’میں روزے سے ہوں‘... سہیل انجم

رمضان کا مہینہ رحمتوں، برکتوں، گناہوں سے توبہ اور خوشنودیٔ رب کا ہے تو اہل مدارس کے لیے عنایتوں اور نوازشوں کے حصول کا ہے۔ یہ نیکیوں کا موسم بہار ہے تو بعض حضرات کے لیے موسم کاروبار ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر آئی اے این ایس</p></div>

تصویر آئی اے این ایس

user

سہیل انجم

(اس مضمون کا مقصد کسی کی دلآزاری نہیں بلکہ حقیقت بیانی ہے)

’حضرات! میں فلاں جگہ کے فلاں مدرسے سے آیا ہوں... مدرسے میں اتنے طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں... ان کے قیام و طعام کی ذمہ داری مدرسے پر ہے... اس کا ماہانہ خرچ اتنا اور سالانہ خرچ اتنا ہے جو آپ کے زکوٰۃ و صدقات سے پورا ہوتا ہے... آپ حضرات سے گزارش ہے کہ مدرسے کا زیادہ سے زیادہ تعاون فرمائیں اور ثواب دارین حاصل کریں‘۔

رمضان کے مہینے میں یہ اور اس سے ملتے جلتے اعلانات تقریباً ہر نماز کے بعد مسجد میں سنے جاتے ہیں۔ امام صاحب کے سلام پھیرنے کی دیر نہیں ہوتی کہ کوئی نہ کوئی سفیر اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور یہ اعلان کرنے لگتا ہے۔ نہ دعا نہ ذکر و اذکار، بس اعلان اور اعلان۔ بعض اعلان کنندگان مدارس کو اسلام کے قلعے بھی بتائیں گے اور اپنے مدرسے کی ضرورت کا ذکر اس طرح کریں گے کہ خود کو اور مدرسے کو انتہائی نچلی سطح پر گرا دیں گے۔ ممکن ہے دوسری مسجدوں میں ایسا نہ ہوتا ہو لیکن ہم جس مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں اس میں یہ پورے مہینے بلکہ پورے سال کا معمول ہے۔


رمضان کا مہینہ جوں جوں ختم ہونے کو آتا ہے سفرا کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ وہ مسجد سے باہر نکلنے کے راستے میں دو رویہ بیٹھ جاتے ہیں۔ تقریباً ہر سفیر اپنے چاروں طرف کاغذات اور تصاویر اس طرح پھیلا دے گا کہ جیسے ان کو دیکھتے ہی آپ کا دست تعاون اس کی طرف اٹھ جائے گا۔ جن سفرا نے اعلان کیا ہوتا ہے ان کو زیادہ سے زیادہ تعاون کی امید ہوتی ہے۔ جو بیچارے اعلان نہیں کر پاتے وہ بھی ہر مصلی کو امید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اگر آپ نے ایک سفیر کو کچھ دیا تو دوسرے کی پرامید نظریں آپ کی جانب اٹھ جاتی ہیں۔ آپ نے دوسرے کو دیا تو تیسرے کی امید اس سے سوا ہو جاتی ہے۔ چوتھا ٹکٹکی باندھے آپ کو دیکھنے لگتا ہے۔ تعاون کرنے والا شخص مخمصے میں پڑ جاتا ہے کہ وہ کسے دے اور کسے نہ دے۔

اس دو رویہ فوج کو عبور کرکے آپ دروازے کے باہر نکلتے ہیں تو وہاں فقیروں کی اس سے بھی بڑی فوج آپ کے استقبال کو موجود ہوتی ہے۔ یعنی اندر سفیر تو باہر فقیر۔ ہر فقیر اس انداز سے ’زرطلب‘ نگاہوں سے آپ کی طرف دیکھے گا اور آواز لگا کر آپ کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرے گا کہ جیسے اگر آپ نے اس کی مدد نہیں کی تو وہ فاقوں سے دم توڑ دے گا۔ حالانکہ انہی میں کچھ ایسے ثروت مند فقیر بھی ہوتے ہیں جو دینے والوں سے زیادہ امیر ہوتے ہیں۔ اگر ای ڈی اور سی بی آئی ان کے یہاں چھاپے مارے تو ان میں کئی امبانی اور اڈانی نکل آئیں گے۔ (اب ٹاٹا برلا کی جگہ امبانی و اڈانی نے لے لی ہے۔ ورنہ بچپن میں ہم ٹاٹا برلا کو ہی امارت کی علامت سمجھتے رہے ہیں)۔


رمضان کا مہینہ رحمتوں، برکتوں، گناہوں سے توبہ اور خوشنودیٔ رب کا ہے تو اہل مدارس کے لیے عنایتوں اور نوازشوں کے حصول کا ہے۔ یہ نیکیوں کا موسم بہار ہے تو بعض حضرات کے لیے موسم کاروبار ہے۔ خاص طور پر ان سفرا کے لیے جو مبینہ طور پر پچاس فیصد یا اس سے بھی زائد کمیشن پر چندہ کرتے ہیں۔ دہلی میں جموں و کشمیر سے ایسے لاتعداد سفرا آتے ہیں جو دروغ برگردن راوی فرضی ہوتے ہیں۔ یعنی ان کا مدرسہ ’رسیدی مدرسہ‘ ہوتا ہے حقیقی نہیں۔ اسی لیے ایسے لوگ دس روپے کی بھی رسید خوشی خوشی کاٹ دیتے ہیں۔ جبکہ کچھ ایسے بھی سفرا ہوتے ہیں جو سو پچاس روپے کی رسید کاٹنا بھی کسر شان سمجھتے ہیں۔

ایک روز ایک سفیر صاحب نے ہمارے گھر کی گھنٹی بجائی۔ ہم نے دروازہ کھولا۔ انھوں نے اپنے مدرسے کا ذکر خیر چھیڑ دیا۔ ہم نے پچاس کا نوٹ دیا تو وہ نوٹ کو اس طرح دیکھنے لگے جیسے وہ نوٹ نہ ہو ان کی خدمت میں پیش کیا جانے والا ’تذلیل نامہ‘ ہو۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو کچھ زیادہ دے دیجیے تو وہ اور چمٹ جاتے ہیں۔ اپنی ضرورت اور بتانے لگتے ہیں۔ آپ جتنی بار رقم میں اضافہ کریں وہ اتنی بار اپنی داستان لمبی کریں گے۔


ایک بار تو ایسا ہوا کہ جب ہم نے دروازہ کھولا تو ایک سفیر صاحب نے داستان چھیڑ دی۔ ہم نے ان کی فرمائش پر کچھ پیش کیا۔ انھوں نے ہمارا نام لے کر کہا فلاں صاحب نہیں ہیں۔ پچھلی بار آیا تھا تو انھوں نے اتنا نہیں اتنا دیا تھا۔ شاید انھوں نے نیم پلیٹ پر نام پڑھ لیا تھا۔ ایک سفیر صاحب نے جب ہندی میں رسید کاٹنی شروع کی تو ہم نے پوچھا آپ کو اردو نہیں آتی۔ انھوں نے نفی میں جواب دیا۔ ہم نے کہا کہ اس بار تو لے جائیے اگلی بار اردو سیکھ کر آئیے گا تب ملے گا ورنہ نہیں۔ لیکن انہی لوگوں میں بہت سے حقیقی سفیر بھی ہوتے ہیں۔ ان کی اکثریت چمٹنے والی نہیں ہوتی۔ ان کو جو دیجیے وہ خاموشی سے لے لیتے ہیں۔

اس سفیر گری یا چندہ گری کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ اگر آپ نے کسی کی باتوں میں آکر یا ترس کھا کر کچھ زیادہ دے دیا تو اگلے سال وہ اسی کی دہائی دے گا اور کہے گا کہ آپ کا پرانا چندہ اتنا ہے، اتنا دیجیے۔ شاید اسی لیے جو تجربہ کار مخیر حضرات ہیں وہ سابقہ ریکارڈ مانگتے ہیں۔ ہمارے بچپن میں سب سے زیادہ چندہ ممبئی میں ہوتا تھا۔ وہاں کے سیٹھوں کے یہاں سفرا کی لائن لگی ہوتی اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے چھوٹے مدرسے انہی کے چندے سے سال بھر چلتے تھے۔ ان دنوں رسید کے ساتھ ساتھ روداد بھی شائع ہوتی تھی۔


اس کے دو مقاصد تھے۔ ایک تو اسے دکھا کر سابقہ چندہ حاصل کرنا اور دوسرے مدرسے کی منتظمہ کمیٹی کے سامنے اس کی روشنی میں حساب کتاب کرنا۔ لیکن اب روداد کی روایت ختم ہوتی جا رہی ہے بلکہ ختم ہو گئی ہے۔ ادھر جب سے آن لائن کا سلسلہ شروع ہوا ہے بہت سے اہل مدارس اپنا اکاونٹ نمبر بھی دینے لگے ہیں۔ اس سے دونوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ لینے والے کو جانا نہیں پڑتا اور دینے والا مزید مطالبے کے تقاضے سے بچ جاتا ہے۔ بہرحال ہمارا مقصد سفیر گری کی اس روایت کی نہ حمایت کرنا ہے اور نہ ہی مخالفت۔ ہم صرف عرض حال کر رہے ہیں۔

لیکن اسی دنیا میں ایسے اہل خیر حضرات بھی ہیں جو دوسروں کی مدد کا جذبۂ وافر رکھتے ہیں اور نہ صرف خود ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں بلکہ دوسروں سے بھی مدد کرواتے ہیں۔ دہلی میں ہم ایک ایسے ’اللہ والے‘ سے واقف ہیں جو بیسیوں سال سے دوسروں سے مانگ مانگ کر ضرورت مند افراد کے پاس بھیجتے ہیں۔ وہ ہر سال کسی ایک ضرورت مند کا انتخاب کر لیں گے اور ممکنہ اہل خیر حضرات کی ایک فہرست بنا لیں گے۔ جب تک اس فہرست کے ایک ایک شخص سے کچھ دلوا نہیں دیں گے ان کی فہرست زندہ رہے گی۔


وہ کئی برس سے اترپردیش کے ضلع سدھارتھ نگر کے ایک ضرورت مند کے لیے یہ کام کر رہے ہیں۔ مذکورہ شخص کے گردے خراب تھے اور ’اللہ والے‘ ان کی مدد کیا کرتے تھے۔ اسی رمضان میں وہ دہلی آنے والے تھے۔ مگر چند روز قبل انہی ’اللہ والے‘ کے توسط سے خبر ملی کہ آنے سے چند روز قبل ان کا انتقال ہو گیا۔ اب انھوں نے اس شخص کی بیوہ کا اکاونٹ نمبر حاصل کیا ہے اور مذکورہ فہرست کے افراد کے پاس وہ اکاونٹ نمبر بھیج دیا کہ اس میں رقم ٹرانسفر کر دیں۔ بہرحال ان کو اللہ کی ذات سے امید رکھنی چاہیے کہ ان کا یہ قدم ان کی بخشش کا سامان بن جائے گا۔

اب آخر میں حضرت ضمیر جعفری کی ایک نظم جو ہم نے معروف کالم نگار عطاء الحق قاسمی کے کالم سے مستعار لی ہے:

مجھ سے مت کر یار کچھ گفتار، میں روزے سے ہوں

ہو نہ جائے تجھ سے بھی تکرار، میں روزے سے ہوں

 ہر اک شے سے کرب کا اظہار، میں روزے سے ہوں

دو کسی اخبار کو یہ تار، میں روزے سے ہوں

میرا روزہ اک بڑا احسان ہے لوگوں کے سر

مجھ کو ڈالو موتیے کے ہار، میں روزے سے ہوں

میں نے ہر فائل کی دمچی پر یہ مصرع لکھ دیا

کام ہو سکتا نہیں سرکار، میں روزے سے ہوں

اے مری بیوی مرے رستے سے کچھ کترا کے چل

اے مرے بچو ذرا ہوشیار، میں روزے سے ہوں

شام کو بہر زیارت آ تو سکتا ہوں مگر

نوٹ کر لیں دوست رشتہ دار، میں روزے سے ہوں

تو یہ کہتا ہے لحن تر ہو کوئی تازہ غزل

میں یہ کہتا ہوں کہ برخوردار، میں روزے سے ہوں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔