گورے صاحب بہادر کی صاحبی کے زوال کا آغاز... ظفر آغا
جب دنیا سے انگریزوں کی غلامی کے خاتمے کا دور شروع ہوا تو دوسری جنگ عظیم ہوئی، جس نے دنیا کو جہنم بنا دیا۔ اب دنیا سے امریکہ کے اثرات کم ہو رہے ہیں تو پھر سے ایک تیسری جنگ عظیم کا خطرہ منڈلا رہا ہے
دنیا بدل رہی ہے اس کا اندازہ تو تھا لیکن اس قدر تیزی سے بدلے گی اس کا اندازہ کسی کو نہ تھا۔ اگر یوں کہا جائے کہ عالمی امور ایک خاموش انقلاب سے دور چار ہیں تو غالباً مبالغہ آرائی نہ ہوگی۔ خود سوچیے، دو ماہ قبل کسی کو یہ سان و گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات بہتر ہو جائیں گے۔ لیکن اب یہ عالم ہے کہ یہ دونوں ممالک نہ صرف جلد ہی اپنے سفارتی تعلقات بحال کریں گے بلکہ پچھلے ہفتے سعودی اور ایرانی وزرائے خارجہ آپس میں کھڑے ہاتھ ملا رہے تھے۔ اس سے بھی حیرت ناک بات یہ تھی کہ ان تمام ناقابل یقین تبدیلیوں کا مرکز امریکہ نہیں بلکہ چین تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ دیکھتے دیکھتے چین عالمی امور کا ایک اہم مرکز بن کر ابھر رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے ہفتے ہی فرانس کے صدر امینوئل میکروں چین کے دورے پر تھے اور انھوں نے چینی صدر سے یہ گزارش کی کہ وہ روس اور یوکرین کی جنگ کا مسئلہ حل کرنے میں اہم کردار ادا کریں۔ میکروں کا خیال ہے کہ صرف چین ہی روس کو سمجھا سکتا ہے اور اس طرح روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بند ہو سکتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ چین کا اثر محض مغربی ایشیا ہی نہیں بلکہ یورپ میں اس قدر بڑھ چکا ہے کہ وہ یوروپی امور میں بھی اہم کردار نبھا سکتا ہے۔
دراصل یہ اکیسویں صدی کی تیزی سے بدلتی ہوئی وہ تصویر ہے جو آنے والے وقتوں میں اور بہت صاف ہو جائے گی۔ ظاہر ہے کہ دنیا کی یہ بدلتی تصویر امریکہ کے لیے انتہائی کربناک ہے۔ کیونکہ اس کے یہ معنی ہے کہ عالمی امور پر امریکہ کی دست رس کمزور ہو رہی ہے اور دنیا اب یونی پولر ورلڈ سے ملٹی پولر ورلڈ میں بدلتی جا رہی ہے۔ اس نئی دنیا میں چین، فرانس اور ہندوستان جیسے ممالک اہم رول ادا کریں گے۔ یہ حیرت ناک بات اور تبدیلی ہے۔ کیونکہ کوئی دو دہائی قبل امریکہ دنیا بھر میں دندناتا پھر رہا تھا۔ اس کی فوجیں کبھی افغانستان تو کبھی عراق کو روند رہی تھیں۔ لیکن بیس برسوں کے اندر دنیا ایسی بدلی کہ اب دنیا کے اہم ممالک اپنے عالمی امور حل کرنے کو واشنگٹن نہیں بلکہ بیجنگ کی طرف امید سے دیکھ رہے ہیں۔
جی ہاں، گورے صاحب کی صاحبی کا وقت ختم ہو رہا ہے۔ پچھلے تقریباً تین سو سالوں سے دنیا پر جس طرح گورے بہادر یعنی انگریزوں کا پرچم لہرا رہا تھا، اب اس کے دن لدنے والے ہیں۔ دراصل اٹھارہویں صدی میں انڈسٹریل انقلاب کے ساتھ ہی دنیا کو انگریزوں نے باقاعدہ اپنا غلام بنا لیا۔ پورے ایشیا اور افریقہ پر یورپی ممالک اور خصوصاً انگلینڈ کے گوروں کا قبضہ تھا۔ وہ ترکی خلافت رہی ہو یا مغلوں کی شہنشاہی، سب انگریزوں کے ہاتھوں ختم ہوئیں۔ لیکن ایشیا اور افریقہ نے ایک انگڑائی لی اور نصف بیسویں صدی سے یورپ کی کالونیوں میں آزادی کی ہوا پھیل گئی۔ گورا بہادر کا راج تو ختم ہوا، لیکن اب دوسری عالمی جنگ کے بعد اسی گورے بہادر نے امریکہ سے دنیا پر اپنی طاقت مسلط کر دی۔ حالانکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی امور میں دو اہم مرکز بن کر ابھرے۔ ایک گورے بہادر کا واشنگٹن اور کمیونسٹ بلاک کا ماسکو۔ مگر گورا تو پھر گورا ہوتا ہے۔ اس نے ایسی ریشہ دوانیوں سے بیسویں صدی کی آخری دہائی میں سوویت یونین کو ہی ختم کر دیا اور اس طرح دنیا سے کمیونسٹ بلاک کا ہی خاتمہ ہو گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اکیسویں صدی کے آغاز پر امریکہ دنیا کا واحد سپر پاور بن گیا اور امریکی حکمرانوں نے اکیسویں صدی کو امریکی صدی ہونے کا اعلان کر دیا۔
لیکن جب امریکہ کا دنیا میں ڈنکا بج رہا تھا تو اس وقت چین خاموشی سے اپنی ترقی مضبوط کرنے میں مصروف تھا۔ بس اس نئی صدی کی دو دہائی کے اندر چین کی صنعتی اور فوجی ترقی کا یہ عالم ہے کہ اب چین امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں، سعودی عرب جیسے وہ ممالک جو ابھی حال تک واشنگٹن کی مرضی کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھاتے تھے، اب وہی ممالک چین کے ساتھ مل کر اپنے عالمی امور کے مسائل حل کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس بدلتی ملٹی پولر ورلڈ میں سب سے زیادہ فائدہ اور ترقی ایشیائی ممالک کی ہونے جا رہی ہے۔ اس کا فائدہ عالم اسلام کو بہت ہوگا۔ وہ عالم اسلام جو اب تک تمام معاملات میں امریکہ کا زیر نگوں تھا وہ اب اپنے مفاد مین خود مختار ہوگا۔ اس کی سب سے پہلی مثال سعودی عرب اور ایران کے بہتر ہوتے تعلقات ہیں جو جلد ہی پورے عالم اسلام پر اپنی چھاپ چھوڑیں گے۔
اس بدلتی دنیا میں تیسرا سب سے اہم مرکز ہندوستان بن کر ابھر رہا ہے۔ آج ہندوستان دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہی نہیں بلکہ دنیا کا سب سے بڑا مارکیٹ بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس بڑھتی معیشت کے ساتھ ساتھ دنیا کے امور پر ہندوستان کا بھی اثر بڑھ رہا ہے۔ آج دنیا بھر میں روس اور یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے صرف چین ہی نہیں بلکہ ہندوستان کا بھی نام لیا جا رہا ہے۔ یوکرین کے صدر نے ابھی حال میں نئی دہلی کے دورے کے درمیان ہندوستان سے یہ درخواست کی کہ وہ جنگ کا مسئلہ حل کرنے میں اپنا رول نبھائیں۔ یعنی اکیسویں صدی میں ہندوستان نہ صرف ایک اور اہم معاشی طاقت بن کر ابھرے گا بلکہ نئی دہلی عالمی امور میں ایک اہم رول بھی ادا کرے گا۔ دنیا سے گورے بہادر کی مونوپولی کے خاتمے سے ایک نئی دنیا ہی نہیں ابھرے گی بلکہ اس نئی دنیا میں ہندوستان اور چین دنیا کے نئے اہم مرکز بھی بن کر ابھریں گے۔ اس پس منظر میں اگر یہ کہا جائے کہ اکیسویں صدی ایشیائی صدی ہوگی تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔
لیکن دنیا جب جب کروٹ بدلتی ہے تب تب دنیا پر عالمی جنگ کا خطرہ منڈلانے لگتا ہے۔ نصف بیسویں صدی کے قریب جب دنیا سے انگریزوں کی غلامی کے خاتمے کا دور شروع ہوا تو دوسری جنگ عظیم ہو گئی جس نے دنیا کو جہنم بنا دیا۔ ایسے ہی اب جب پھر دنیا سے امریکہ کے اثرات کم ہو رہے ہیں تب بھی ایک تیسری جنگ عظیم کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ روس اور یوکرین میں چل رہی جنگ کب نیوکلیئر جنگ کا روپ لے لے یہ کہنا مشکل ہے۔ اگر کہیں دنیا میں نیوکلیئر ہتھیاروں کا استعمال ہو گیا تو شاید اب انسانیت کا ہی وجود خطرے میں پڑ جائے۔ اس لیے اگر اس تیزی سے بدلتی دنیا میں اگر دنیا کے لیے نئے ترقی کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں تو وہیں دنیا میں نئے عالمی جنگ کے خطرات بھی بڑھ گئے ہیں۔ اس لیے ہندوستان، چین، فرانس جیسے نئے ابھرتے عالمی امور کے اہم مراکز کو ان خطرات کو ختم کرنے کے لیے سرگرم ہونا چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 09 Apr 2023, 10:11 AM