عظیم مجاہد آزادی بابو کنور سنگھ اور مسلم رفقاء... شاہد صدیقی علیگ
عظیم شخصیت بابو کنور سنگھ ساکن جگدیش پور صوبہ بہار، جن کا مسلمان انقلابیوں قاضی ذوالفقار علی خاں، مولوی علی کریم، حشمت علی، استاد غلام حسین خاں اور میر قاسم شیخ نے دوش بدوش ساتھ دیا۔
کنور سنگھ کی 164ویں یوم شہادت کے موقع پر خصوصی پیش کش
اگر ہندوستان کی سانجھی وراثت دیکھنی ہو تو پہلی ملک گیر جنگ آزادی1857ء کے تاریخی دستاویزات کا مشاہدہ کیجئے جو آپ کو مادر ہند کے ہر خطہ کے عظیم سورماؤں کی شکل میں نظر آئے گی۔ ایسی ہی ایک عظیم شخصیت بابو کنور سنگھ ساکن جگدیش پور صوبہ بہارکی بھی ہے۔ جن کا مسلمان انقلابیوں قاضی ذوالفقار علی خاں، مولوی علی کریم، حشمت علی، استاد غلام حسین خاں اور میر قاسم شیخ نے دوش بدوش ساتھ دیا، جبکہ ان کے نزدیکی عزیز واقارب دلت پور کے بھجن سنگھ وغیرہ نے انہیں انگریزوں سے لڑنے کے لیے روکنے کی پوری جسارت کی۔
بابو کنور سنگھ 80؍سال کی عمر میں ہندو-مسلمانوں کے مذہب اور وطن کی آزادی کی صدا بلند کرنے کے بعد اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ جنہوں نے اپنی کبر سنی کے باوجود ادھر ڈوبے ادھر نکلے کے مترادف بہار تا یوپی کے مختلف محاذوں باندہ، ریواں، اعظم گڑھ، بنارس، بلیا، غازی پور اور گورکھپور وغیرہ پر فرنگیوں کو دھول چٹائی اور آخری سانس تک اسی نہج پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
پٹنہ کمشنر ولیم ٹیلرکو خبر مل چکی تھی کہ ہندوستانی سپاہی بغاوت کرنے کے لیے مناسب وقت کے انتظار میں بیٹھی ہے اور اطراف کے زمیندار بھی انگریزی راج کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ اس نے انقلابی مہم کا سر کچلنے کے پوری طاقت جھونک دی، جو دانا پور کے سپاہیوں کے سامنے بے سود ثابت ہوئیں۔ جنہوں نے 25 ؍جولائی کو بغاوت کا علم بلند کر دیا اور بابو کنور سنگھ کے کارواں میں شامل ہوگئے۔ کنور سنگھ کی قیادت میں دانا پور کی باغی فوج نے آرہ پر یلغار کرکے خزانے پر قبضہ کر لیا۔ جیل کے 400 قیدیوں کو رہا کر دیا۔ عوامی دفاتر کو گرا دیا۔ اس وقت آرہ قلعہ میں کیپٹن ڈنبر کی کمان میں 400 ؍سکھ اور انگریزی فوجی موجود تھے۔ جن کا انقلابیوں نے محاصرہ کرلیا، جو تین روز تک جاری رہا۔ معرکہ آرائی میں ڈنبر مارا گیا، باقی سپاہی واپس دانا پور بھاگ گئے۔ اس طرح 27 جولائی 1857ء کو بابو کنور سنگھ نے دانا پور کے باغی و بھوجپوری سپاہیوں اور دیگر ہمنواؤں کے ساتھ مل کر آرہ شہر پر قبضہ کر لیا۔
بابو کنور سنگھ نے آرہ پر مسخر کے بعد نظم ونسق کے لیے شیخ غلام یحییٰ کو مجسٹریٹ متعین کیا۔ مشرقی اور مغربی تھانوں کی تشکیل دی۔ جن کے کوتوال دیوان شیخ افضل کے بیٹوں طراب علی و خادم علی اور محمد عظیم الدین کو مشرقی تھانہ کا جمعدار مامور کیا۔ لیکن ان کی نظامت زیادہ دن قائم نہ رہ سکی۔ 2؍اگست کومیجر ونسنٹ آئر کی زیر کمان انگریزی فوج آرہ پہنچی تو کنور سنگھ کو جگدیش پور کی جانب ہٹنا پڑا، مگر وہاں بھی21؍اگست کو انگریزی فوج غالب آگئی۔ جس کے بعد انہوں نے بہار سے نکل کر انگریزوں سے دو دو ہاتھ کرنے کا عزم مصمم کیا۔
بابو کنور سنگھ سہسرام سے مرزا پور ہوتے ہوئے 29؍ستمبر کو 2000 فوجیوں معہ 40ویں بنگال پیدل دستہ کے ہمراہ باندہ پہنچے۔غالباً ان کا مقصد دہلی جاکر بہادر شاہ ظفر کے ساتھ مل کر فرنگیوں کو جلائے وطن کرنا تھا مگر اثنائے راہ سقوط دہلی کی خبر ملنے کے بعد ان کا ارادہ ملتوی ہوگیا۔ وہ باندہ سے ریواں پہنچے، غالباً جہاں کا فرمانروا ان کا رشتہ دار تھا۔ اگرچہ وہ انگریز پرست تھا مگر اس کے بعض درباری کنورسنگھ کی انقلابی مہم کے حامی تھے۔ خصوصاً حشمت علی اور ہر چند رائے نے کنور سنگھ کا پورا ساتھ دیا، لہٰذا راجہ کو مفرور ہونا پڑا۔ اس طرح خون کی ایک بوند بہائے بابو کنور سنگھ کا ریواں پر تسلط قائم ہوگیا۔ لیکن راجہ کی بدبختانہ حکمت عملی کے سبب کنور سنگھ کو ریواں چھوڑنا پڑا۔
اس کے بعد انہوں نے کانپور کے نزدیک جنرل ونڈم کے فوجی لشکر کو شکست دے کر اترولیہ( اعظم گڑھ) کی جانب پیش قدمی کی۔ ان کی نقل وحرکت ایسی غضب کی تھی کہ انگریز اعلیٰ حکام سراسیمہ تھے۔ آشفتہ حال انگریز حکام نے کنور سنگھ کا گھیرا تنگ کرنے کے لیے اپنے تمام وسائل جھونک دیئے۔ مگر کنور سنگھ کی جنگی حکمت عملی ناقابل تسخیر تھی۔ مزید برآں انہیں معاشرہ کے ہر طبقہ کا پورا تعاون حاصل تھا۔ انہوں نے اپنی شب وخون تکنیک سے اعظم گڑھ اور غازی پور میں متعدد مرتبہ انگریزوں کے چھکے چھڑائے۔ 6؍اپریل 1858ء کو اعظم گڑھ میں فیصلہ کن سخت معرکہ آرائی ہوئی۔ حالات کے مدنظر کنور سنگھ نے اپنے آبائی وطن جگد یش پور کا رخ کیا۔ اس دوران جب وہ گنگا ندی عبور کر رہے تھے تو ان کے اوپر انگریزی فوجیوں نے گولیوں کی بارش کر دی، اتفاقاً ایک گولی ان کی کلائی پر لگی، جس کا زخم ایسی سنگین صور ت اختیار کر رہا تھا کہ بغیر کلائی کاٹے بچاؤ ناممکن تھا، چنانچہ شجاعت اور استقامت کے پیکر بابو کنور سنگھ نے فی الفور نیام سے تلوار نکالی اور اپنی کلائی کاٹ کر گنگا کی نذر کر دی۔
لڑتے بھڑتے زخمی کنور سنگھ جگد یش پور پہنچے اور اس کے جنگلات کو اپنا مستقر بنایا۔ جس کی اطلاع ملتے ہی انگریز کپتان لی گرانڈ نے 23 ؍اپریل 1858ء کو کنور سنگھ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن کنور سنگھ کی فوج انگریزوں پر قیامت بن کر ٹوٹی۔ انگریزی فوج میں بھگدڑ مچ گئی۔ صرف ایک سو نناوے گورے سپاہی بچے۔ بابو کنور سنگھ نے انگریزی فوج کو ذلت آمیز شکست دے کر جگد یش پور پر دوبارہ اپنا پرچم لہرا دیا۔ لیکن اس شاندار فتحیابی کے تین دن بعد 26؍اپریل 1858ء کو بابو کنور سنگھ نے زخمی کلائی کے سبب ہمیشگی کے لیے اپنی آنکھیں بند کرلی اور وطن کی آبرو پر جان نچھاور کرکے امر ہوگئے۔
برطانوی مؤرخ ہومز کے مطابق: ’’وہ بوڑھا راجپوت برطانوی طاقت کے خلاف حیرت انگیز بہادری اور فخر سے لڑا۔ یہ خوش قسمتی تھی کہ جنگ کے وقت کنور سنگھ کی عمر تقریباً اسی سال تھی، اگر وہ جوان ہوتے تو شاید انگریزوں کو 1857ء میں ہی ہندوستان چھوڑنا پڑ جاتا۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔