حکومت کی پشت پناہی میں پروان چڑھتی درباری صحافت اور کمزور ہوتا جمہوریت کا چوتھا ستون... نواب علی اختر
ہندوستانی میڈیا نے ہمیشہ ملک کی یکجہتی، مذہبی رواداری اور ہندو-مسلم کے درمیان اتحاد کو فروغ دینے کا کام کیا ہے لیکن حالیہ برسوں میں ایسا لگ رہا ہے جیسے منافرت پھیلا نے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
ہندوستان میں 2014 کے بعد سے شروع ہوئی ’درباری صحافت‘ نے جمہوریت کے چوتھے ستون کو جس قدر کمزور کیا ہے، موجودہ حالات میں شاید ہی اس کی تلافی ہوسکے۔ اس سے قبل ایک وقت ایسا بھی رہا ہے جب میڈیا کوعوام اپنا ترجمان مانتے تھے اور مکمل دستاویز سمجھ کر اس پر یقین کرتے تھے، لیکن گزشتہ چند سالوں میں اس میڈیا نے جو رویہ اختیار کیا ہے اس سے عوام کا بھروسہ اٹھ گیا ہے۔ وہی لوگ جو میڈیا کی بات کو من وعن قبول کرتے تھے، وہی اب کہتے نظر آرہے ہیں کہ ’میڈیا جھوٹ بولتا ہے‘۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ عام لوگوں کی آواز کو ایوان اقتدار تک پہنچانے والا میڈیا اب متعصب حکمرانوں کی زور زبردستی عوام پر تھوپنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ ’درباری صحافت‘ حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔
ملک کے ٹی وی چینلوں کو ان کے ناقدین کی جانب سے اکثر اس الزام کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ جانبدارانہ صحافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھل کر ہندوتوا اور حکمراں پارٹی کی حمایت کرتے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں میں اس تنقید میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ آندھر اپردیش کے ایک بڑے مندر کے عملے میں کورونا وائرس کی وبا کا پھیلاو کافی تیزی سے دیکھنے میں آیا لیکن اس اضافے کے بارے میں ہماری ’درباری صحافت‘ نے اس طرح سے خبریں نشر نہیں کیں جیسا اس نے مارچ اور اپریل میں تبلیغی جماعت کے بارے میں کی تھی۔ خبروں میں اس نوعیت کے متعصبانہ رویئے کی مزید شناخت اس وقت ہوئی جب ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کا افتتاح کیا گیا۔
غیرجانبدارمیڈیا نے ایودھیا میں ہونے والی تقریب کی شاندار کوریج دکھائی اور اس بات پر زور دیا کہ ہمیں بڑے مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔ ناقدین کے مطابق اب میڈیا صرف بی جے پی کے لیے پبلک ریلیشنز کا کام کر رہا ہے اور اسے ایسا پیش کر رہا ہے کہ ’وہی ہیں صرف ہندوستان کی رکھوالی کرنے والے‘۔ ایسے حالات میں یہی کہا جائے گا کہ ہندوستان میں جمہوریت کا چوتھا ستون خطرے میں ہے کیونکہ صحافت کے نام پر یہاں صرف کاروبار چل رہا ہے۔ ابھی چند روز کی بات ہے جب آندھرا پردیش کے معروف وینکٹ ایسوارا مندر میں کام کرنے والے کم از کم 743 افراد میں کووڈ- 19 کی شناخت ہوئی ہے جبکہ ان میں سے تین ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس بارے میں خبریں گزشتہ تین ہفتوں سے چل رہی تھیں اور مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ بڑھتے ہوئے متاثرین کے پیش نظر اس مندر کو بند کیا جائے۔ مندر کے حکام نے کہا کہ وہ حفاظتی اقدامات اٹھائیں گے لیکن انھوں نے مندر کو بند کرنے سے انکار کردیا۔ خیال رہے کہ آندھرا پردیش ان ریاستوں میں شامل ہے جہاں کووڈ 19 کا مرض سب سے تیزی سے پھیل رہا ہے مگر میڈیا کی جانب سے مندر میں وبا کے پھیلاو کے بارے میں خبریں نشر کرنے میں وہ اہمیت نہیں دیکھنے میں آئی جو ماضی میں تھی۔ تاہم مارچ میں میڈیا کا رویہ کچھ اور تھا جب نئی دہلی کے نظام الدین واقع تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کرنے والے کئی افراد میں کووڈ 19 کی شناخت ہوئی۔ اس موقع پر میڈیا میں چلنے والی خبروں پر تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ جعلی خبریں اور سازشی خیالات پر مبنی خبریں چلانے سے مذہبی تعصب کو جلا بخشی گئی۔
آج کے میڈیا بالخصوص ٹی وی چینلوں پر مسلمانوں کے خلاف مسلسل متعصبانہ رویہ اختیار کیا گیا۔ ہندی زبان میں چلنے والے چینلوں پر تو نہایت اشتعال انگیز زبان استعمال کی گئی تھی۔ ہندی زبان کے ایک چینل کے سربراہ تو یہاں تک کہتے نظرآئے کہ ہمیں کورونا جہاد کا بہت خیال رکھنا ہوگا اور ان جہادیوں کے خلاف مقدمہ چلایا جائے۔ مین اسٹریم میڈیا کے بڑے ٹی وی چینل بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں تھے۔ ایک چینل کے اینکر نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس ’ناقبل تردید شواہد‘ ہیں کہ تبلیغی جماعت کے اجتماع میں یہ سازش کی گئی تھی کہ ہندوستان میں یہ مرض پھیلایا جائے اور اس کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔ کچھ افراد نے تبلیغی جماعت کے افراد کی حب الوطنی پر بھی سوال اٹھائے اور الزام لگایا کہ انھوں نے قوم سے جھوٹ بولا اور دھوکہ دیا۔
لیکن مندر میں متاثرین اور ان سے وبا کے پھیلاو کے بارے میں ایسا کچھ نہیں کیا گیا اور نہ ہی میڈیا میں اس بارے میں زیادہ ذکر ہوا ہے۔ یہ کہناغلط نہیں ہوگا کہ ملک کے ٹی وی چینلوں پر فرقہ پرستوں کا پرچار بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کا ثبوت ایودھیا کے رام مندر کے افتتاح کی تقریب کو بڑے پیمانے پر نشر کیا جانا ہے۔ حکمراں بی جے پی کے حمایتیوں نے اس کا بہت جشن منایا اور ٹی وی چینل بھی ان کے ساتھ تھے۔ کچھ چینلوں نے اسے ’تاریخ ساز دن‘ قرار دیا جب کہ ناقدین کہتے ہیں کہ اس مندر کی تعمیر ہندوستان کی سیکولر بنیادوں کو کھوکلا کر دے گی۔ ماہرین نے خبردارکیا تھا کہ اتنے بڑے مجمع کو وہاں جمع نہیں ہونا چاہیے لیکن ٹی وی پر میڈیا نے اس خدشہ کو کہیں بھی اجاگر نہیں کیا۔ اس تقریب میں شرکت کرنے والے کئی لوگوں میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی یہاں ایک کووڈ متاثرہ شخص سے وزیر اعظم نریندر مودی نے ہاتھ بھی ملایا تھا۔
ہندوستان کے میڈیا نے ہمیشہ ملک کی یکجہتی، سماجی آہنگی، بھائی چارہ، مذہبی رواداری اور ہندو مسلم کے درمیان اتحاد اور بھائی چارہ کو فروغ دینے کا کام کیا ہے لیکن حالیہ برسوں میں ایسا لگ رہا ہے جیسے منافرت پھیلانے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ میڈیا کا ایک بڑا طبقہ ہر واقعہ کو مذہبی رنگ دینے، ہندو مسلم اتحاد کو تار تار کرنے، مسلمانوں کو بدنام کرنے کی دانستہ کوشش کرتا رہتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عالمی سطح پرہندوستان کے میڈیا کی تنقید کی گئی حتیٰ کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کی طرف سے کئی بار ایسے میڈیا کو پھٹکار لگائی گئی ہے، اس کے باوجود حکومت خاموش تماشائی بن کر ان کی پشت پناہی کرتی رہی۔ صحافتی اصولوں کو تار تار کرتے ہوئے ملک کے اقلیتوں کی دل آزاری اور قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی سازش کرنے والے بے لگام اور غیر ذمہ دار میڈیا پر شکنجہ نہیں کسا گیا تو یہ ملک کے لیے تباہ کن ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 23 Aug 2020, 6:07 PM