’ہم دو ہمارے دو‘ پارلیمنٹ میں راہل گاندھی کا یہ تبصرہ طنز نہیں ایک افسوسناک حقیقت ہے... م۔ افضل
راہل گاندھی نے جو کچھ کہا ہے اس کے سیاق وسباق کو سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ ملک کے دو بڑے کارپوریٹ گھرانوں سے ہمارے وزیراعظم کی قربت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
11 فروری کو پارلیمنٹ میں بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے ایک پُراثر تقریر کی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مودی سرکار کے دو اعلیٰ رہنما ملک کے دو اعلیٰ صنعت کاروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے خاندانی منصوبہ بندی کے مشہور نعرے ’ہم دو، ہمارے دو‘ کے اصول پر کام کر رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا یہ چار لوگ کون ہیں ان کا نام لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ دو لوگوں کے ذریعے کیے گئے فیصلے سے براہ راست فائدہ ان کے دو صنعت کار دوستوں کو ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ تین کسان مخالف زرعی قانون بھی لے آئے۔
راہل گاندھی نے جو کچھ کہا ہے اس کے سیاق وسباق کو سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ ملک کے دو بڑے کارپوریٹ گھرانوں سے ہمارے وزیراعظم کی قربت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ موجودہ سرکار کے ذریعہ پچھلے کچھ برسوں سے جو کچھ بھی کیا جا رہا ہے اس کے تعلق سے جو تھوڑا بہت میڈیا اور وہ بھی پرنٹ میڈیا میں آتا رہتا ہے اگر اس کا ہی تجزیہ کریں تو یہ بات آئینے کی طرح صاف ہوجاتی ہے کہ موجودہ سرکار اپنے اقدامات اور فیصلوں سے انہیں دونوں کارپوریٹ گھرانوں کو فائدہ پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔ ویسے تو ملک میں اور بھی کارپوریٹ گھرانے ہیں لیکن سرکار کے اقدامات سے براہ راست یا بالواسطہ طورپر فائدہ محض دو گھرانوں کو ہی پہنچ رہا ہے۔ یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں۔ یکم فروری کو بھارت کو آتم نربھر بنانے والا جو بجٹ پیش کیا گیا ہے اس میں بھی لفظوں کے کھیل کے ذریعے انہیں کارپوریٹ گھرانوں کے مفادات کو اولیت دی گئی ہے۔
ہندوستان بنیادی طور پر زراعت پیشہ ملک ہے۔ یہاں کی تقریباً 80 فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہی ہے۔ یہ باتیں ہمارے لیڈروں کے ذریعے بار بار دوہرائی جاتی ہے۔ حالیہ بجٹ کے تمہید میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ کورونا کی وجہ سے ہوئے لاک ڈاؤن میں زراعت نے ملک کی معیشت کو مسلسل سرگرم بنائے رکھنے میں بنیادی رول ادا کیا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کسانوں کی فلاح وبہبود کا دعویٰ کرنے والی مودی سرکار نے بجٹ میں کسانوں کے لئے کوئی فنڈ مختص نہیں کیا۔ یہاں تک کہ قرض میں ڈوبے ہوئے کسانوں کو بھی کسی طرح کی رعایت نہیں دی گئی۔ اوپر سے سرکار بدستور نئے زرعی قوانین کے فائدے گنوا رہی ہے اور انہیں لاگو کرنے کی ضد پر اڑی ہوئی ہے۔
دوسری طرف ملک کے کسان پچھلے تین مہینے سے دہلی کی سرحدوں پر اپنے حقوق کو لے کر احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ قوانین جن کو اصلاح کے نام پر لایا گیا ہے ہمارے وزیرا عظم کا اصرار ہے کہ یہ کسانوں کے مفاد میں ہے اور ان کو لاگو کرتے ہی ان کی زندگیوں میں ایک عظیم انقلاب آجائے گا۔ لیکن ان قوانین کے مضمرات کے بارے میں جس طرح کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے اس پر وزیراعظم یا ان کی کابینہ کے کسی ممبر نے اب تک وضاحت نہیں کی۔ ان بلوں کو چور دروازے سے لایا گیا ہے۔ نہ تو پارلیمنٹ میں کوئی بحث ہوئی اور نہ ہی اپوزیشن پارٹیوں سے کوئی صلاح ومشورہ کیا گیا۔
ہمارے وزیراعظم بہت سادگی سے یہ الزام لگاتے ہیں کہ اپوزیشن پارٹیاں کسانوں کو گمراہ کر رہی ہیں۔ اگر لمحہ بھر کے لئے ان کے اس الزام کو سچ مان لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ وزیراعظم نے اپوزیشن پارٹیوں کو اس پر کھلی بحث کی چنوتی کیوں نہیں دی؟ مطلب صاف ہے ’دال میں کچھ کالا نہیں پوری دال ہی کالی ہے۔ دنیا کے مشہور فلسفی پلیٹو نے ایک بار کہا تھا کہ جمہوریت ہی سے آمریت جنم لیتی ہے ان کی یہ بات آج کے ہندوستان پر صد فیصد لاگو ہوتی ہے۔ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہر آئینی ادارے کو کمزور کر دیا گیا ہے، انہیں پوری طرح مفلوج کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ عدلیہ بھی اس وقت سخت دباؤ میں ہے۔ میڈیا نہ صرف سرکار کی ہمنوائی کررہا ہے بلکہ ایک مخصوص طبقے کے خلاف مسلسل منفی رپورٹنگ کے ذریعے دھڑلے سے ان کی کردار کشی کر رہا ہے اور میڈیا کی مانیٹرنگ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی ایک ہوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ ہر طرف ڈر اور خوف کا ماحول ہے۔ ملک کو ایک پولیس اسٹٹیٹ میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ چنانچہ ہم اب ایک جمہوریت نما آمریت کے دور میں داخل ہوچکے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اب سچ بولنا اور احتجاج کرنا بھی جرم ٹھہرایا جاچکا ہے۔
آج جو لوگ اقتدار میں ہیں وہ تاریخ کی اس سچائی کو جھٹلا رہے ہیں کہ احتجاج اور تحریک کے بطن سے ہی ملک کی آزادی کا سورج طلوع ہوا تھا۔ ہم ایک جمہوری ملک کے شہری ہیں، ہمارے وزیر اعظم جب غیر ملکی دوروں پر جاتے ہیں تو وہاں فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارا ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے لیکن جب جمہوریت میں دی گئی شخصی آزادی کا استعمال کرتے ہوئے ہمارے کسان اپنے حقوق کی بازیافت کے لئے احتجاج کرتے ہیں تو پہلے تو انہیں دہشت گرد اور وطن مخالف قرار دیا جاتا ہے اور جب اس سے بھی بات نہیں بنتی تو انہیں عوام کی عدالت یعنی پارلیمنٹ میں ہمارے وزیراعظم ’آندولن جیوی‘ کے نام سے منسوب کر دیتے ہیں اور جو لوگ کسان تحریک کی مدد یا تعاون کر رہے ہیں انہیں ’پَرجیوی‘ یعنی دوسروں پر زندہ رہنے والا قرار دے دیا جاتا ہے۔ وزیراعظم نے اس طرح کی اصطلاحوں کے ذریعے یہ باور کرانا چاہا ہے کہ کانگریس اور دوسری پارٹیاں، غیرسرکاری تنظیمیں اور لوگ جو آج کسانوں کی حمایت کر رہے ہیں وہ اس تحریک کے سہارے خود کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ اکثریت کے غرور میں سرکار اب تک من مانیاں کرتی آئی ہے۔ ان کی مخالفت بھی ہوئی مگر کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ کئی طرح کے قانون لوگوں پر جبراً تھوپے گئے۔ سرکار کو یہ خوش فہمی تھی کہ وہ زرعی قوانین بھی کسانوں پر تھوپنے میں کامیاب ہوجائے گی، لیکن پانسہ الٹا پڑ گیا۔ چنانچہ اول دن سے کسان تحریک اور اس کے لیڈروں کو توڑنے اور کمزور کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ انہیں بدنام بھی کیا جارہا ہے۔ 26 جنوری کو لال قلعہ میں جو کچھ ہوا وہ اسی سلسلے کا ایک حصہ ہے لیکن کسان بہت سخت جان ثابت ہوئے۔ سرکار کو انہوں نے بیک فٹ پر لا دیا ہے۔ زرعی قوانین کو لے کر پارلیمنٹ سے لے کر سڑکوں تک سفید جھوٹ بولا جارہا ہے۔
11 فروری کو راہل گاندھی نے پارلیمنٹ میں ان قوانین کی دھجیاں اڑا دیں اور ان میں جو کچھ ہے اسے عوام کے سامنے پیش کردیا۔ انہوں نے اپنی تاریخی تقریر میں کہا کہ اس قانون کا پہلا مقصد منڈی نظام کو ختم کرنا ہے۔ اس کے تحت صنعت کار کسان سے کسی بھی طرح کا اناج، سبزیاں اور پھل خرید سکتا ہے اور اگر کسان کسی طرح کی مخالفت کرتا ہے تو وہ عدالت بھی نہیں جاسکتا۔ راہل گاندھی نے کہا کہ قانون کا دوسرا مقصد ضروری اشیاء قانون کو ختم کرنا ہے۔ اس کے تحت صنعت کار کسان سے جتنا چاہے پھل، اناج، سبزیاں خرید سکتے ہیں اور اسے اسٹور کرکے رکھ سکتے ہیں، اس پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوسکتا۔ تیسرے قانون کے تحت اگر کسان، صنعت کار سے اپنی چیزوں کی قیمت میں اضافہ کرنے کو کہتا ہے تو اس کا یہ مطالبہ نہیں مانا جائے گا اور اس کے خلاف وہ کسی طرح کی قانون چارہ جوئی بھی نہیں کرسکے گا۔
راہل گاندھی نے یہ باتیں پارلیمنٹ میں کہیں اور اگر یہ غلط ہیں تو وزیراعظم یا ان کی پارٹی کے کسی ممبر نے اس پر اب تک کوئی صفائی کیوں نہیں دی۔ ظاہر ہے ظلم اور جبر سے جو فیصلہ منوانے کا عادی ہو اسے کوئی جمہوری طریقہ کیوں کر راس آسکتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم راجیہ سبھا میں چار ممبروں کی رخصتی پر جذباتی ہوکر آنسو بہا دیتے ہیں مگر کسانوں کی شہادت پر ان کی زبان کو تالا لگ جاتا ہے اور اگر راہل گاندھی تحریک کے دوران شہید کسانوں کی یاد میں پارلیمنٹ میں چند منٹ کی خاموشی اختیار کرتے ہیں تو ایک طوفان کھڑا ہوجاتا ہے اور ایوان کے معزز اسپیکر کہتے ہیں کہ ایسا کرکے آپ نے ایوان کی توہین کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایوان کے ممبروں کی رخصتی پر آنسو بہائے جاسکتے ہیں تو کسانوں کی شہادت پر خاموشی کیوں اختیار کی جاتی ہے؟ کیا کسان انسان نہیں ہے اور کیا وہ اس عوام میں شامل نہیں ہے جو جمہوریت میں اپنا نمائندہ منتخب کرکے پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔