جنگ آزادی کا سرخیل مولوی لیاقت علی، برسی کے موقع پر خصوصی پیشکش... شاہد صدیقی علیگ

7 جون کو مرد مجاہد مولوی لیاقت علی بن مہر علی ساکن مہنگاؤں پرگنہ چائل نے انقلاب کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لی اور خسرو باغ کو اپنا مستقر بنایا۔

مولوی لیاقت علی خان
مولوی لیاقت علی خان
user

شاہد صدیقی علیگ

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وطن عزیز کی آزادی کے متوالوں اور جاں نثار کرنے والوں میں علمائے کرام کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ اگر برطانوی نو آبادیاتی حکام کو سب سے زیادہ کسی سے خوف تھا تو وہ علمائے کرام ہی تھے جو آزادی کی خاطر پھانسی کے پھندے پر چڑھ گئے، لیکن جابر حکومت کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ ایسی ہی ایک عالم دین مولوی لیاقت علی کی بھی ہے، جنہوں نے محدود وسائل کے باوجود الٰہ آباد سے انگریزی عمل داری کو سوکھے پتوں کی مانند آن ہی آن میں اڑا دیا تھا۔

مولوی لیاقت علی 5 اکتوبر 1817 کو موضع مہنگاؤں پرگنہ چائل کے ساکن سید مہر علی کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ کا نام آمنہ بی تھا۔ مروجہ دستور کے مطابق دینی تعلیم حاصل کی۔ برطانوی سامراج کے جبر واستبداد کے خلاف نفرت و رقابت بچپن سے ہی نس نس میں بھرگئی تھی۔ وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد کمپنی فوج میں شامل ہوگئے اور دیسی سپاہیوں کی ذہن سازی کرنے لگے۔ ان کی حکومت مخالف سرگرمیوں کو بھانپ کر انگریز حکام نے مولوی لیاقت علی کو فوج سے برطرف کر دیا۔


اسی اثنا، میرٹھ میں قبل از وقت رونما ہونے والی سرکشی کی اطلاعات نے الٰہ آباد میں نفسانفسی اور بے چینی کی فضا قائم کر دی تھی۔ پورا مئی فرنگیوں کے لیے موت و حیات کی کشمکش میں گزرا۔ انگریز الٰہ آباد قلعہ کو محفوظ مقام مان کر پناہ گزین ہونے شروع ہوگئے اور اس کی فصیلوں پر توپیں نصب کر دیں۔اسی بیچ موضع صمدآباد میں سیف اللہ خاں میواتی کے گھر 5 جون 1857 کو ایک خفیہ میٹنگ ہوئی۔ جس میں انقلاب میں حصہ لینے کا فیصلہ لیا گیا، لیکن اگلے ہی روز 6 جون کو دیسی سپاہیوں نے چھٹویں رجمنٹ کے سردار رام چندر کی رہمنائی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف یلغار کر دی۔ جن کے ساتھ خواص و عوام نے مل کر انتظامیہ کی عمارتوں، بنگلوں اور سرکاری خزنے کے 30 لاکھ روپے لوٹ کر آگ لگا دی، اسلحہ خانے پر قبضہ کر لیا، جیل توڑ کر تین ہزار قیدیوں کو رہا کر دیا۔ دارا گنج میں ناؤ کے پل سمیت فوجی اہمیت کے حامل تمام اہم مقامات پر انقلابی مسلط ہوگئے۔

7 جون کو مرد مجاہد مولوی لیاقت علی بن مہر علی ساکن مہنگاؤں پرگنہ چائل نے انقلاب کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لی اور خسرو باغ کو اپنا مستقر بنایا۔ جو سیف وقلم کے دھنی تھے۔ بہادر شاہ ظفر نے ان کی صلاحتیوں کو دیکھ کر انہیں ضلع کا گورنر بنا دیا۔ مولوی لیاقت علی نے میدان جنگ میں جنگی پالیسی کے لازوال نقوش چھوڑے۔ انہوں نے قلعہ میں موجود دیسی سپاہیوں سے انقلابیوں کا تعاون کرنے کی التجا کی لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔


سندر لعل لکھتے ہیں کہ ’’اگر قلعہ کے سِکھ اُس وقت مجاہدوں کا ساتھ دے دیتے تو آدھے گھنٹے کے اندر الٰہ آباد کا قلعہ اور اُس کے اندر کا تمام سامان مجاہدوں کے ہاتھوں میں آجاتا، لیکن ٹھیک اُس نازک وقت میں سکھوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا۔ انگریزی جھنڈا الٰہ ٰآباد کے قلعہ پر لہراتا رہا‘‘۔

سردار شیر خاں کی قیادت میں سینکڑوں میواتی لیاقت علی کے لشکر میں شامل ہوگئے۔ مولوی لیاقت علی کو الٰہ آباد کے زمینداروں اور سرکردہ شخصیات کا تعاون حاصل تھا۔ انہوں نے دو اشتہار بھی شائع کیے جو اودھ، الٰہ آباد اور دوسرے مقامات پر بھیجے گئے۔ الٰہ آباد دوآبہ کا خاص مقام تھا اگر یہ انگریزوں کے ہاتھ سے نکل جاتا تو شمالی ہند میں دوبارہ ان کی بالادستی قائم ہونی ناممکن ہو جاتی۔ چنانچہ وائسرائے لارڈ کنینگ نے جلد از جلد شہر کو انقلابیوں سے خالی کرانے کے لیے کرنل گارداں کو مامور کیا۔ 11 جون کو بدنام زمانہ بے رحم کرنل نیل الٰہ آباد پہنچا اور پہنچتے ہی انقلابیوں سے بھڑ گیا۔


انگریزی فوج سے 12 جون کو گھماسان رن کے بعد دارا گنج حریت پسندوں کے ہاتھوں سے نکل گیا۔14؍جون کو انگریزی فوج لیاقت علی پر حملہ آور ہوئی مگر اسے منھ کی کھانی پڑی اور انہیں قلعہ بند ہونا پڑا، اس فتح نے ہند کے سورماؤں کو نئی توانائی بخشی۔ لیکن صد افسوس راجہ مانڈا، راجہ بتیا اور راجہ بارہ وغیرہ نے کمپنی کا پورا ساتھ دیا۔ علاوہ ازیں جہاں چند وطن فروشوں کے طفیل سے انگریزوں کو برابر کمک پہنچ رہی تھی۔ وہیں مجاہدین کی تعداد ہتھیاروں کے ساتھ گھٹتی جا رہی تھی، لیکن وہ قدم کھینچنے کو تیار نہیں تھے۔

نیل نے 16 جون کو الٰہ آباد اور اس کے قرب وجوار پر اپنی کاروائیاں تیز کر دیں۔ مولوی لیاقت علی نے نیل کے جور و ظلم کی تفصیل سے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو روبرو کرایا۔ لیاقت علی نے ازسر نو اپنی صفوں کو درست کرکے خم ٹھونکا، لیکن تازہ دم اور جدید ہتھیاروں سے لیس برطانوی فوج کو زیر نہ کرسکے۔ موقع ومحل کی مناسبت سے لیاقت علی نے الٰہ آباد کو خیرباد کہہ دیا۔


وہ 18جون کو 300 انقلابیوں کے ساتھ انگریزی فوج کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے کانپور پہنچ گئے۔ شہر پر دوبارہ کمپنی کا غلبہ قائم ہوگیا۔ لیاقت علی باغی کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے پر پانچ ہزار روپے کا اعلان کیا گیا، مگر وہ گرفت میں نہ آسکے، تاہم انہیں 14 برس بعد 1872 میں ایک جاسوس کی مخبری پر بامبے پولیس نے گرفتار کیا اور الٰہ آباد سیشن جج اے۔ آر پلاک نے 24 جولائی 1872 کو حبس دوام بہ عبور دریا کی سزا سناکر انڈمان بھیج دیا، جہاں وہ 17 مئی 1892 کو راہی ملک عدم ہوئے۔

لیکن افسوس کا مقام ہے کہ حال ہی میں پریاگ راج (الٰہ آباد) بلدیہ نے شہر میں کچھ مقامات کا نام بدلنے کا فیصلہ کیا لیکن تنگ نظر یا سیاسی مجبوریوں کی بنا پر حکام نے وطن اور ضلع کے عظیم مجاہد آزادی مولوی لیاقت علی کے نام پر کسی شاہراہ، گلی یا کوچہ کو منسوب کرنے کا خیال تک نہ کیا، جس کی جتنی مذمت کی جائے اتنی کم ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


    Published: 17 May 2022, 12:15 PM