گجرات: غلیل سے ہوائی جہاز کا نشانہ!… اعظم شہاب
تیستا کے ذریعے کانگریس پر گجرات حکومت گرانے کا الزام ایسا ہی جیسے غلیل کے ذریعے ہوائی جہاز گرانے کا الزام۔گزشتہ اسمبلی انتخابات سے قبل بھی اسی طرح کی حرکت ہوئی تھی اور اس بار پھر وہی کیا جا رہا ہے۔
ایک شخص کے چہرے پر اس کی ہی ناعاقبت اندیشیوں کے سبب کچھ داغ آگئے۔ چونکہ خود کو وجیہ اور بے داغ ثابت کرنے کے لیے اسے ان داغوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ضرور ی تھا، لہٰذا اس نے اپنے چہرے پر غازہ ملنا شروع کر دیا، مگر داغ نہیں گئے۔ اس نے کئی طرح کے آپریشن بھی کرائے پھر بھی بات نہیں بنی، بلکہ ہو یہ گیا کہ ان داغوں کے ساتھ کچھ اور داغ بھی ابھر آئے۔ پھر اس نے کمال ہوشیاری سے کچھ لوگوں کو اس کام پر مامور کر دیا کہ وہ لوگوں میں یہ مشہور کریں کہ اس کی وجاہت وشباہت کو عیب دار بنانے کے لیے یہ داغ اس کے مخالفین نے لگائے ہیں۔ اس طریقے سے اس نے تین فائدے حاصل کرنے کا ہدف بنایا۔ اول یہ کہ اس کے داغ کو مصنوعی سمجھا جانے لگے گا، دوسرا یہ کہ اس کے مخالفین پر اس کی شبیہ خراب کرنے کا الزام لگ جائے گا اور تیسرا یہ کہ لوگوں کی ہمدردی اسے حاصل ہو جائے گی۔ تینوں صورتوں میں فائدہ اس کا ہی تھا۔
یہ بھی پڑھیں : سچی ’بھاؤنا‘، جھوٹی ’آہت‘... اعظم شہاب
گجرات فسادات میں وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے کچھ ساتھیوں کو 2008 میں ہی ناناوتی و شاہ کمیشن نے کلین چیٹ دے دی، لیکن فسادات میں جانبداری برتنے کے داغ جوں کے توں برقرار رہے۔ پھر 2019 میں گجرات ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج اکشے مہتا کے ذریعے کلین چیٹ دی گئی، پھر بھی بات نہیں بنی۔ گجرات فسادات کی تفتیش کے لیے تشکیل دی گئی خصوصی ایس آئی ٹی نے 2012 میں مقدمہ چلانے کے لیے ثبوتوں کی کمی کا اعلان کیا گیا، مگر داغ تھے کہ مزید ابھر گئے۔ پھر ذکیہ جعفری کی ایس آئی ٹی کے خلاف پٹیشن کے خارج ہونے کو کلین چٹ تصور کیا گیا پھر بھی داغ نہیں گئے۔ اب تیستا ستلواڈ کے ذریعے کانگریس پر ان داغوں کو لگانے کی بات کہی جا رہی ہے، لیکن مشکل یہ ہوگیا کہ اس سے بھی داغوں کی مصنوعیت ثابت نہیں ہوئی، بلکہ کچھ مزید سوالات پیدا ہوگئے۔
پہلا سوال یہ کہ اگر کوئی کمیشن یا ایس آئی ٹی اپنی رپورٹ میں کسی کو کلین چیٹ دیدے تو کیا اسے برأت تصور کیا جائے؟ کیونکہ کمیشنوں یا ٹیموں کا کام محض تفتیش کرنا ہوتا ہے ناکہ فیصلے کرنا۔ وہ اپنے تفتیش کے نتیجے عدالتوں کے سپرد کرتی ہیں اور عدالتوں کے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ اس کو تسلیم یا خارج کر دیں۔ گجرات فسادات کی تفتیش کے لیے جتنے بھی کمیشن یا ٹیمیں تشکیل دی گئیں، ان تمام نے اپنی رپورٹ میں ثبوتوں کی کمی کے سبب کلین چیٹ دینے کی باتیں کہی ہیں۔ یعنی ثبوت تو تھے لیکن وہ اتنے کم تھے یا اس قدر کمزور تھے کہ ان کی بنیاد پر کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جاسکتی تھی۔ قانونی کارروائی کے لیے پختہ ثبوت وشواہد درکار ہوتے ہیں جو اتفاق سے ان کمیشنوں یا ٹیموں کو نہیں مل سکے۔ جبکہ ان کمیشنوں یا ٹیموں کی تفتیش کے دوران متاثرین کی جانب سے کئی بار یہ الزامات سامنے آئے کہ ان کی عرضیوں کو یا تو نظر انداز کر دیا گیا یا پھر سرے سے انہیں سنا ہی نہیں گیا۔
دوسرا یہ کہ تفتیش کا ایک قاعدہ کلیہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جس کے خلاف تفتیش کی جا رہی ہو اس کو اس کے موجودہ عہدے سے ہٹا دیا جائے تاکہ تفتیش صاف وشفاف ہوسکے اور اثراندازی کا کوئی امکان نہ ہو۔ لیکن بدقسمتی سے جن عرصے میں یہ تفتیشیں ہوئیں، ان میں نریندرمودی یا تو گجرات کے وزیراعلیٰ تھے یا پھر ملک کے وزیراعظم۔ ایسے میں یہ تصور کرنا کہ ان تفتیشوں میں تمام حقائق کو پیشِ نظر رکھا گیا ہوگا، ایسا ہی ہے جیسے کوئی سمندر میں رہ کر مگر مچھ کے منھ سے مچھلی باہر نکالے۔ لیکن چونکہ ان رپورٹوں کو عدالتوں نے تسلیم کرتے ہوئے برأت کا بھی اعلان کر دیا ہے، لہٰذا ہم اس کی معتبریت پر کوئی سوال نہیں کرسکتے۔ مگر اسی کے ساتھ کچھ ایسے حقائق کو بھی فراموش نہیں کرسکتے جو ان کلین چٹوں پر خود سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر سپریم کورٹ کے ذریعے تشکیل دی گئی، ایس آئی ٹی ٹیم کی سربراہی سابق سی بی آئی سربراہ آر کے راگھون فرما رہے تھے۔ راگھون صاحب کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ نریندر مودی کے نہایت قریبی شخص تھے، جس کا اعتراف خود انہوں نے اپنی کتاب ’اے روڈ ویل ٹراویلڈ‘ میں کیا ہے۔ انہوں نے تفتیش کے دوران موصوف کے رویے کی جس طرح تعریف فرمائی اس کو پڑھ کر ان کی پرم بھکتی پر مہر لگ جاتی ہے۔ ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے کہ ”خوش قسمتی سے انہیں سپریم کورٹ کا ساتھ ملا۔ میرے لیے یہ دلیل قبول کرنا نہایت مشکل امر تھا کہ ریاستی انتظامیہ ان فسادیوں کے ساتھ جڑا ہوا تھا جو مسلم طبقے کو نشانہ بنا رہے تھے“۔ یعنی راگھون صاحب پہلے ہی یہ بات تسلیم کرچکے تھے کہ ریاستی انتظامیہ کا فساد سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔ اس سوچ کے ساتھ اگر تفتیش ہوئی ہوگی تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نتیجہ کیا رہا ہوگا۔ وزیراعظم بننے کے بعد مرکزی حکومت کی جانب سے راگھون صاحب کو یہ انعام دیا گیا کہ انہیں سائپرس کا سفیر مقرر کر دیا گیا۔
گجرات فسادات کی ضمن میں ٹیسٹا ستلواڈ کے رول کی جانچ کر رہی ایس آئی ٹی نے احمدآباد کے سیشن کورٹ میں داخل کردہ اپنے حلف نامے میں ٹیسٹا پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے اس وقت کے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو بدنام کرنے کی سازش رچی تھی۔ اس کام کے لیے انہیں گجرات کانگریس کے قدآور لیڈر مرحوم احمد پٹیل نے دو قسطوں میں 5 اور 25 لاکھ روپئے دیئے تھے۔ اب احمد پٹیل تو زندہ ہیں نہیں کہ وہ اس کی وضاحت کرتے کہ انہوں نے یہ پیسے تیستا کو دیئے تھے یا نہیں یا اگر دیئے تھے تو کیوں دیئے تھے۔ لیکن بی جے پی کے سمبت پاترا ضرور میڈیا کے پردے پر نمودار ہوگئے جنہوں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ احمد پٹیل نے یہ پیسے سونیا گاندھی کے کہنے پر دیئے تھے اور اس لئے دیئے تھے تاکہ گجرات کی مودی حکومت کو بدنام اور گرایا جاسکے۔ اب بھلا پاترا صاحب سے کون پوچھے کہ 30 لاکھ روپئے میں بھلا ایسی کون سی سرکار ہے جو گرسکتی ہے؟ مہاراشٹر کی سرکار گرانے کے لیے تو ایک ایک ایم ایل اے کو پچاس پچاس کروڑ دیئے جانے کی خبر ہے۔ رہی بات بدنامی کی تو پورا ملک جانتا ہے کہ مرکزی حکومت نے کتنی نیک نامی کمائی ہے کہ آج پوری دنیا میں اس کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے۔ کیا اس سے مرکزی حکومت گرگئی؟
اگر بالفرض احمد پٹیل نے تیستا کو پیسے دیئے بھی تھے تو بھلا اس میں قباحت کیا ہے؟ فرض کیجئے بنگال میں اگر کسی بی جے پی لیڈر کا قتل ہو جائے۔ اس کی بیوی بی جے پی کے کسی بڑے لیڈر کے پاس جاکر یہ کہے کہ میرے شوہر کو مار دیا گیا، میں اپنے شوہر کے قاتلوں کو سزا دلانا چاہتی ہوں اور چاہتی ہوں کہ مجھے انصاف ملے۔ لیکن میرے پاس عدالتی کارروائی اور وکیلوں کی فیس ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ اب اگر اس بی جے پی کے لیڈر نے اس خاتون کو کچھ پیسے دے دیئے یا اس کی کوئی مدد کردی تو کیا اس کو یہ کہا جائے گا کہ وہ بی جے پی لیڈر بنگال کی حکومت کو گرانا چاہتا تھا؟ عجیب منطق ہے یہ۔ یعنی اگر وہی کام بی جے پی کا لیڈر کرے تو حصول انصاف کی مدد قرار پائے اور اگر وہی کوئی کانگریسی کردے تو وہ سرکار گرانا چاہتا تھا۔
سچائی یہ ہے کہ یہ سب گجرات اسمبلی انتخابات کے شوشے ہیں جس کا مقصد اپنے چہرے کے داغ کو مصنوعی بتاکر اپوزیشن کو بدنام کرنا ہے تاکہ الیکشن میں اس کا فائدہ اٹھایا جاسکے۔ تیستا سیتلواڈ کے ذریعے کانگریس پر گجرات حکومت گرانے کا الزام ایسا ہی جیسے کسی کے بارے میں یہ کہا جائے کہ اس نے غلیل کے ذریعے ہوائی جہاز گرانے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح کی کوشش گزشتہ اسمبلی الیکشن سے قبل سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے تعلق سے کی گئی تھی، جس پر الیکشن کے بعد خود مودی جی نے معافی مانگی تھی، اور وہی کوشش اس بار پھر دوہرائی جا رہی ہے۔ لیکن ملک کے عوام خوب سمجھتے ہیں کہ چہرے پر جو داغ لگے ہیں وہ کسی ایس آئی ٹی یا کسی کمیشن کی رپورٹ سے کبھی دور نہیں ہوسکتے۔ بھلے ہی عدالتیں اپنے فیصلوں میں کلین چیٹ دے دیں لیکن تنہائی میں ضمیر کے پردے پر جو چہرہ نظر آئے گا وہ داغدار ہی ہوگا۔
(مضمون میں مضمون نگار کی اپنی رائے ہے، قومی آواز کا ان کی آراء سے کوئی تعلق نہیں ہے)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔