اشتہاری وکاس کا سچ!... اعظم شہاب
نیتی آیوگ نے اپنی رپورٹ حکومت کی سنجیدگی اور دور رس منصوبہ بندی کے مظہر کے طور پر پیش کی تھی لیکن اس نے حکومت کی اشتہاری وکاس کی سچائی کو ملک کے عوام کے سامنے اجاگر کر دیا۔
اشتہارات کے ذریعے ترقی کے بلند وبانگ دعووں کی عمارت کو نیتی آیوگ کی اس رپورٹ نے زمیں بوس کردیا جو گوکہ تیارحکومت کی سنجیدگی کے مظہر کے طور پرکی گئی تھی مگر نااہلی اجاگر ہوگئی۔ اس رپورٹ کا مقصد یہ بتانا تھا کہ حکومت عوام کی ملٹی ڈائینوشنل یعنی ہمہ جہت ترقی چاہتی ہے اور اسی کے مطابق منصوبے تیار کئے جا رہے ہیں یا کئے جائیں گے، لیکن اس کے منظرِ عام پر آجانے سے بی جے پی کی حالت اس شخص کی سی ہوگئی ہے جو ایک پھٹے ہوئے رومال سے پورے جسم کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ کیونکہ ملک کی سب سے زیادہ غریب ریاستوں میں اول 5 میں سے 4 میں بی جے پی کی حکومت ہے یعنی وہاں بی جے پی کی ڈبل انجن والی حکومت ہے اور جن ٹاپ فائیو ریاستوں میں غربت کی شرح سب سے کم ہے یعنی غربت دور کرنے میں جن ریاستوں نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے وہاں بی جے پی کے پوتر قدم ابھی تک نہیں پڑے ہیں۔ اس رپورٹ کے آنے کے بعد سے وکاس پروش بننے والے کئی مہاپروش اپنا منھ چھپاتے نظر آنے لگے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : چائے سے گرم کیتلی کے آنسو!... اعظم شہاب
نیتی آیوگ جو پہلے پلاننگ کمیشن کہلاتا تھا وہ پہلے ملک میں غربت کا پیمانہ ناپتا تھا اور یہ طے کرتا تھا کہ ملک میں کتنے لوگ غریبی کی سطح سے اوپر اور کتنے لوگ غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اسے بی پی ایل اور اے پی ایل کہا جاتا تھا یعنی بلو پاورٹی لائن اور اباؤ پاورٹی لائن۔ لیکن پلاننگ کمیشن کے نیتی آیوگ میں تبدیل ہونے کے بعد اس نے اپنا پہلا انڈیکس جاری کیا اور اپنی کارکردگی کو نمایاں کرنے کے لئے اس نے اسے ملٹی ڈائینوشنل پاورٹی انڈیکس (ایم پی آئی) کا نام دیا یعنی ایک ایسا انڈیکس جس میں صرف غربت ہی نہیں بلکہ معیارِ زندگی، صحت اور تعلیم کو بھی موضوعِ مطالعہ بنایا گیا ہے۔ نیتی آیوگ کا کہنا ہے کہ اس انڈیکس کے ذریعے ملک کے عوام کی موجودہ غربت کی صورت حال سمجھنے میں آسانی ہوگی اور اسی کی بناء پر آئندہ کے منصوبے تیار کئے جائیں گے۔ نیتی آیوگ کے وائس چیئرمین راجیو کمار کے مطابق ایم پی آئی ایک اہم ٹول بنے گا، اس کے ذریعے ملک میں جتنے غریب ہیں ان سب کو ساتھ لے کر ہم ترقی کریں گے۔ اس رپورٹ کا ریفرنس پریڈ 2015-16 کا ڈیٹا ہے۔ اس مطالعے میں 12 پوائنٹ شامل کئے گئے ہیں جن میں غذائیت، بچوں اور نومولودوں کی اموات، قبل از پیدائش دیکھ بھال، اسکول کی تعلیم، بچوں کی اسکولوں میں حاضری، کھانا پکانے کا ایندھن، صفائی، پینے کا پانی، بجلی، رہائش اور بینکوں کے اکاؤنٹ وغیرہ شامل ہیں۔
جو ٹائپ فائیو ریاستیں نیتی آیوگ کی ملٹی ڈائینوشنل پاورٹی انڈیکس (ایم پی آئی) میں سب سے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں ان میں سرِ فہرست بہار ہے جہاں کی نصف سے زائد یعنی تقریباً 52 فیصد آبادی غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یہاں پر نتیش کمار کی قیادت میں بی جے پی اور جے ڈی یو گزشتہ 15سال سے حکومت پر قابض ہے۔ دوسرے نمبر پر جھارکھنڈ ہے جہاں گوکہ فی الوقت جے ایم ایم کی حکومت ہے لیکن دو سال قبل تک یعنی 2019 سے پہلے وہاں بھی بی جے پی کی ہی حکومت تھی۔ تیسرے نمبر اترپردیش ہے جہاں پر یوگی جی کے ذریعے وکاس کی گنگا بہانے کے باوجود 38 فیصد آبادی غریب ہے۔ چوتھے نمبرپر مدھیہ پردیش ہے جہاں کی تقریباً 37 فیصد آبادی غربت کے نیچے ہے اور یہاں درمیان کا دو سال (2018 سے 2020) اگرنفی کردیا جائے تو 2005 سے شیوراج سنگھ کی حکومت ہے۔ پانچویں نمبر پر میگھالیہ ہے جہاں 33 فیصد لوگ غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور یہاں بھی بی جے پی اپنے اتحادی پارٹیوں کے ساتھ حکومت کر رہی ہے۔ گویا ٹائپ فائیوسب سے زیادہ غریب آبادی والی ریاستوں میں سے اگر جھارکھنڈ کی گزشتہ دوسالہ حکومت کو علاحدہ کردیا جائے تو یہ تمام ریاستیں بی جے پی کی ہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : پنجاب نہیں، معاملہ اتر پردیش چناؤ کا ہے… ظفر آغا
اس کے برعکس غریبی دور کرنے میں سب سے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی جو ٹاپ فائیو ریاستیں ہیں ان میں ایک گوا کو چھوڑ کر کہیں بھی بی جے پی نہیں ہے اور گوا میں بھی وہ کس طرح حکومت میں شامل ہے اس سے ہر کوئی واقف ہے۔ گوا میں 2017 سے قبل تک کانگریس کی حکومت رہی ہے اور 2017 کے انتخاب میں وہاں کانگریس نے 17 سیٹیں حاصل کی تھیں جبکہ بی جے پی کے پاس13 سیٹیں تھیں۔ لیکن حکومت سازی کے لئے بی جے پی کی ایک پالیسی یہ بھی ہے کہ اگر کہیں وہ ہار جائے تو خریدوفروخت سے سرکار بنالیتی ہے سو گوا میں بھی اسی طرح سے سرکار بنائی گئی۔ بہر حال ان ریاستوں میں سرِ فہرست کیرالا ہے جہاں 0.71 فیصد لوگ غریب ہیں۔ دوسرے نمبر گوا کا ہے جہاں 3.76 فیصد آبادی غریب ہے، تیسرا نمبر سکم کا ہے جہاں 3.82 فیصد غریب ہیں، چوتھے نمبر پر تامل ناڈوہے جہاں 4.89 فیصد غریبی ہے اور پانچواں نمبر پنجاب ہے جہاں غریبی 5.59 فیصد ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ سب سے کم غریبی والی یہ ریاستیں کسی ایک ہی سمت میں واقع ہیں۔ کیرالا اورتامل ناڈو جنوب میں ہیں، سکم شمال مشرق کے ایک کونے میں ہے، گوا مغربی کنارے پر ہے، پنجاب شمال میں واقع ہے۔ اس لئے یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ غربت کی وجہ ریاستوں کی جغرافیائی محل وقوع ہے۔ دراصل غربت کی وجہ صرف اور صرف سیاسی وجوہات کی بناء پر ہے اور یہ حکومتوں کی اہلیت و کارکردگی کا نتیجہ ہیں۔
نیتی آیوگ کی رپورٹ کا سب سے زیادہ دلچسپ حصہ بہار اور اترپردیش کا ہے جو پہلے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ بہار حکومت کے ترقی کے دعووں اور اشتہارات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ پوری ریاست ترقی سے شرا بور ہوچکی ہے۔ معاشی سروے 2019-20 کے مطابق بہار میں غریبی کی شرح 33.7 ہے جو قومی شرح غریبی سے زیادہ ہے۔ دیہی علاقوں میں یہ شرح شہری علاقو ں کے مقابلے زیادہ ہے اور بہار ہی ملک کی وہ واحد ریاست ہے جہاں کی 90 فیصد آبادی آج بھی گاؤں میں رہتی ہے۔ اس سے وہاں کے لوگوں کی معاشی صورت حال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ریاست کے وزیراعلیٰ نتیش کمار اپنی شبیہ ’وکاس پروش‘ کے طور پر قائم کرنے کی دن رات کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن ایم پی آئی رپورٹ نے ان کے ترقی کے بلندوبانگ دعوؤں کو خاک میں ملا دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ اس رپورٹ کے آنے کے بعد گزشتہ جمعہ کو جب صحافیوں نے نتیش کمار سے اس رپورٹ کی بابت دریافت کیا تو وہ اس کے بارے میں کوئی جواب ہی نہیں دے سکے۔ انہوں نے کہا کہ کس رپورٹ کی بات کر رہے ہیں؟ میں نے ابھی تک وہ رپورٹ نہیں دیکھی۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہی وہ ریاست ہے جہاں راتوں رات کئی لاکھ بیت الخلاء بنائے جانے کی رپورٹ آئی تھی اور جب مشہور جرنسلٹ پنیہ پرسون واجپئی نے اس رپورٹ کی سچائی کو عوام کے سامنے پیش کیا تو انہیں اے بی پی نیوز سے علاحدگی اختیار کرنی پڑی تھی۔
اترپردیش کی صورت حال بہار سے کچھ کم مختلف نہیں ہے۔ یہاں پر چونکہ چند ماہ میں انتخابات ہونے والے ہیں اس لئے ترقی کی دریا یہاں کچھ زیادہ ہی تیز رفتاری سے بہنے لگی ہے۔ شاید ہی ایسا کوئی دن گزرتا ہو جب وزیراعلیٰ یوگی اپنی مسکراتی تصویر کے ساتھ ملک کے اخبارات و نیوز چینلوں پر اشتہارات میں ریاست کی ترقی وخوشحالی کا دعویٰ کرتے نظر نہ آتے ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ دعوی کرنے کی ہڑبڑاہٹ میں وہ کبھی کولکاتا کا فلائی اور اپنے نام کرلیتے ہیں تو کبھی چین کے ائیرپورٹ کے ڈیزاین کو نوئیڈا انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا ڈئزائن بناکر پیش کردیتے ہیں۔ لیکن ریاست کی جو صورت حال ہے وہ یوگی جی کی اشتہاربازی کی مہم اور دعوے سے قطعی مختلف ہے۔ نیتی آیوگ نے اپنی جو رپورٹ پیش کی ہے اس کے مطابق ریاست کی نصف سے زائد آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ نوازائدہ بچوں کی اموات اور قلت تغذیہ معاملے میں یہ ریاست ملک کی تمام ریاستوں سے آگے ہے۔ مرکزی حکومت یوں تو ہر وہ رپورٹ اور ڈیٹا تلف کردیتی ہے یا منظرِ عام پر نہیں آنے ہی نہیں دیتی ہے جس سے اس کی نااہلی اور وناکامی ظاہر ہوتی ہو، لیکن نیتی آیوگ کی اس رپورٹ کو جو اس نے اپنی سنجیدگی اور دور رس منصوبہ بندی کو اجاگر کرنے کے لئے لائی تھی، اس نے اس کی اشتہاری وکاس کی سچائی کو ملک کے عوام کے سامنے اجاگر کر دیا۔ اسے کہتے ہیں گئے تھے گنگا میں اشنان کرنے تو پیر ہی پھسل گیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔