قانون سازی کی آڑ میں منافرت: مسلمانوں سے بنیادی حق چھین لینے کی تیاری... م۔ افضل
فرقہ پرستوں کی سوچ یہ ہے کہ جس طرح میانمار سے ظلم وزیادتی کی وجہ سے روہنگیا مسلمان وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اسی طرح ایک دن ظلم وزیادتی سے مجبور ہو کر ہندوستان کا مسلمان بھی ہجرت کرجائے گا۔
مودی سرکار کے اقتدار میں آتے ہی مذہبی شدت پسندی کو بڑھاوا دینے اور مسلمانوں کے خلاف اکثریت کو صف بند کرنے کی دانستہ سازشیں شروع ہوگئی تھیں، مگر اب اس میں کچھ زیادہ شدت آگئی ہے، سی اے اے اور این آر سی کو اسی سازش کا حصہ سمجھا جانا چاہیے لیکن چونکہ ان دونوں کے تعلق سے اکثریتی فرقے کے بڑے حلقے نے کسی طرح کی گرم جوشی کا اظہار نہیں کیا۔ چنانچہ اب جبکہ مودی سرکارکی ایک ایک کرکے تمام ناکامیاں سامنے آتی جا رہی ہیں اور عوام میں اس کو لیکر مایوسی اور غم وغصہ کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے، تو اب قانون سازی کی آڑ لیکر ایک بار پھر پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف منافرت کا ایک نیا کھیل شروع ہوگیا ہے، اس میں نام نہاد لوجہاد کو لیکر ہوئی قانون سازی سرفہرست ہے، اترپردیش کی یوگی سرکار نے اس کی پہل کی اس کے کچھ ذرا پہلے اتراکھنڈ کی بی جے پی سرکار مذہبی آزادی کے تعلق سے ایک قانون بناچکی تھی اب حال ہی میں مدھیہ پردیش میں بھی لوجہاد کو لیکر ایک سخت قانون لے آیا گیا ہے، اس میں بین مذہب شادیوں کو قانونی طور پر جرم ٹہرا دینے کی کوشش ہوئی ہے۔
حالانکہ سچائی یہ ہے کہ ملک میں لوجہاد جیسی کوئی چیز نہیں ہے صدیوں سے بین مذاہب شادیاں یہاں ہوتی رہی ہیں لیکن کبھی اس عمل کو جرم نہیں سمجھا گیا، درحقیقت لوجہاد کا جس طرح پروپیگنڈہ کیا گیا اور اب اس پر قانون بھی لے آیا گیا اس سے یہ ظاہر ہوگیا کہ اس کا مقصد مسلم نوجوانوں کو کسی نہ کسی بہانے جیلوں میں ٹھونسنا ہے، اور اترپردیش میں اب یہی ہونے لگا ہے، کچھ عرصہ پہلے خاندانوں سے متعلق ایک غیر سرکاری تنظیم نے اپنی سروے رپورٹ تیار کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان میں محض 2.8 فیصد خواتین ہی غیر مذاہب میں شادیاں کرتی ہیں، اور ان میں بھی عیسائی خواتین سب سے زیادہ ہیں، رپورٹ کے مطابق 3.5 فیصدعیسائی خواتین غیر مذاہب میں شادیاں کرتی ہیں اس کے بعد سکھ خواتین ہیں جن کے یہاں اس کا فیصد3.2 فیصد ہے ہندووں میں محض 1.5 فیصد رجحان غیر مذاہب میں شادیاں کرنے کا ہے آخرمیں مسلمان ہیں ان کے یہاں غیر مذاہب میں شادیاں کرنے کا رجحان محض 0.6 فیصد ہے۔
ایک خبر رساں ایجنسی نے سرکاری ذرائع کے حوالہ سے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ اب تک اترپردیش پولیس نے اس طرح کے 16 معاملوں میں ایف آئی آر درج کی ہے، ان میں 85 افراد کو نامزد کیا گیا ہے، 54 لوگ گرفتار ہوچکے ہیں، اس قانون کے تعلق سے ماہرین نے جس خدشہ کا اظہارکیا تھا وہ سچ ثابت ہو رہا ہے، یوگی آدتیہ ناتھ نے اعلان کیا تھا کہ اس قانون کے نفاذ میں کسی طرح کا امتیاز نہیں برتا جائے گا، لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ 54 گرفتار شدہ مسلمان ہیں جبکہ ہندو لڑکوں کی مسلم لڑکیوں کے ساتھ شادی کے معاملہ میں ابتدائی رپورٹ تک نہیں لکھی جا رہی ہے اور اس طرح کے جوڑوں کو پولیس باقاعدہ تحفظ فراہم کر رہی ہے، درحقیقت یہ قانون کسی بھی شہری کی آزادی اور خود مختاری پر حملہ ہے جبکہ آئین میں شہریوں کو اس کا اختیار دیا گیا ہے آئین نے ہر شہری کو یہ آزادی بھی دی ہے کہ وہ اپنی پسند اور ناپسندیدگی کا اظہارکرنے کے لئے آزاد ہیں۔
مذہبی آزادی کے ساتھ ہر شہری کو اپنی پسند کی شادی کا بھی اختیار اس میں دیا گیا ہے کچھ عرصہ پہلے لاء کمیشن نے اس طرح کے الزامات کی تصدیق کے لئے ایک کمیٹی بھی بنائی تھی جس نے اپنی رپورٹ میں یہ کہا ہے کہ لوجہاد کا اب تک کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا ہے، اب اگر اس کے بعد بھی اس طرح کا کوئی غیر آئینی اور امتیازی قانون بنایا جاتا ہے تو یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ اس کے پیچھے کیا مقاصد کار فرما ہوسکتے ہیں۔ پچھلے دنوں ملک کے لئے بیش بہاخدمات انجام دینے والے سو سے زائد سابق آئی ایس افسران نے یوگی آدتیہ ناتھ کو ایک کھلاخط لکھ کر اس قانون پر اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اترپردیش اب نفرت، تفریق اور شدت پسندی کا مرکز بن گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ قانون اقلیتوں کے خلاف ایک سازش ہے، اور انہیں پریشان کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔
اسی دوران الہ آباد اور کولکتہ ہائی کورٹوں کے دو ایسے فیصلے بھی آئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ عدالت کسی شہری کو اپنی پسند کی شادی کرنے سے نہیں روک سکتی، کولکتہ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر کوئی بالغ اپنی پسند سے شادی کرتا ہے یا مذہب تبدیل کرلیتا ہے تو اس میں عدالت مداخلت نہیں کرسکتی ہے، الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ مرادآباد کے راشد اور اسلم کی گرفتاری کے معاملہ میں دیا ہے، راشدنے پنکی نامی ایک لڑکی سے کافی پہلے شادی کی تھی اور اب وہ ماں بننے والی تھی، تفصیلات کے مطابق راشد جب اپنی شادی کا رجسٹریشن کرانے گیا تو بجرنگ دل کے لوگ وہاں پہنچ گئے انہوں نے اس کو بری طرح مارا پیٹا اور پولیس نے اسے جبراً تبدیلی مذہب کرانے کے الزام میں گرفتار کرلیا اسی دوران پنکی کے ساتھ بھی دھینگامشتی ہوئی جس سے اس کا حمل ضائع ہوگیا، اہم بات یہ ہے کہ اول دن سے لڑکی اور اس کی ماں اس طرح کے الزام کو بے بنیاد قراردے رہی تھیں۔
المیہ یہ ہے کہ اقتدار کے غرور میں یوگی اور دوسرے لوگ یہ سوچنے کو تیار نہیں ہیں کہ اس قانون سے کس طرح آئین کی بے حرمتی ہوئی ہے، اور کس طرح شہریوں کے بنیادی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے، اسی دوران کرناٹک میں گئو ذبیحہ کے خلاف ایک آرڈینس لے آیا گیا ہے، وہیں آسام میں مدرسوں کے خلاف ایک بل اسمبلی میں پیش کیا جاچکا ہے، اس بل کی منظوری کے بعد آسام میں سرکاری مدرسوں کی حیثیت عام تعلیمی اداروں جیسی ہوجائے گی، یہ بل ریاستی وزیر ہیمنت بسوا لے کر آئے ہیں، جو کبھی کانگریس میں ہوا کرتے تھے مگر بی جے پی میں آنے کے بعد سے مسلسل مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ یہ سب منصوبہ بند طریقہ سے ہو رہا ہے، ایک ایسے وقت میں کہ جب ملک کی معیشت دم توڑ چکی ہے روزگار ٹھپ ہیں، نوکریاں ختم ہو رہی ہیں اور مودی سرکار ہر محاذ پر ناکام ہوچکی ہے، ان سب کے درمیان کسانوں کو دو کارپوریٹ گھرانوں کا بندھوا مزدور بنانے کی جس طرح سازش ہوئی اور زراعت کے تعلق سے ایک ساتھ تین قانون چور دروازے سے لے آئے گئے اس سے پورے ملک کا کسان نہ صرف سخت ناراض ہے بلکہ وہ اس کے خلاف ایک ماہ سے زائد عرصہ سے اس بلا کی ٹھنڈ میں دہلی کی سرحدوں پر دھرنا دے رہے ہیں۔
اب عام لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آچکی ہے کہ ترقی کے نام پر مودی سرکار اور تو کچھ نہیں کر پا رہی ہے جو کچھ ملک کے پاس ہے وہ اسے بھی کارپوریٹ گھرانوں کے حوالہ کرتی جا رہی ہے، پورے ملک میں اس وقت سرکار کے خلاف ناراضگی اور غصہ کی ایک شدید لہر ہے، آرایس ایس کے نظریہ ساز اس بات کو محسوس کرچکے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ایک بار پھر پورے ملک میں مذہبی شدت پسندی کا جنون پیدا کرنے کی ہر ممکن کو شش ہو رہی ہے، پچھلے دنوں مدھیہ پردیش کے اندور اور مندسور جیسے شہروں کے دیہی علاقوں میں جو کچھ ہوا وہ تو محض ایک جھانکی ہے، ایودھیا میں مندر کی تعمیر کو لیکر جس طرح سپریم کورٹ نے سرکار کو ذمہ داری سونپی ہے اس سے فرقہ پرستوں کو کھل کر منافرت کا کھیل کھیلنے کا ایک طرح سے قانونی جواز مل گیا ہے، اندور، اجین اور مندسور کے گاؤں میں رام مندر کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کرنے کی آڑ میں بھگوا جلوس نکالا گیا اور اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے اور پھرمسلم بستیوں پر دھاوابول دیا گیا۔
اپنی ناکامی کو چھپانے اور اقتدارکو برقرار رکھنے کے لئے بی جے پی آنے والے دنوں میں اسی طرح ملک بھر میں رام مندر کی تعمیر کے لئے چندہ کریگی، بھگوا جلوس نکالے جائیں گے، اشتعال انگیزیاں ہوں گی اور پھر فسادات برپا کرکے اکثریت کے ذہنوں میں شدت پسندی کا ایک نیا جنون بھرا جائے گا، مایوس کن پہلویہ ہے کہ اس کے خلاف کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھ رہی ہے، اور اگر کوئی آواز اٹھاتا بھی ہے تو اسے مودی مخالف گینگ میں شامل کر دیا جاتا ہے، ملک میں ایک عدد قومی انسانی حقوق کمیشن بھی ہے، قومی اقلیتی کمیشن نام کا ایک دوسرا ادارہ بھی ہے مگر یہ دونوں اہم ادارے پچھلے 6 برس سے خاموش ہیں، حیرت کی بات تویہ ہے کہ چین میں ایغورمسلمانوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں پر ہمارے لوگ خاموش نہیں رہتے، میڈیا بھی اس پر خوب خبریں چلاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ چین میں مسلمانوں کے حقوق پامال ہو رہے ہیں، لیکن خود اپنے ملک میں مسلمانوں کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے اس پر ان میں سے کوئی بھی کچھ سوچنے یا بولنے کو تیار نہیں، ملک کا میڈیا بھی ان معاملوں میں سرکار کی ہمنوائی کرتا نظر آتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : مسلمان آخر نئے سال کا جشن منائے تو منائے کیسے!... ظفر آغا
غالباً فرقہ پرستوں کی سوچ یہ ہے کہ جس طرح میانمار سے ظلم و زیادتی کی وجہ سے روہنگیا مسلمان وہاں سے ہجرت پر مجبور ہوگئے اسی طرح ایک دن ظلم و زیادتی سے مجبور ہو کر ہندوستان کا مسلمان بھی کہیں ہجرت کرجائے گا، لیکن یہ ان کی خام خیالی ہے، ہندوستان کا مسلمان کہیں ہجرت نہیں کرنے والا۔ ملک کا آئین اسے تحفظات فراہم کر رہا ہے، یہ اور بات کہ آئین کی ہدایات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، لیکن جب تک ملک کا سیکولر آئین موجود ہے مسلمان مایوس نہیں ہے یہ اور بات کہ اس وقت وہ سخت بحرانی اور نازک دورسے گزر رہا ہے لیکن کل کو یہ دور بھی گزر جائے گا، حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے اس لئے مسلمانوں کو مایوس ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے بلکہ انہیں اپنے فہم و ادراک سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔