مہر گڑھ کے لوگوں کی کہانی، ڈی این اے کی زبانی... وصی حیدر
جب 1900 ق م کے آس پاس ہڑپا کی تہذیب ختم ہوگئی تو بھی وہاں کے لوگ ہمارے پورے برصغیر میں پھیل گئے اور یہ ہمارے اس پیزہ کی چٹنی کی طرف پورے ہندوستان میں اپنی مہارتوں کو پھیلاتے رہے۔
(بیسویں قسط)
پچھلی قسط میں پرانے انسانی ڈھانچوں کی ڈی این اے تحقیقات سے یہ معلوم ہوا کہ ہڑپا تہذیب کے 2200 -3100 ق م کے لوگوں میں کافی حد تک ایران کے ذگروز علاقہ کے لوگوں کی جینس کی ملاوٹ ہے جبکہ ذگروز کے رہنے والے لوگوں میں 8000-7000 ق م میں ہندوستان میں پہلے بسنے والے لوگوں کے کوئی بھی جینس نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اصل ہجرت ذگروز سے ہندوستان کے شمالی علاقوں کی طرف ہوئی۔
اس کے علاوہ ہڑپا تہذیب کے خاتمہ (ق م 1900) کے کافی بعد 800-1200 ق م کے موجودہ پاکستان کی سوات وادی کے 41 ڈاھانچوں سے کافی دلچسپ معلومات حاصل ہوئیں۔ ان لوگوں میں 22 فیصد ایشیا کی چراگاہوں کے لوگوں کی ملاوٹ کے ساتھ ساتھ ایران کے ذگروز اور ہندوستان کے پرانے جینس ہیں۔
مختصراً یہ ثابت ہوا کہ سندھ ندی کے کنارے اور پاکستان کی سوات وادی کے لوگوں کے پرانے 800-3100 ق م ڈھانچوں میں کافی مقدار میں ایران کے لوگوں کی ملاوٹ ہے۔ ڈی این اے تحقیقات نے اس ملاوٹ ہونے کی وجہ یعنی ایران سے لوگوں کا آکر وہاں رہنے والے لوگوں میں گھل مل جانا ثابت کرتا ہے۔ ایران کے لوگوں کے علاوہ ایشیا کی چراگاہوں سے لوگ آئے۔ ان تحقیقات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایران سے کھیتی کرنے والے ذگروز کے لوگ تقریباً 7000 ق م کو آئے اور یہاں رہنے والے لوگوں سے گھل مل گئے اور اسی وجہ سے آج ہندوستان کے لوگوں میں ایرانی جینس کی ملاوٹ ہے۔
ان نتیجوں کو یونی پیریلل ڈی این اے کی تحقیقات سے اور زیادہ تقویت پہنچتی ہے۔ وائی کروموسوم (جو ہم کو اپنے والد سے ملتا ہے) کے مختلف گروپ جو ایشیا کے اوپری حصہ کی چراگاہوں میں ملتا ہے وہ جے 2، ایل 1 اور ایل آئی سی ہے، تحقیات سے یہ معلوم ہوا کہ ان میں سے جے 2 ان ہندوستانی ڈھانچوں میں موجود ہے۔ اس سے ان لوگوں کے ہندوستان کے لوگوں میں ملاوٹ بلاشبہ ثابت ہوتی ہے۔ مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ 65 ہزار سال پہلے آنے والے ہوموسیپین کے بعد مہر گڑھ کی آبادی ہمارے برصغیر کی ایک اہم کڑی ہے۔
مہر گڑھ کے لوگوں کی ایک معمولی لیکن بہت اہم سب سے پہلے مٹی کی اینٹوں سے بنے دو تین کمروں کے مکانات دنیا کی اہم تہذیب کی بنیاد (ہڑپا اور وادی سندھ) ڈال رہے ہیں جو تقریباً ساڑھے چار ہزار سال یا 150 پشتوں بعد اپنے پورے شباب پر ابھری۔
جب ایک مرتبہ کامیاب کھیتی باڑی شروع ہوگئی اور انسانوں کے پاس اپنی فوری ضرورت سے زیادہ اناج ہونے لگا تو اور بہت چیزوں کی طرف دھیان کرنے کا وقت ملا اور انسانی تاریخ کا پہیہ تیز رفتار سے چلنے لگا اور بہت ساری نئی نئی ایجادات ہوئیں جن میں خود گول پہیہ بھی ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب کس طرح کی انفرادیت رکھتی تھی اس کا ذکر اگلی قسط میں ہوگا۔
جب 1900 ق م کے آس پاس ہڑپا کی تہذیب ختم ہوگئی تو بھی وہاں کے لوگ ہمارے پورے برصغیر میں پھیل گئے اور یہ ہمارے اس پیزہ کی چٹنی کی طرف پورے ہندوستان میں اپنی مہارتوں کو پھیلاتے رہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔