ہڑپا اور موہن جودارو: ابھرتے شہر... وصی حیدر

مہر گڑھ کے بعد دھیمے دھیمے وقت گزرنے کے ساتھ سلسلہ وار ترقی ہوتے ہوئے ہم پرانی دنیا کی ایک حیرت انگیز تہذیب تک پہنچے، یہ اس بات کی شہادت ہے کہ ہڑپا کے لوگ کہیں باہر سے نہیں آئے

پاکستان: وادی سندھ میں موہن جودارو کے آثار قدیمہ کے مقام کا گڑھ / Getty Images
پاکستان: وادی سندھ میں موہن جودارو کے آثار قدیمہ کے مقام کا گڑھ / Getty Images
user

وصی حیدر

(21 ویں قسط)

جو بیج 7000 (ق م) میں بلوچستان کے مہر گڑھ میں بویا گیا اس کو تقریباً 5000 سال لگے اور وہ ہڑپا کی تہذیب (1900-2600 ق م) کی شکل میں ایک تناور درخت بنا۔ ہر کھیتی باڑی کرنے والا معاشرہ کسی بڑی تہذیب کی شکل میں نہیں بدلتا لیکن کسی بھی تہذیب (Civilisation) کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ کھیتی باڑی کی منزل سے گزرا ہو۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ جیسے جیسے کھیتی کی پیداوار بڑھے گی آبادی کے کچھ لوگوں کو فصلیں اگانے کے کام سے چھٹی ملے گی اور وہ لوگ اچھی عمارتیں بنانے کا کام ، نئے اوزاروں کی ایجاد، فصلوں اور تجارت کا حساب کتاب ، قیمتی زیورات کا بنانا بڑھتی آبادی کے لئے مکانات ، محلوں ، سڑکوں اور کھیتوں میں فصلوں کے لئے وقت پر نہروں اور تالابوں سے پانی کا انتظام کرنے جیسے کاموں کو کریں گے اور ان کی وجہ سے فصلوں کی اوپج اور بڑھے گی ،جس کے نتیجہ میں کھتی میں مصروف آبادی کا ایک اور حصہ آزاد ہوگا اور نئی نئی چیزوں کی ایجاد ہوگی، جن سے زندگی سہل ہوسکے۔ یہ سب بھی ممکن ہے جب کوئی معاشرہ اپنی پیداوار کو اتنا بڑھائے کہ کافی لوگ کھیتی کرنے سے آزاد ہو کر اور کاموں میں مصروف ہوں۔

دنیا بھر کی زبانوں کے ماہرین کی پچھلے 100 سالوں کی کوششوں کے باوجود ہم ابھی تک ہڑپا کے لوگوں کی لکھی ہوئی زبانوں کو نہیں سمجھ پائیں ہیں اس لیے صرف کھدائی سے حاصل ہوئی چیزوں کو دیکھ کر ان کی زندگی گزارنے کے طور طریقوں کے بارے میں اندازہ لگا سکتے ہیں۔


مہر گڑھ کے دو کمروں کے مکانات اور کھیتوں سے لے کر ہڑپا ، موہن جودارو اور ڈھولا اویرا کی حیرت انگیز عمارتوں تک کے سفر کے بارے میں بہت تفصیل سے معلومات حاصل ہوچکی ہیں۔ ہم کو یہ معلوم ہے کہ کچی وادی کے گاؤں سے کھیتی باڑی دھیمے دھیمے بلوچستان ، سندھ وادی ، گھگرہکرا وادی اور گجرات کے آس پاس پھیلی اور چند ہزار سالوں میں چھوٹے چھوٹے شہروں میں الگ الگ ابھرنے لگے۔ اور پھر 2600 ق م تک یہ سارے شہر مل کر ہڑپا کی تہذیب کی مشکل میں ابھرے جو دو بڑی دریاؤں سندھ اور گھگرہکرا ( جواب سوکھ گئی ہے) کے آس پاس کے پورے علاقے میں پھیل گئی۔ یہ تہذیب تقریبا ً پورے پاکستان ، افغانستان،مغربی ہندوستان میں پنجاب ، راجستھان ، ہریانہ، اترپردیش اور گجرات تک پھیل گئی۔

مہر گڑھ کے بعد دھیمے دھیمے وقت گزرنے کے ساتھ سلسلہ وار ترقی ہوتے ہوئے ہم پرانی دنیا کی ایک حیرت انگیز تہذیب تک پہنچے، یہ اس بات کی شہادت ہے کہ ہڑپا کے لوگ کہیں باہر سے نہیں آئے اور انھوں نے اپنی محنت اور سمجھ سے اس بڑی تہذیب کو جنم دیا۔


یہ خیال کہ ہڑپا کی تہذیب میسوپوٹامیا کی تہذیب کی ایک شاخ ہے، یقیناً غلط ہے۔ میسوپوٹامیا کی تہذیب 4 ہزار (ق م ) سے 330 ق م تک رہی ، جب اس کو الیگزنڈر نے فتح کرلیا اور اس کا پورا علاقہ موجودہ عراق ،کویت ،سعودی عرب ، ترکی ، سیریا اور ایران کا حصہ شامل تھا۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ ہڑپا کے شہروں کو بنانے والے میسوپوٹا میاسے آئے۔ حالانکہ یہ صحیح ہے کہ ہڑپا کی تہذیب کو جنم دینے والے لوگوں میں ایران کے ذغروس پہاڑی کے لوگوں اور افریقہ سے آنے والے پہلے ہندوستانیوں کی ملاوٹ ہے۔ لیکن یہ ہڑپا کی تہذیب سے ہزاروں سال پہلے ملاوٹ ہوچکی تھی۔ یہ بات تو بالکل ایسی ہے کہ ہم یہ کہیں کہ چین ، امریکہ ، یورپ اور آسٹریلیا کے سبھی انسان ابھی بھی افریقی ہیں کیونکہ ہوموسیپین 70-80 ہزار پہلے افریقہ سے آئے۔

لیکن ان باتوں کا یہ مطلب نہیں کہ میسوپوٹامیا اور ہڑپا کے بیچ کوئی رابطہ نہیں تھا۔ دونوں جگہوں پر کھدائی سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ان دونوں تہذیبوں میں آپس میں تجارتی اور کلچر لین دین مستقل ہوتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر میسوپوٹا میا کی بہت ساری ٹبلیلٹ میں سندھ میں ہونے والی بھینسوں کی شکل بنی ہے جو وہاں نہیں ہوتی تھی۔ کچھ تصویروں میں کوئی شخص ان بھینسوں کو پانی پلا رہا ہے اور کوئی ان کو قابو میں کرنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔ یہ تمام ٹیبلٹ اکاڈین بادشاہ سارگون کے زمانہ کے ہیں۔


کھدائی کے ماہروں کا خیال ہے کہ ہڑپا کے پانی کے بڑے جہازوں پر ان بھینسوں کو تحفہ کے طور پر میسوپوٹا میا لے گئے اور اکاڈین کے بادشاہ کو نظر کیا۔ سارگون نے ان تحفوں سے خوش ہو کر ذکر کیا ہے کہ یہ میلوہا سے اس کے پاس آئیں ہیں۔ میلوہا کے نام سے وہ لوگ ہڑپا کے کو جانتے تھے۔ میسوپوٹا میا میں ہاتھی، گینڈا اور مور بھی میلوہا (ہڑپا) سے گئے۔ ان جانوروں کے علاوہ کچھ فصلوں کے بیچ بھی وہاں پہنچے، جو انھوں نے اپنے موسم کے اعتبار سے اپنائے۔ ان چیزوں کا ذکر لیورینی نے اپنی کتاب ’اوروک: دنیا کا پہلا شہر‘ میں تفصیل سے کیا ہے۔

میسوپوٹا میا میں ہڑپا تہذیب کے نشانات کے ساتھ ساتھ ہڑپا میں بھی وہاں کے نشانات ہیں۔ موہن جودارو میں پانچ مہریں اور اور چھالیسی ٹیبلیٹ ملی ہیں جن میں ایک نوجوان اپنے دونوں ہاتھوں سے ایک چیتے (ٹائیگر) سے لڑ رہا ہے۔ یہ سومیرا کے بادشاہ گلگامش کی پرانی کہانی کی یاد دلاتا ہے، میسوپوٹا میا میں زیادہ تر ان مہروں میں بہادر نوجوان شیر سے لڑتا دکھا گیا ہے، جبکہ ہڑپا میں اس کی طرح کی مہروں میں چیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں جگہوں پر بہادری کی یہ داستان ان تہذیبوں کے ابھرنے سے پہلے ہی مقبول رہی ہوں گی اور ان کہانیوں کو یہ دونوں تہذیبیں اپنے اپنے انداز میں سمجھتی ہوں گی۔

ہڑپا اور میسوپوٹا میا میں آپسی تال میل کی بقیہ کہانی اگلی قسط میں ملاحظہ کریں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔