ایک عظیم جنگجو ٹیپو سلطان: جسے اپنوں نے دھوکہ دیا... شاہد صدیقی علیگ
مہاتما گاندھی پورنیا کی غداری کے بار ے میں یوں اظہارِافسوس کرتے ہیں کہ عظیم سلطان کا وزیر اعظم ہندو تھا، یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ اس نے دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل کرآزادی کے عظیم عاشق کے ساتھ غداری کی۔
ٹیپو سلطان کی 223ویں یوم شہادت کے موقع پر خاص
سلطان فتح علی خاں بہ معروف ٹیپو سلطان ایک عظیم مرد مجاہد، عادل و رعایا پرور، مستقبل شناس، مساوات و مذہبی رواداری کا علمبر دار، روشن خیال اور بار بار معاف کرنے والے نرم گو حکمراں تھے۔ سلطنت خداداد کی مدت سترہ سال 1782ء تا 1799ء رہی۔ اگر وہ چاہتے تو دوسرے ریاستی نوابین اور راجگان کی طرح انگریزوں کے آگے سرخم تسلیم کرکے اس کی معیاد میں اضافہ کرسکتے تھے۔ لیکن ٹیپو سلطان نے نہ صرف اپنے والد سلطان حیدر علی کی وراثت کو آگے بڑھایا بلکہ فرنگیوں کو مادر ہند سے باہر نکالنے کا اپنی زندگی کا پہلا وآخری مقصد بنا لیا۔
تاریخ شاہد ہے تاجران فرنگ میدان جنگ میں راست مقابلے کے بجائے مکروفریب اور پس پردہ سازشیں رچنے کے ماہر کھلاڑی رہے ہیں۔ ان کی فتحیابی ان کے زور بازؤں سے زیادہ ان کے پیادوں کی کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔ حیدر علی اور ٹیپو سلطان کے ہاتھوں متعدد مرتبہ ہار کا منھ دیکھنے کے بعد خصوصاً سن1780ء بمقام پولی لور نزد مدارس ذلت آمیز شکست سے ہندوستان تک انگلستان صف ماتم بچھ گئی۔ چنانچہ شاطر انگریز رزم گاہ کو لہو سے گرمانے کے بجائے اپنی روایتی شعبدہ بازی کے ہتھیار کو بروئے کار لائے۔ جنہوں نے ٹیپو سلطان کی انصاف پسندی و رحم دلی کے سبب کیفر کردار سے بچنے والے دشمن عناصر کو تلاش کیا۔ جو ٹیپو سلطان کے تئیں دل میں دبی خلش، حرص وطمع اور جوش انتقام کو ٹھنڈا کرنے کے لیے انگریزوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن گئے۔
مگر ٹیپو بھی فرنگیوں کی ریشہ دوانیوں اور آستین کے سانپوں کی جال سازیوں سے نابلند نہیں تھا۔ اس نے انہیں متنبہ کیا تھا کہ ’’ایسی بات نہیں کہ ہم تمہاری غداری سے واقف نہیں، تم اپنی اس بے وفائی کا جلد ہی مزا چکھوگے، تمہاری آئندہ آنے والی نسلیں تمہارے ان سیاہ کارناموں کی نحوست سے ایک ایک دانے کی محتاج ہوں گی‘‘۔
قابل ذکر امر ہے کہ ٹیپوسلطان اپنے والد امجد کے برخلاف رحم دل اور نرم مزاج شخصیت کے پیکر تھے۔ حیدر علی کو حکم عدولی، بغاوت اور دغابازی ناقابل برداشت تھی جو دشمنوں کو ان کے افعال کی سزا دیئے بغیر چین سے نہیں بیٹھتے تھے جبکہ ٹیپو سلطان بغیر شواہد اور تحقیق کے کسی نتیجہ پر نہیں پہنچتے تھے وہ حریفوں کو معافی مانگنے پر نہ صرف معاف کر دیتے تھے بلکہ انہیں سابقہ عہدوں پر مامور بھی کر دیتے تھے جو سانپ کو دودھ پلانے کے مماثل تھا۔ سلطنت خداداد کے خاتمہ کی سب سے بڑی وجہ ٹیپو سلطان کی رحم دلی رہی۔ حیدر علی نے انتقال سے قبل وصیت کی تھی کہ میر صادق، میر غلا م علی لنگڑا اور پورنیا کے بارے میں اطمینان نہیں ہے، میرے بعد تم ان کو قتل کر دینا۔ لیکن ٹیپو سلطان نے حیدر علی کی وصیت پر عمل آوری نہ کرنے کا خمیازہ اپنی جان دے کر چکایا۔
ویسے تو سلطنت خداداد کو مٹانے والے غداروں کی طولانی فہرست ہے لیکن یہاں چار قابل ذکر بغلی دشنمنوں کا تذکرہ ملاحظہ کیجئے جنہوں نے سلطنت خداداد کو مٹا کر میسور کو انگریزوں کی جھولی میں ڈال دیا۔ جس میں پہلا نام میرصادق کا آتا ہے۔
میر صادق: ٹیپو کو ایک مرتبہ میر صادق دیوان کی بدعنوانی کا علم ہوا، چھاپے کے دوران اس کے گھر سے دس لاکھ روپے اور ایک لاکھ اشرفیاں محمد شاہی برآمد ہوئیں۔ جس کے بعد وہ کھلی دشمنی پر اتر آیا۔ سلطان تک کوئی خبر پہنچنے نہیں دیتا تھا۔ فیصلہ کن موڑ پر سپاہیوں سے کہا کہ وہ جا کر اپنی تنخواہیں وصول کر لیں۔ اس سے ٹیپو سلطان کا دفاع کمزور ہوا۔ مزید برآں جس وقت گھمسان کی جنگ ہو رہی تھی اور سلطان ڈیوڑھی سے دروازے سے باہر نکلا تو اس نے دروازے کو اندر سے بند کرا دیا۔ لیکن خدا کا کرشمہ دیکھئے کہ اسے اگلے دن کا سورج بھی دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔
پنڈت پورنیا: پنڈت پورنیا نے فرانسیسیوں اور سلطان ٹیپو کے مابین ہونے والے فوجی معاہدہ کی نقل میسور کی رانی لکشمی امانی کو پہنچائی تھی جس نے بعد میں اس کی اطلاع انگریز افسر جنرل ہارس کو پہنچائی۔ اس کی پالیسی کی وجہ سے کمپنی نے اس کو میسور کا دیوان منتخب کیا۔ پورنیا کی غداری آخر وقت تک بے نقاب نہیں ہوئی۔ جب اسے پوری طرح یقین ہو گیا تو اعلانیہ نمک حرامی کرتا ہے یعنی شگاف اور جنوبی فصیل کی متعینہ فوج کو تنخواہ کے بہانے سے مسجد اعلیٰ کے پاس بلاکر انگریزی فوج کو قلعہ پر چڑھ آنے کی سہولت فرا ہم کرتا ہے۔
مہاتما گاندھی پورنیا کی غداری کے بار ے میں یوں اظہارِ افسوس کرتے ہیں کہ ’عظیم سلطان کا وزیر اعظم ہندو تھا، یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ اس نے دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل کر آزادی کے عظیم عاشق کے ساتھ غداری کی۔“
میرغلام علی عرف لنگڑا (مشیراعلیٰ): قلعہ جات اور افواج کا ناظم اعلیٰ تھا۔ جسے سفیر بناکر سلطان ترکی کے دربار اور دیگر مقامات پر بھیجا گیا۔ جب وطن واپس لوٹا تو اس کے خلاف خرد برد کی شکایت ہوئی، جو تحائف سلطان ترکی نے ٹیپو سلطان کے لیے بھیجے تھے اس نے چھپا لیا ہے، خانہ تلاشی کی گئی تو سامان برآمد ہوگیا۔ جس پر غلام علی کو نظر بند کردیا گیا۔ معافی کے بعد سلطان نے رہا کرکے وزیر بحر بنا دیا۔
راجہ خان: راجہ خاں سلطان کے ذاتی عملہ میں شامل تھا لیکن سکّوں کی کھنک دیکھ کر ایمان بیچنے میں دیر نہ کی۔ آخری ایام تک اس کے اوپر شک کی انگلی تک نہیں اٹھی۔ اس نے ہی شہادت سے پہلے سلطان کو خود سپردگی کا مشورہ دیا تھا۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد ان کے گلے سے موتیوں کا قیمتی ہار بھی اس نے ہی چرایا تھا۔ میسور کی سلطنت میں بخشی کا عہدہ دیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ٹیپو سلطان نے بر طانوی نو آبادیاتی نظام کے خلاف نبرد آزمائی کرتے ہوئے جس دلیری، شجاعت اور سپہ سالاری کا ثبوت دیا وہ کسی اورحکمراں کے حصے میں نہیں آیا۔ علامہ اقبال نے ٹیپو سلطان کی عظمت وحرمت پر اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا ہے کہ ”ٹیپو کی عظمت کو تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی، وہ مذہب وملت اور آزادی کے لیے آخری دم تک لڑتے رہے، یہاں تک کہ اس راہ میں وہ شہید ہوگئے۔“
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔