’دیش نہیں بکنے دوں گا‘ کہنے والے دیش بیچنے پر آمادہ!... نواب علی اختر
ان حالات میں یہی کہا جائے گا کہ کیا مودی حکومت کی عقل پر پتھر پڑ گئے ہیں جو سرکاری اداروں کو مضبوط کرنے کے بجائے انہیں ’بیچنے‘ پر آمادہ ہے۔
آج سے تقریباً سات سال پہلے کی بات ہے جب گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی مرکزی اقتدار تک پہنچنے کے لیے کچھ جذباتی جملوں کے سہارے ملک کے عوام کو عجیب عجیب خواب دکھا رہے تھے ۔ یہ وہ وقت تھا جب نریندر مودی وزیر اعظم نہیں تھے اور صرف بی جے پی کی طرف سے وزیر اعظم عہدے کے امیدوار تھے۔ اس وقت انہوں نے گجرات سے باہر نکل کر ملک کے عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے کئی ایسے جملے اور تک بندیوں کا سہارا لیا جو خود ساختہ راشٹر بھکتی کے دعوے کو مضبوطی فراہم کرنے والے تھے۔ اس دوران انہوں نے لوگوں میں بی جے پی کو منوانے کے لیے ملک کی دیگرسیاسی پارٹیوں بشمول کانگریس، جو ملک کی سب سے بڑی اور پرانی پارٹی ہے، کو غدار اور ملک مخالف ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں : ہندوستان میں حقیقت پسندی ختم کرنے کی کوشش!... نواب علی اختر
اپنے جملوں کو مظبوطی دینے کے لیے 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے مشہور موسیقار پرسون جوشی کے گیت ’سو گندھ مجھے اس مٹی کی۔ میں دیش نہیں مٹنے دوں گا‘ کو اپنا انتخابی تھیم بنایا تھا اور 25 مارچ 2014 کو نریندر مودی نے خود ٹویٹ کر کے اس مہم تھیم سانگ کی اطلاع دی تھی۔ پورا گیت پڑھنے پر معلوم ہوگا کہ اس میں ایک لائن ’میں دیش نہیں بکنے دوں گا‘ بھی ہے جس پر لوگ جذباتی ہو کر خوب تالیاں بجاتے تھے کیوںکہ عام لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ اب کوئی ایسا چمتکار ہونے والا ہے جس سے ملک کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ملک کے تاریخی بنیادی ڈھانچے پوری طرح محفوظ رہیں گے۔ حالانکہ ’راشٹر بھکتوں‘ کی یہ خوش فہمی کچھ دنوں بعد ہی زائل ہونے لگی اور چند سالوں میں ہی انہیں احساس ہوگیا کہ ’دیش نہ بکنے‘ دینے کی قسم کھانے والے تو سب کچھ ’بیچنے‘ پرآمادہ ہیں۔
اس وقت ملک کے بھولے بھالے عوام بی جے پی لیڈروں بشمول نریندر مودی کی چکنی چپڑی باتوں سے اس قدرمتاثر ہوئے کہ انہوں نے عقل کے گھوڑے دوڑائے بغیر ہی انہیں اقتدار سونپ کر سونا پیدا ہونے کا خواب دیکھنے لگے۔ مگر عوام اس وقت اپنی عقل پر ہتھوڑنے مارنے پر مجبور ہوگئے جب انہیں معلوم ہوا کہ ’دیش بھکتی‘ پر مشتمل ایک گیت پر یقین کر کے انہوں نے بڑی غلطی کر دی ہے۔ جو نریندر مودی دیش جھکنے اور دیش نہ بکنے دینے کی قسم کھاتے نہیں تھک رہے تھے، وہی جب وزیر اعظم بنے تو خود کو ہی اکل کل سمجھ بیٹھے اور جو دماغ میں آیا اسے کر بیٹھے خواہ اس کا کوئی بھی نتیجہ ہو۔ آج وہ کئی سرکاری ادارے جن سے لاکھوں گھروں کا چولہا جلتا ہے،انہیں ’اپنے سرمایہ دار دوستوں‘ کو بیچ کر لاکھوں لوگوں کے سامنے روزگار کا بحران پیدا کرنے کا اشارہ کردیا ہے۔
بھارت پیٹرولیم کارپوریشن سے لے کر ایئر انڈیا تک کی نجکاری کو لے کر اکثر خبریں گردش کرتی رہتی ہیں لیکن اب پتا چلا ہے کہ حکومت تقریباً 26 کمپنیوں کو پرائیویٹ ہاتھوں میں سونپنے کی تیاری کر چکی ہے۔ ان کمپنیوں میں پون ہنس لمیٹیڈ سے لے کر ہندوستان ایرونا ٹکس لمیٹیڈ تک شامل ہیں۔ اس سے پہلے وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے23 پی ایس یوز کی نجکاری کا اعلان کیا تھا لیکن حال ہی میں 26 کمپنیوں کی نجکاری کا انکشاف ہوا ہے۔ ملک کی واحد بڑی بیمہ کمپنی ایل آئی سی ایل میں سرکاری حصہ داری بیچنے کی کارروائی آخری مرحلے میں ہے۔ ان حالات میں یہی کہا جائے گا کہ کیا مودی حکومت کی عقل پر پتھر پڑ گئے ہیں جو سرکاری اداروں کو مضبوط بنانے کے بجائے انہیں بیچنے پر آمادہ ہے۔ سرکاری کمپنیوں کی نجکاری یقینی طور پر روزگار اور سرکاری خزانے کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
ملک کی تاریخی وراثت کو حکومت کی سرپرستی سے محروم کر دینے سے ملک کی تصویر پر کیا اثر پڑ رہا ہے یہ ’جملے باز‘ نہیں، ایک محب وطن ہی سمجھ سکتا ہے۔اس وقت حکومت نے کئی سرکاری اداروں کو پرائیویٹ سرمایہ داروں کے ہاتھوں فروخت کرنے کا من بنالیا ہے جس کے منفی اثرات مستقبل میں سامنے آئیں گے جب موٹے موٹے کمیشن پر کام کرنے والے کرائے کے لوگ پرائیویٹ کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے عام لوگوں کا استحصال کریں گے اور ان کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالیں گے۔ دیکھا جائے تو مودی حکومت میں سب سے زیادہ سرکاری کمپنیوں کی حصہ داری کو فروخت کیا جارہا ہے۔ مودی سرکار اب ملک کی سب سے بڑی ایندھن کی خوردہ فروش کمپنی بھارت پیٹرولیم (بی پی سی ایل) میں 53.3 فیصد حصہ داری فروخت کرنے کی تیاری میں ہے۔
کہا جارہا ہے کہ سرمایہ کاری کے نام پرسرکاری اداروں کا سودا کرکے مودی حکومت کے دور میں سرکاری کمپنیوں کی حصہ داری یا شیئر بیچ کر بھاری بھرکم رقم جمع کی گئی ہے لیکن یہ کیسی عقلمندی ہے کہ حکومت کی سرپرستی میں کام کرنے والے ادارے جنہیں عالمی شناخت حاصل ہوتی ہے، انہیں سرمایہ داروں کے ہاتھوں بیچ کر سرکاری ادارے کو نجی ادارہ بنا دیا جائے۔ جب کہ روایت یہ رہی ہے کہ تباہی کی دہلیز پر کھڑے پرائیویٹ اداروں کو جس پر ہزاروں لوگ انحصارکرتے ہیں اسے زندہ رکھنے کے لیے حکومت مالی مدد کرتی ہے یا اسے اپنے ہاتھ میں لے کر ناپید ہونے سے بچاتی ہے مگر موجودہ وقت میں تو اس کے برعکس ہورہا ہے۔ اچھی خاصی چل رہی سرکاری کمپنی کی نجکاری کی جارہی ہے۔ نجکاری کا مطلب یہ ہوگا کہ اس ادارے میں حکومت کا مالکانہ حق ختم ہوجائے گا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ مئی 2014 میں مودی حکومت پہلی بار مرکز میں آئی تھی۔ تب سے لے کراب تک اس حکومت میں 121 کمپنیوں کی سرکاری حصہ داری فروخت کی جا چکی ہے۔ حکومت نے اس سے 3.36 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی کمائی کی ہے۔ یہ اعداد و شمار کسی حکومت میں عدم سرمایہ کاری کے ذریعے جمع کی گئی رقم کا سب سے زیادہ حصہ ہے۔ آخر میں یہی کہوں گا کہ 2014 سے لے کر آج تک ’دیش نہیں بکنے دوں گا‘ کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ملک کے وزیر اعظم مودی صاحب کے فیصلوں سے تو یہی ظاہر ہورہا ہے کہ انہوں نے ’دیش نہیں بچنے دوںگا‘ کی قسم کھا رکھی ہے جو اپنے پے در پے فیصلوں سے سرکاری اداروں کو کمزور یا ختم کر کے سرمایہ دار دوستوں کو مضبوط بنا نے کا کام کر رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔