مودی پنڈت نہرو سے کیوں اتنا چڑھتے ہیں؟... سہیل انجم

یہ ایک حقیقت ہے کہ وزیر اعظم مودی احساس کمتری میں مبتلا ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی طرح کوئی بڑا وزیر اعظم ابھی تک نہیں آیا۔ اسی لیے وہ پنڈت نہرو کے ’بت‘ کو توڑنا چاہتے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سہیل انجم

ابھی چند روز قبل سنگاپور کے وزیر اعظم لی سین لونگ نے اپنے یہاں کی پارلیمنٹ میں جمہوریت کے موضوع پر بولتے ہوئے کچھ ایسا کہہ دیا جو ہندوستان کو بہت ناگوار گزرا۔ انھوں نے آزادی کے لیے جنگ لڑنے والے سیاست دانوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی جرأت و ہمت، ان کے اعلیٰ اخلاق و اقدار اور ان کی اصول پسندی کو بیان کیا اور کہا کہ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے آزادی کے بعد ہندوستان میں ایک اعلیٰ و ارفع جمہوری نظام قائم کیا تھا لیکن وہ نظام اب زوال پذیر ہے۔ انھوں نے میڈیا رپورٹوں کے حوالے سے کہا کہ ہندوستان کی موجودہ لوک سبھا کے تقریباً نصف ارکان کے خلاف ریپ اور قتل سمیت متعدد مجرمانہ مقدمات درج ہیں۔

وزارت خارجہ نے ہندوستان میں سنگاپور کے سفیر کو طلب کرکے اس بیان پر اپنی ناراضگی جتائی اور اسے غیر ضروری اور نا قابل قبول قرار دیا۔ حالانکہ ہندوستان اور سنگاپور میں بہت گہرے رشتے ہیں۔ دونوں اسٹریٹجک شراکت دار ہیں۔ مودی لی سین لونگ میں دوستانہ قسم کے مراسم ہیں۔ وزیر اعظم بننے کے بعد مودی اب تک پانچ بار سنگاپور کا دورہ کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود ہندوستان نے سخت احتجاج کیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ہندوستان کا ردعمل غیر ضروری تھا۔ لیکن بہر حال یہاں کی حکومت نے ان کے بیان پر اپنی ناخوشی ظاہر کی۔


سوال یہ ہے کہ ہندوستان نے اس بے ضرر مگر حقیقت پر مبنی بیان پر اتنا شدید ردعمل کیوں دکھایا۔ کیا صرف اس وجہ سے کہ مذکورہ بیان سے ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی ستائش کا پہلو نکلتا ہے۔ اس سوال کا یہی جواب ہے۔ مودی جب 2014 میں پارلیمانی انتخابات کی مہم چلا رہے تھے تو انھوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ ہندوستان کو کانگرس مکت کر دیں گے۔ اس کے بعد سے وہ مسلسل اس کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے پنڈت نہرو کو مسلسل ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔

سنگھ پریوار کی جانب سے الزام عاید کیا جاتا ہے اور اس میں مودی پیش پیش رہتے ہیں کہ نہرو کی پالیسیاں ملک کے مسائل کی جڑ ہیں۔ وہ لوگ مسئلہ کشمیر اور چین کے لیے بھی انہی کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ موجودہ مہنگائی کے لیے یہ حکومت نہرو کو ہی ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں صدر کے خطبہ پر ہونے والی بحث کا جواب دیتے وقت بھی آج کی مہنگائی کے لیے نہرو کو بالواسطہ طور پر ذمہ دار ٹھہرایا۔ انھوں نے اپنی سو منٹ کی تقریر میں 23 مرتبہ نہرو کا نام لیا اور کانگریس کے ارکان پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کو شکایت ہے کہ میں نہرو کا نام لیتا، آج میں صرف انہی کا نام لوں گا، آپ لوگ مزا لیجیے۔


ان کی تقریر کا انداز اور لب ولہجہ کسی وزیر اعظم کا لب و لہجہ نہیں تھا بلکہ کسی سڑک چھاپ نیتا کا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی والوں کا خیال ہے کہ اگر نہرو کی جگہ پر سردار پٹیل ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم ہوتے تو پورا کشمیر ہندوستان میں ہوتا اور ہندوستان نہ صرف یہ کہ بہت طاقتور ملک ہوتا بلکہ تمام مسائل سے نجات پا گیا ہوتا۔ حالانکہ ان لوگوں کے دعوؤں کو تاریخ داں مسترد کرتے ہیں۔

لیکن پنڈت نہرو سے سنگھ پریوار کی نفرت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے ہندوستان کو ہندو اسٹیٹ بنانے کے بجائے ایک سیکولر ملک بنایا۔ ان کے ذریعے قائم کیے جانے والے آئینی ادارے آج ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اسی لیے موجودہ حکومت نہرو کی پالیسیوں کی مخالفت اور مذمت کر رہی اور آئینی اداروں کو کمزور کر رہی ہے۔ اس نفرت کی وجہ سے ہی سنگاپور کے وزیر اعظم کی جانب سے نہرو کی تعریف حکومت کو اچھی نہیں لگی اور اس پر اعتراض کیا گیا۔


سنگھ پریوار کے لوگ کہتے ہیں کہ اگر پٹیل وزیر اعظم ہوتے تو پورا کشمیر ہندوستان میں ہوتا۔ جبکہ سچائی اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایک سابق فوجی عہدے دار اور ہندوستان کی خارجہ اور سیکورٹی پالیسیوں کے ماہر سری ناتھ راگھون نے سات فروری 2018 کو اپنے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ایک موقع پر سردار پٹیل جوناگڑھ کے حصول اور حیدرآباد کے ہندوستان میں الحاق کے عوض پاکستان کو کشمیر دینے کے لیے تیار تھے۔ سرکردہ سیاسی تجزیہ کار اے جی نورانی نے جون 2000 میں موقر جریدے فرنٹ لائن میں لکھا تھا کہ 27 نومبر 1972 کو ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے مقام لنڈی کوتل کے قبائلی جرگہ میں پٹیل کی اس پیشکش کا ذکر کیا تھا۔

نریندر مودی ہندوستان کی تقسیم کے لیے بھی نہرو کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن تاریخ میں سب کچھ درج ہے۔ راگھون کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کے رہنما ونایک دامودر ساورکر نے محمد علی جناح سے 16 سال قبل ہی دو قوموں کا تصور پیش کیا تھا۔ ایک تجزیہ کار شیوم وِج نے ’دی پرنٹ‘ کے لیے لکھے اپنے ایک حالیہ مضمون میں اس کا جائزہ لیا ہے کہ آخر نریند رمودی پنڈت نہرو کو کیوں ہدف تنقید بناتے ہیں۔ ان کے مطابق آر ایس ایس کا یہ مضبوط موقف رہا ہے کہ پنڈت نہرو اس قابل نہیں تھے کہ 1947 میں ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں سونپی جاتی۔ وہ ایسا اس لیے کہتے ہیں کہ پنڈت نہرو نے ہندوستان کو ایک جمہوری اور سوشلسٹ ملک بنا دیا۔


مبصرین کے مطابق پنڈت نہرو نے اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے جو منصوبے بنائے اور جو پالیسیاں اختیار کیں آر ایس ایس اسے اقلیتوں کا تشٹی کرن یا منہ بھرائی قرار دیتا ہے۔ یعنی نہرو نے اقلیتوں اور مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی اپنائی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے محروم طبقات کو باعزت زندگی گزارنے کی پالیسی بنائی تھی۔ پنڈت نہرو نے ایسی پالیسیاں وضع کیں جن کی وجہ سے ان کے ارد گرد ایک دانشورانہ ماحول قائم ہو گیا جو سات دہائیوں تک ملکی سیاست پر حاوی رہا۔ یہ بات سنگھ پریوار سے ہضم نہیں ہو رہی ہے۔

نریندر مودی یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ملک میں نہرو کی سیکولر اور سوشلسٹ پالیسیاں زندہ ہیں ہندوستان کو ہندو اسٹیٹ نہیں بنایا جا سکے گا۔ اسی لیے انھوں نے 014 2 میں کہا تھا کہ وہ ہندوستان سے کانگریس پارٹی کا خاتمہ کر دیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پنڈت نہرو نے ملک میں جو متعدد آئینی، جمہوری و سیکولر ادارے قائم کیے وہ ہندوستان کو ہندو اسٹیٹ بنانے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ انھوں نے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے ساتھ مل کر ملک کا جو آئین بنایا وہ بھی ہندوستان کے ہندو اسٹیٹ بنانے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی لیے آر ایس ایس حلقے سے وابستہ افراد کی جانب سے بار بار آئین کو بدلنے کی بات کی جاتی ہے۔


یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی احساس کمتری میں مبتلا ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی طرح کوئی بڑا وزیر اعظم ابھی تک نہیں آیا۔ اسی لیے وہ پنڈت نہرو کے ’بت‘ کو توڑنا چاہتے ہیں تاکہ وہ خود کو سب سے بڑے وزیر اعظم کی حیثیت سے پیش کر سکیں۔ اس کوشش میں وہ تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی سعی کرتے ہیں اور اکثر و بیشتر دروغ بیانیوں سے بھی کام لیتے ہیں۔ دراصل سنگھ پریوار میں دروغ بیانی کو کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی۔ نریندر مودی آر ایس ایس کے پروردہ ہیں اسی لیے وہ بلا خوف و خطر دروغ بیانی کرتے ہیں اور اسے اپنی سیاسی دانشمندی تصور کرتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔