بی جے پی رہنماؤں پر بدزبانی کا دورہ، عوام صبر سے کام لیں!... سہیل انجم
مشرقی اترپردیش کے حلقہ ڈومریا گنج سے بی جے پی امیدوار راگھویندر پرتاپ سنگھ گزشتہ الیکشن میں مودی لہر کے باوجود سماجوادی پارٹی امیدوار سیدہ خاتون سے محض 171 ووٹوں کے فرق سے کامیاب ہوئے تھے۔
جوں جوں اترپردیش میں انتخابی مہم آگے بڑھ رہی ہے، بی جے پی کی حالت پتلی سے مزید پتلی ہوتی جا رہی ہے۔ حالانکہ پہلے یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ صرف مغربی اترپردیش میں بی جے پی کو لوہے کے چنے چبانے پڑیں گے لیکن اب اندازہ ہو رہا ہے کہ یو پی کے تمام خطوں میں عوام نے بی جے پی امیدواروں کے لیے لوہے کے چنے اکٹھا کر رکھے ہیں جو انھیں چبانے پڑ رہے ہیں۔ اس عمل میں انھیں جس تکلیف سے گزرنا پڑ رہا ہے اس نے ان کے ہوش اڑا دیے ہیں۔ ہوش کے ساتھ ساتھ عقل و خرد کا پرندہ بھی اڑ گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان پر بوکھلاہٹ کا دورہ پڑنے لگا ہے۔ جب کسی پر بوکھلاہٹ کا دورہ پڑتا ہے تو وہ ڈھنگ کی بات نہیں کرتا۔ وہ سمجھ ہی نہیں پاتا کہ اسے کیا کہنا چاہیے کیا نہیں؟ یا وہ جو کچھ کہہ رہا ہے وہ درست ہے یا نہیں؟ یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں بی جے پی کے امیدواروں کو اپنی شکست صاف دکھائی دے رہی ہے وہاں وہاں ان کی زبان بگڑتی جا رہی ہے اور وہ رائے دہندگان کو دھمکیاں دینے پر اتار آئے ہیں۔
مشرقی اترپردیش کے حلقہ ڈومریا گنج سے بی جے پی کے امیدوار ہیں راگھویندر پرتاپ سنگھ۔ وہ گزشتہ الیکشن جیت گئے تھے۔ حالانکہ مودی لہر میں بھی وہ سماجوادی پارٹی کی امیدوار سیدہ خاتون سے محض 171 ووٹوں کے فرق سے کامیاب ہوئے تھے۔ لیکن اس بار ان کی کشتی بیچ بھنور میں پھنس گئی ہے۔ سیدہ خاتون کے آگے ان کی ایک نہیں چل رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ ان کے چھوٹے سے دماغ میں بس یہی بات آرہی ہے کہ مسلمانوں کو گالیاں دو ممکن ہے کہ اسی بہانے ہندو متحد ہو جائیں اور ان کی نیا پار لگا دیں۔ انھوں نے گزشتہ دنوں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جب پچھلی بار وہ جیتے تھے تو مسلمانوں نے گول ٹوپی لگانا چھوڑ دیا تھا۔ اگر وہ پھر جیتے تو وہ پیشانی پر تلک لگانا شروع کر دیں گے۔ ان کی اس بات پر وہاں موجود ان کے چند چمچے تعرے لگانے لگے۔ لیکن عوام پر کوئی اثر نہیں پڑا اور انھوں نے کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
انھوں نے کہا کہ یہاں جے شری رام کا نعرہ لگے گا یا وعلیکم السلام کا؟ ان کے حامیوں نے کہا کہ جے شری رام کا۔ انھوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ درگا دیوی کی قسم کھائیں کہ وہ بی جے پی کو ہی ووٹ دیں گے۔ اسی دوران اذان ہونے لگی۔ اذان کی آواز کان میں پڑتے ہی ان پر مزید بوکھلاہٹ کا دورہ پڑ گیا۔ انھوں نے مسلمانوں کو گیالیاں دیتے ہوئے کہا کہ اذان دینے کے لیے کس سے اجازت لی ہے۔ پھر انھوں نے دھمکی آمیز انداز میں کہا کہ اگر وہ جیت گئے تو مسجدوں سے لاوڈ اسپیکر اتروا دیں گے۔ جن کو اذان دینا ہے وہ مسجدوں میں دیں۔ انھوں نے مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ تو ووٹ کٹوا ہیں۔ ان کو ووٹ کٹوا سے ڈر لگتا ہے کٹُوا سے نہیں۔ خیال رہے کہ مسلمانوں سے خار کھانے والے از راہ تضحیک انھیں کٹُوا کہتے ہیں۔یہ بھی ذہن نشین رہے کہ وہ یوگی کی تنظیم ہندو یووا واہنی کے ریاستی صدر رہ چکے ہیں۔
پریاگ راج سے بی جے پی امیدوار کا نام ہے رام سیوک پٹیل۔ انھوں نے کھلے عام ایک بھرے جلسے میں الیکشن جیتنے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کی دھمکی دی۔ انھوں نے لوگوں سے کہا کہ الیکشن ہر حال میں جیتنا ہے۔ ایک ایک بوتھ کے لیے آپ کو جو بھی کرنا پڑے کرنا ہے۔ جیت حاصل کرنے کے لیے چاہے دنگا فساد ہو یا لات جوتا، پیسہ کوڑی یا شراب بانٹنا ہو یا پھر طاقت دکھانی ہو سب کچھ کرنا پڑے گا اور کریں گے۔ ان کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔
چھتیس گڑھ کے بی جے پی کے ایک لیڈر برج موہن اگروال کی ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں وہ یو پی کے کسی علاقے میں بولتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہم کو ایودھیا میں رام کا مندر چاہیے یا نہیں چاہیے؟ تو رام کا مندر کون بنوا رہا ہے؟ ہم کو متھرا میں کرشن کا مندر چاہیے یا نہیں چاہیے؟ اگر اکھلیش آجائے گا تو کیا مندر بنوائے گا؟ وہ تو مسجد بنوائے گا، قبرستانوں کی باونڈری کروائے گا اور تم کو برقعہ پہنائے گا۔ اسی طرح ایک بی جے پی لیڈر نے کانگریس پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر کانگریس جیت گئی تو تمام ہندووں کے لیے حجاب پہننا ضروری کر دے گی۔
امیٹھی کے حلقہ تلوئی سے بی جے پی کے امیدوار کا نام ہے مینکیشور شرن سنگھ۔ وہ بھی مسلمانوں کے خلاف زہر پاشی کرکے ہندووں کو متحد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ بھی اپنی اس کوشش میں ناکام ہیں۔ انھوں نے ایک انتخابی جلسے میں بولتے ہوئے کہا کہ اگر اس ملک کا ہندو جاگ گیا تو مسلمانوں کی داڑھی نوچ کر چوٹی میں لگا دے گا۔ خیال رہے کہ بہت سے ہندو سر کے بالوں کی چوٹی بناتے ہیں جسے کچھ علاقوں میں چُرکی بھی کہتے ہیں۔ بالخصوص دیہی علاقوں میں یا پنڈت لوگ چوٹی رکھتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان میں رہنا ہے تو رادھے رادھے کہنا ہوگا۔ ورنہ تقسیم کے وقت بہت سے مسلمان پاکستان چلے گئے تھے تم بھی چلے جاؤ۔
فتح پور سے بی جے پی کے امیدوار ہیں رنویندر سنگھ عرف دھنی بھیا۔ انھوں نے اپنے مخالفین کو دھمکایا اور کہا کہ اگر ان کے کانوں میں اونچی آواز پڑی تو دس مارچ کے بعد وہ سب کی گرمی نکال دیں گے۔ اسی طرح گورکھپو رکے نزدیک فریندا سے بی جے پی امیدوار بجرنگ بہادر سنگھ نے مقامی ووٹرس کو دھمکیاں دیں اور ان سے پوچھا کہ پچھلے الیکشن میں ان کے مقابل امیدوار کو 73 ہزار ووٹ کیسے مل گئے۔ اگر ا س بار ان کے مخالفین کو ووٹ گئے تو خیریت نہیں ہوگی۔ اسی طرح تیلنگانہ سے بی جے پی کے ایم ایل سے ٹائیگر راجہ سنگھ نے کہا کہ جو لوگ بی جے پی کو ووٹ نہیں دیں گے وہ سمجھ جائیں کہ یوگی جی کے بلڈوزر ہزاروں کی تعداد میں تیار ہیں۔ دس مارچ کے بعد ان علاقوں کی نشاندہی کی جائے گی جہاں کے لوگوں نے ووٹ نہیں دیا ہوگا اور آپ لوگ جانتے ہیں کہ جے سی بی اور بلڈوزر کس کام میں آتے ہیں۔
صرف یہ چھوٹے لیڈرس ہی نہیں بلکہ بڑے لیڈرس بھی ماحول کو فرقہ وارانہ بنیاد پر خراب کرانا چاہتے ہیں۔ وزیر داخلہ امت شاہ بار بار مسلمانوں کا خوف دکھا کر ہندووں کو متحد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ اگر بی جے پی نہیں جیتی تو (مسلمانوں کے نام لے کر) ان کی حکومت آجائے گی۔ کبھی کہتے ہیں کہ یوپی سے پورے ملک میں دہشت گرد بھیجے جائیں گے۔ کبھی ہندووں کی مبینہ نقل مکانی کی بات کرتے ہیں تو کبھی کوئی اور شوشہ چھوڑتے ہیں۔
انہی کی مانند بلکہ ان سے بھی آگے یوگی آدتیہ ناتھ دوڑ رہے ہیں۔ انھوں نے تو اس الیکشن کو اسی بنام بیس فیصد بنا دیا۔ یاد رہے کہ یو پی میں ہندووں کی آبادی اسی فیصد اور مسلمانوں کی بیس فیصد ہے۔ لیکن جب وہ دیکھتے ہیں کہ اس بیان کا الٹا اثر پڑ رہا ہے تو اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو لوگ بی جے پی حکومت کے ترقیاتی کاموں میں یقین رکھتے ہیں وہ اسی فیصد ہیں اور جو نہیں رکھتے وہ بیس فیصد ہیں۔ لیکن پھر کیا کریں اپنی عادت سے مجبور ہو کر پھر کوئی نہ کوئی فرقہ وارانہ بیان دے دیتے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی بھی پیچھے نہیں ہیں۔ البتہ وہ تھوڑا کم کم کھلتے ہیں۔ لیکن بیان وہ بھی فرقہ وارانہ نوعیت کے دے رہے ہیں۔ یوگی نے تو مظفر نگر اور کیرانہ کے عوام کی گرمی تک نکالنے کی دھمکی دے دی۔
گویا بی جے پی کے متعدد رہنما مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دے کر ایک طرف ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری طرف وہ مسلمانوں کو مشتعل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیںکہ مسلمان ان کی باتوں کو سن کر بھڑکیں اور سڑکوں پر نکل آئیں۔ وہ احتجاج اور مظاہرے کریں تاکہ ان کو سبق سکھانے کا موقع مل جائے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو پھر ہندووں کو متحد کرنے میں آسانی ہوگی۔ لیکن شکر ہے کہ مسلمان بی جے پی لیڈروں کے اس جال میں پھنسنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انھوں نے ایک حکمت عملی کے تحت خاموشی اختیار کر رکھی ہے جو نہ صرف ان کے بلکہ پورے ملک کے مفاد میں ہے۔ ابھی چار مرحلوں کی پولنگ باقی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اس حکمت عملی پر قائم رہیں اور کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی کے شکار نہ بنیں۔ یہ سب وقتی چنگاریاں ہیں جو خو دبخود بجھ جائیں گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔