فڈنویس: پتھر دل کے عقل پر پتھر!... اعظم شہاب

دوسروں کے لیے گڑھے کھودنے والا خود ایک دن اسی گڑھے میں گر جاتا ہے۔ شیوسینا کو ختم کرنے کی کوشش کرنے میں فڈنویس کے لیے یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ کہیں وہ خود ہی اس گڑھے میں نہ گرجائیں۔

فڈنویس، تصویر آئی اے این ایس
فڈنویس، تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

مہاراشٹر میں فڈنویس کی حالت ایسی ہوچکی ہے کہ مندر گئے تو آرتی ختم اور باہر آئے تو چپل غائب۔ ڈھائی سال کی سخت محنت کے بعد جب مہاوکاس اگھاڑی حکومت گرانے میں کامیاب ہوئے تو پتہ چلا کہ وزیراعلیٰ کی کرسی ایکناتھ شندے کو دینی پڑگئی۔ اسی طرح جب ان کی جھولی میں 106/ایم ایل اے تھے تو انہیں اپوزیشن میں بیٹھنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ کہاں تو وہ اعلان کرتے نہیں تھک رہے تھے کہ ’میں دوبارہ آوں گا‘ لیکن دوبارہ آئے بھی تو اس قدر ہزیمت کے ساتھ کہ ان کے ریاستی صدر کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ دل پر پتھر رکھ کر ایکناتھ شندے کو وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ اتنی سخت محنت کے بعد اگر ان کو یا ان کی پارٹی کو اپنے دل پر پتھررکھنا پڑجائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈھائی سال قبل بغیر کسی محنت کے یہی کام کیوں نہ کرلیا گیا؟ جبکہ اس صورت میں پہلے ڈھائی سال وہ دوسرے نمبر پرضرور رہتے لیکن دوسرا ڈھائی سال تو ان کا کوئی ہاتھ بھی نہیں پکڑسکتا تھا۔ لیکن وہ کہا جاتا ہے نا کہ جب پتھر عقل پر پڑجائے تو سب ہیکڑی ختم ہوجاتی ہے۔ فڈنویس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔

چندرکانت پاٹل کے اس اعترافی بیان کے بعد ظاہر ہے کہ بی جے پی کی بے چینی منظرِ عام پر آگئی۔ سو اس کی لیپا پوتی کے لیے فڈنویس صاحب خود میدان میں کود پڑے۔ لیکن اگروہ خاموش رہ جاتے تو زیادہ ہی بہتر ہوتا کیونکہ اپنی اس کوشش میں انہوں نے چندرکانت پاٹل کے اعتراف پر ہی مہر لگادی۔ انہوں نے کہا کہ چندرکانت پاٹل نے جو باتیں کہی ہیں، وہ ان ابتدائی دنوں کے احساسات تھے، جب حکومت نہیں بنی تھی۔ یعنی شندے کو وزیراعلیٰ بنانے میں بی جے پی نے واقعی اپنے دل پر پتھر رکھ لیا تھا اور یہ پتھر ڈھائی سال تک بی جے پی والوں کو پریشان بھی کرتا رہے گا۔ اب اس صورت میں اگر کوئی شندے صاحب سے یہ پوچھ بیٹھے کہ شیوسینا سے بغاوت کرنے کے نتیجے میں انہیں جو عہدہ ملا ہے، وہ انہیں بادل ِنخواستہ دیا گیا ہے تو بھلا ان کا کیا ردعمل ہوگا؟ جبکہ یہی عہدہ شیوسینا خود شندے کو دینا چاہتی تھی۔ سچائی یہ ہے کہ جب انہوں نے اپنی بغاوت کے پیچھے ’مہاشکتی‘ کے ہونے کا اعتراف کیا تھا اسی وقت یہ بات سامنے آگئی تھی کہ وہ بی جے پی کے اشاروں پر کھیل رہے ہیں اور بی جے پی انہیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔


یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ فڈنویس خود ایک پتھر دل شخص واقع ہوئے ہیں۔ جب ریاست میں ان کی حکومت تھی تو انہوں نے اپنے دیرینہ ساتھی ایکناتھ کھڈسے کے ساتھ جس شقی القلبی کا مظاہرہ کیا، اس سے پوری ریاست کے لوگ واقف ہیں۔ وہ تو اچھا ہوا کہ کھڈسے این سی پی کے ذریعے اسمبلی پہنچ گئے وگرنہ فڈنویس نے تو انہیں گھر بٹھانے کا پورا انتظام کر دیا تھا۔ فڈنویس کے ہی ساتھیوں میں سے ایک پرکاش مہتا ہوا کرتے تھے۔ چونکہ مہتا صاحب کا تعلق براہِ راست گجرات سے تھا اور گجرات کی مرضی کے بغیر نہ وہ کوئی حکومت بناسکتے تھے اور نہ ہی کسی کو کوئی وزارت دے سکتے تھے، اس لیے پرکاش مہتا کو انہوں نے وزیر تعمیرات بنا دیا۔ لیکن آخر کے دنوں میں انہوں نے پرکاش کو بھی دودھ کی مکھی بنا دیا۔ یہی رویہ انہوں نے ونود تاؤڈے کے ساتھ اختیار کیا جو ان کی حکومت میں اقلیتی امور کے وزیر تھے۔ اپنی حکومت کے عین شباب کے درمیان انہوں نے تاؤڈے تاؤ دلاکر وزارت سے علاحدہ کر دیا۔ لیکن شاید ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں رہا ہوگا کہ وہ پتھر جو وہ دوسروں کے سر مار رہے ہیں، ایک دن ان کے ہی عقل پر پڑجائے گا۔

ریاستی بی جے پی کے صدر چندرکانت پاٹل کے اس اعتراف پر کہ دل پر پتھر رکھ کر شندے کو وزیراعلیٰ بنایا گیا ہے، این سی پی کے سربراہ شردپوار کا اسی دن نہایت معنی خیز ردعمل سامنے آگیا۔ شردپوار سے جب چندرکانت پاٹل کے مذکورہ بالا بیان کے بابت پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ’’انہوں نے (بی جے پی) پتھر اپنے دل پر رکھا یا اپنے سر پر، یہ ان کا اپنا معاملہ ہے، ہم اس پر کیا کہہ سکتے ہیں“ لیکن شردپوار نے اپنے اس مختصر بیان میں یہ ضرور بتا دیا کہ نہ صرف چندرکانت پاٹل بلکہ پوری بی جے پی کے عقل پر پتھر پڑ گئے تھے اور اب وہ اس کا خمیازہ بھگتے گی۔ کیونکہ یہ بات اظہرمن الشمن ہے کہ مہاراشٹر میں شیوسینا کو توڑنے میں فڈنویس کا اسی طرح ہاتھ ہے جس طرح ریاستی حکومت گرانے میں بی جے پی کا۔ ایسی صورت میں شیوسینا کا وہ کیڈر جو آج بھی ادھوٹھاکرے کے ساتھ ہے، فڈنویس کے تئیں اس کی ناراضگی نہ صرف بامِ عروج پر ہے بلکہ شندے گروپ کے وجود پر سوالیہ نشان لگا رہا ہے۔ ایسے میں ادھوٹھاکرے کے وہ وفادار شیوسینک خاموش بیٹھ جائیں گے؟ اس کا امکان کم ہے۔ یوں بھی شیوسینکوں نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ ادھوٹھاکرے کی اجازت کا انتظار کر رہے ہیں۔


لیکن اسی کے ساتھ شیوسینا چھوڑ کر بی جے پی کے ساتھ جانے والے شندے اینڈ گروپ کو بھی اندازہ ہوگیا ہے کہ جس بی جے پی نے انہیں وزیراعلیٰ کی کرسی پر بٹھایا ہے، اس کے یہاں ان کی کیا قدر و قیمت ہے۔ چندرکانت پاٹل نے یہ اعتراف کرکے بی جے پی کی اندرونی بیچنی کو منظرِ عام پر لا دیا ہے اور یہ اس شکشت خوردگی کے احساس نے ریاست کی اس نوتشکیل شدہ حکومت کے مستقبل پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ کہاں تو فڈنویس صاحب ریاست کو ایک متبادل حکومت دینے کا اعلان کر رہے تھے لیکن جب حکومت دینے کی بات آئی توان کی عقل پر ہی پتھر پڑگئے۔ کہا جاتا ہے کہ دوسروں کے لیے گڑھے کھودنے والا خود ایک دن اسی گڑھے میں گر جاتا ہے۔ شیوسینا کو ختم کرنے کی کوشش کرنے میں فڈنویس کے لیے یہ اب خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ کہیں وہ خود ہی اس کے شکار نہ ہو جائیں۔ کیونکہ ادھوٹھاکرے کے صاحبزادے ادتیہ ٹھاکرے نے باغیوں کو واپس لینے کا عندیہ ظاہر کر دیا ہے اور ریاست بھر کے شیوسینکوں کے غول کے غول ماتوشری آکر ادھوٹھاکرے سے اپنی وفاداری کا اعلا ن کر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔