عالمی آواز-9: برطانوی وزیر اعظم جانسن اپنے عہدے کا تو خیال رکھیں... سید خرم رضا

ہندستانی حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے اندرونی مسائل حل کرے اور باہرکےلوگوں کو دخل اندازی کا موقع نہ دے۔ کسی بھی حکومت کے لئے ضد اچھی نہیں ہوتی۔

برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن
برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن
user

سید خرم رضا

نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کااحتجاج دوسرے ممالک کی سرحدوں میں داخل ہو چکا ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بہت کھل کر گرونانک دیو کے یوم پیدائش کی ایک تقریب میں اظہار رائے کی آزادی کو لے کر اپنے خیالات کااظہار کیا۔ ہندوستان کی وزارت خارجہ نےاس کاسخت نوٹس لیا اور اپنے تحفظات سے کینیڈا حکومت کوآگاہ بھی کیا۔ ابھی حال ہی میں برطانیہ کی لیبر پارٹی کے سکھ رکن پارلیمنٹ تنمنجیت سنگھ نے بھی اس مسئلہ کو پارلیمنٹ کے اندر اٹھایا۔ تنمنجیت سنگھ کے سوال کا جواب جو برطانوی وزیراعظم نے دیااس سے سیاست دانوں کی شبیہ کو بہت دھچکا پہنچا ہے۔

تنمنجیت سنگھ نے کسان تحریک پر برطانوی پارلیمنٹ میں کچھ سوال اٹھائے اور اس پر وہاں کےوزیر اعظم بورس جانسن نے جو جواب دیا اس سے کئی سوال کھڑے ہو گئے۔ پہلا اور بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کسی ملک کے اندرونی مسائل پر اگر کوئی دوسرا ملک سوال اٹھائے تو کیا وہ اس ملک کے معاملات میں اندرونی مداخلت نہیں ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک کاوزیر اعظم جس ملک نے ایک زمانہ میں دنیا کے بڑے حصہ پر حکومت کی ہو، وہ سوال کو بغیر سنے اور سمجھے کچھ بھی جواب دے سکتا ہے؟ تیسرا بڑا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی منتخب رکن جس کے والدین کا تعلق ہندوستان سے رہا ہو اور اپنی مذہبی پہچان کی وجہ سے وہ ہندوستانی نظر آ تا ہو تو کیا اس کا سوال صرف ہندوستا ن اور پاکستان سے جڑا ہی ہوگا؟ یہ پہلو غور کرنےاورفکر کرنے کےہیں۔


بدھ کے روز برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی موجودگی میں تنمنجیت سنگھ نے کہا تھا کہ ’’ہندوستان کے کئی علاقوں اور خاص طور پر پنجاب کے کسان جو پر امن احتجاج کر رہے تھے، ان پر پانی کی بوچھاریں اور آنسو گیس کے استعمال کی ویڈیوز پریشان کن ہیں۔‘‘ یہ مدا ٹھاتے ہوئے انہوں نے وزیر اعظم سے سوال کیا تھا کہ کیا وہ اس تشویش سے اپنے ہندوستانی ہم منصب کو آگاہ کریں گے۔ ایوان میں موجود سب ارکان کو حیرانی اس وقت ہوئی جب برطانوی وزیر اعظم نےتنمنجیت سنگھ کے جواب میں وہ کچھ کہا جس کا تنمنجیت کی تشویش اور مدے سےکوئی تعلق نہیں تھا۔ انھوں نے کہا ’’ظاہر ہے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جو بھی ہو رہا ہے وہ تشویشناک ہے۔ یہ ایک متنازعہ معاملہ ہے اور دونوں حکومتوں کو مل کر حل نکالنا ہو گا۔‘‘

واضح رہے اس کے بعد برطانوی وزیر اعظم کے دفتر سےاس بات کی وضاحت سامنے آئی کہ وزیرا عظم نے اس سوال کو غلط سنا اور برطانوی دفتر خارجہ اس معاملہ کو قریب سے دیکھ رہا ہے جبکہ فارن کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس نے اسے انڈیا کا اندرونی معاملہ کہا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم کے دفتر کو بھی یہی موقف اختیار کرنا چاہئے تھا۔


واضح رہے کہ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا تھا ’’صورتحال تشویشناک ہے۔ ہم مظاہرین کے اہل خانہ اور دوستوں کے لیے فکرمند ہیں۔ میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ کینیڈا ہمیشہ سے پر امن احتجاج کے حق میں رہا ہے۔ ہم مذاکرات کی اہمیت پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘ جسٹن ٹروڈو کا بیان بھی سیاست پر مبنی تھا کیونکہ وہاں سکھوں کی بڑی آبادی مقیم ہے۔ کسانوں کا احتجاج نئے زرعی قوانین کے خلاف ہندوستان کا داخلی معاملہ ہے اور اس پر دوسرے ممالک کواپنی رائے دیتے وقت سیاست کو ذہن میں رکھتے ہوئے نہیں بلکہ انسانیت کے بڑے مفاد کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔

ہندستانی حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے اندرونی مسائل حل کرے اور باہرکےلوگوں کو دخل اندازی کا موقع نہ دے۔کسی بھی حکومت کے لئے ضد اچھی نہیں ہوتی۔ اگر اس وقت کسان ان قوانین کو اپنے لئے اچھا نہیں سمجھ رہے تو حکومت ان کو واپس لےلے اور اگر اس کو لگتاہےکہ کچھ ترمیمات کے ساتھ یہ قوانین مستقبل کے لئے اچھے ہیں تو آئندہ جب حالات مناسب ہوں تو اس وقت ضروری اصلاحات، مطلوبہ ترمیمات اورمشورے کے ساتھ یہ قوانین لے آئے۔ ملک کی ساکھ تو اہم ہے ہی، ساتھ میں ملک کے شہریوں کاخیال رکھنا سب سے زیادہ اہم ہے اور حکومت کیونکہ عوام کے ذریعہ اور عوام کے لئے ہے تو عوام کی رائے کو پوری اہمیت دینی چاہئے۔بورس جانسن جیسے لوگوں کو کوئی بھی جواب دینےسے پہلےسوال کو صحیح طرح سے سننا اور سمجھنا چاہئے کیونکہ وہ ایک ذمہ دار ملک کے ذمہ دار عہدے پر فائز ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔