسوں کی اجازت نہیں ہے، مگر مقصد امام حسینؑ اور فلسفہ شہادت کو عام کرنے کے لئے لامحدود وسائل موجود ہیں۔ ہمیں اس وقت سوشل میڈیا کو بہترین انداز میں استعمال کرنا چاہیے اور عزاداران امام حسینؑ اس پلیٹ فارم کا اچھا استعمال کر رہے ہیں۔ آن لائن مجالس اور نوحہ خوانی کے ذریعہ گھروں میں قید عزاداروں کے لئے رزق غم حسینؑ کی فراہمی ایک عظیم عمل ہے۔ جن لوگوں کو یہ توفیق حاصل ہو رہی ہے کہ وہ اس وبائی عہد میں بھی گھروں میں مقید افراد کے لئے مجالس اور نوحہ خوانی کا اہتمام کر رہے ہیں، اس عہد میں سوشل میڈیا پر مقصد شہادت امام حسینؑ کو زیادہ سے زیادہ موثر انداز میں فروغ دیا جائے۔ کربلا کے واقعہ کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے تاکہ دوسری قومیں بھی کربلا اور اس کے پیغام سے آشنائی حاصل کرسکیں۔


آج ہندوستان میں اسلام اور اس کے محافظین کے خلاف منصوبہ بند طریقے سے سازشیں کی جا رہی ہیں۔ ان کی مثبت باتوں کو منفی بنا کر پیش کیا جارہا ہے تاکہ انسانیت اور بھائی چارے کی تشہیر کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینے والے بانیان اسلام کے خلاف تنگ نظر افراد کو بدظن کیا جاسکے۔ ایسے انتہا پسندوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ حق خود بولتا ہے اسے پبلسٹی کی ضرورت نہیں ہوتی، موجودہ وقت میں آرایس ایس جیسی متشدد بھگوا تنظیموں نے ’فیک لٹریچر‘ اور ’فرضی تاریخ‘ کے بل بوتے ہندووں کو اپنے دام فریب میں الجھایا ہوا ہے۔ پولیس انتظامیہ سے لے کر ہر سرکاری شعبے میں ان کے تربیت یافتہ افراد براجمان ہیں، اس لئے مشکلات کا سامنا یقینی امر ہے، البتہ ہم انہی کی طرز پر اسلام اور عزائے امام حسینؑ سے متعلق ’حقیقی لٹریچر‘ اور ’سچی تاریخ‘ سے انہیں باخبر کرنے کی تگ و دو کریں تاکہ ان کے ذہنوں پر پڑے ہوئے جہالت، لاعلمی اور اندھ بھکتی کے جالوں کو صاف کیا جا سکے۔

چونکہ ہر انسان کے سوچنے اور کام کرنے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے لہٰذا وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس وبائی عہد میں مقصد کربلا کو فروغ دینے کی دیگر اہم راہیں تلاش کرنے کے لئے آزاد ہیں۔ بس ہمیں ہر وقت یہ دھیان میں رکھنا ہوگا کہ اس دنیا میں کسی کے سامنے جواب دہ ہوں یا نہ ہوں مگر بارگاہ الہی میں جواب دہ ضرور ہوں گے۔ ہمیں دنیا و آخرت میں سرخرو ہونے کے لئے خالص نیت کے ساتھ اللہ کی خوشنودی اور اہلبیت رسولؐ کی رضا کے حصول کے لئے کام کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی اس مہلک وبا کے خاتمے کے لئے دعا ضرور کریں تا کہ آئندہ سال اسی تزک و احتشام کے ساتھ غم امام حسینؑ منایا جا سکے جس کے لئے ہمارا ہندوستان پوری دنیا میں اپنی الگ شہرت رکھتا ہے۔ اس دوران کچھ نئے شیطان بھی جنم لے سکتے ہیں مگر ان سے خائف ہونے اور بزور طاقت مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اپنا کردار اگر اسلامی اصولوں کے مطابق پیش کریں گے تو یہ شیاطین از خود مرجائیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


    Published: 27 Aug 2020, 8:56 PM