کیا ہے توشہ خانہ کیس؟
رانا ابرار خالد جو اس زمانے میں ایک ٹی وی چینل کے رپورٹر تھے ان کو معلوم ہوا کہ عمران خان کی حکومت توشہ خانہ کے معاملے میں گڑبڑی کر رہی ہے۔ لہذا انہوں نے معلومات کے لئے قانون کے تحت تفصیلات طلب کیں۔
آج ہر کوئی توشہ خانہ کیس کی بات کر رہا ہے لیکن ہم میں سے اکثر کو اس کیس کا پورا علم نہیں۔ بنیادی طور پر توشہ خانہ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب خزانہ خانہ، لیکن درحقیقت توشہ خانہ حکومت پاکستان کے زیر ملکیت محکمے کا نام ہے جہاں ارکان پارلیمنٹ، وزراء، خارجہ سکریٹریز، وزیراعظم اور صدر کو ملنے والے تحائف رکھے جاتے ہیں۔
ہم توشہ خانہ کیس کی بات کر رہے ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی بہت کم لوگ واقف ہیں کہ یہ مقدمہ کس نے درج کرایا۔ ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے رانا خالد ابرار نے اس معاملے کو اٹھایا اور اگر وہ یہ کیس نہ لیتے تو عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کا کسی کو علم ہی نہ ہوتا۔ اگر انہوں نے سردردی اپنے سر نہ لی ہوتی تو کوئی عدالت تفصیلات کو عام کرنے کا حکم جاری نہ کرتی اور نہ کوئی حکومت تفصیلات جاری کرتی۔ واضح رہے اب 2002 سے موصول ہونے والے تحائف کی تفصیلات منظر عام پر لائی جا چکی ہے۔
رانا ابرار خالد جو اس زمانے میں ایک ٹی وی چینل کے رپورٹر تھے ان کو معلوم ہوا کہ عمران خان کی حکومت توشہ خانہ کے معاملے میں گڑبڑی کر رہی ہے۔ لہذا، اس نے معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت تفصیلات طلب کیں۔ بقول ان کے پہلے ان کو ایک وفاقی سکریٹری نے کروڑوں میں خریدنے کی کوشش کی۔ جب وہ باز نہ آئے تو اسے اور اس کی والدہ کو ایجنسیوں نے ہراساں کیا۔ انہیں دباؤ کی وجہ سے نوکری سے برخاست کیا گیا اور آج تک نہ تو کوئی چینل انہیں نوکری دے سکا اور نہ ہی موجودہ حکومت انہیں واپس لے سکی۔ ان پر جھوٹا مقدمہ بنا کر گرفتار بھی کیا گیا۔
واضح رہے کہ اب کچھ لوگ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی طرح عمران خان اور توشہ خانہ کے حوالے سے ایک ہی جیسا کیس ہے جو کہ سراسر غلط ہے کیونکہ دونوں میں بہت فرق ہے۔ دوسرے حکمرانوں نے غیر اخلاقی کام کیے لیکن غیر قانونی کام نہیں کیے، کیونکہ اس وقت کے قانون کے مطابق وہ ہر تحفے کی قیمت کا بیس فیصد ادا کرتے تھے لیکن عمران خان نے توشہ خانہ کے حوالے سے قانون کی بہت سی خلاف ورزیاں کیں۔ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں اس 20 فیصد سلیب کو بڑھا کر 50 فیصد کر دیا، لیکن الزام ہے کہ قانون بننے کے بعد بھی عمران اور ان کے لوگوں نے 20 فیصد کے پرانے سلیب کے مطابق ادائیگی کی۔
دوسرا یہ کہ قانون کے مطابق ایک کمیٹی نے تحفے کی قیمت کا تخمینہ لگانا تھا لیکن انہوں نے اس کمیٹی سے کبھی تخمینہ نہیں لگوایا اور خود ہی قیمت کا تعین کرتے رہے۔ تیسرا یہ کہ ماضی کے حکمرانوں نے تحفے لیے اور اپنے پاس رکھے۔ چوتھا یہ کہ ماضی میں حکمرانوں نے اپنے پاس رکھے لیکن بیچنے کے ثبوت سامنے نہیں آئے، جبکہ عمران خان نے انہیں رکھنے کے علاوہ آگے بیچ دیا اور الزام ہے کہ بیرون ممالک میں بھی انہوں نے بیچے۔ پانچویں خلاف ورزی یہ تھی کہ تحفے کی رقم کا بیس فیصد عمران خان کے اکاؤنٹ سے خزانے میں جمع نہیں کرائی گئی، بلکہ اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم ان کے اکاؤنٹ میں جمع کرائی گئی، جسے انہوں نے اپنے اثاثوں میں الیکشن کمیشن کو ظاہر نہیں کیا۔ چھٹا یہ کہ عمران نے یہ تحائف بیرون ملک پرائیویٹ جہاز میں فروخت کے لیے بھیجے اور اس طرح کسٹم قوانین کی خلاف ورزی کی گئی اور فروخت سے حاصل ہونے والی رقم دبئی سے بینکنگ چینل کے ذریعے نہیں آئی۔
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی جانب سے قواعد کی خلاف ورزی کے کیس کا حوالہ د یتے ہوا کہا کہ عمران خان کو کئی کروڑ مالیت کی انتہائی مہنگی گھڑی تحفے کے طور پر ملی جسے ان کے دوستوں نے بیرون ملک میں فروخت کیا اور اس کے اوپر انہوں نے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک رسید پاکستان میں تیار کر کے جمع کرائی یعنی جعلسازی بھی کی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ عمران خان نے نہ صرف تحفہ فروخت کیا بلکہ بعد میں جعلی رسید بھی تیار کی۔
واضح ہو کہ اگر کسی رہنما کو تحائف ملتے ہیں اور اس کی قیمت 30 ہزار سے کم ہوتی ہے تو انہیں توشہ خانہ میں جمع کرانے کی ضرورت نہیں، ان تحائف کو وہ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر 30 ہزار سے زیادہ کے تحائف ہیں تو ان کو محکمہ توشہ خانہ میں جمع کرانا لازمی ہے۔
اس طرح اخلاقی لحاظ سے یکساں ہونے کے باوجود عمران خان کا کیس قانونی لحاظ سے دوسروں سے مختلف ہے۔ اسی لیے وہ عدالت میں پیش ہونے سے گریزاں ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اس کیس کی وجہ سے ان کے لئے پریشانیاں بڑھ سکتی ہیں جس کی وجہ سے وہ اس کو سیاسی شکل دے کر اس سے اپنے لئے سیاسی فائدے پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان کی مقبولیت دیگر پاکستانی سیاسی رہنماؤں کے مقابلے زیادہ ہے اور اس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔