گردن کے گرد حلقہ تنگ ہو رہا ہے، پایہ تخت ہل رہا ہے... عبید اللہ ناصر

امریکی ارب پتی اور دنیا کے جانے مانے مخیر جارج سورس نے کہا کہ اڈانی گروپ کے سامراج میں اتھل پتھل نے سرمایہ کاری کے حساب سے ہندستان پر اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے۔

پی ایم مودی، تصویر یو این آئی
پی ایم مودی، تصویر یو این آئی
user

عبیداللہ ناصر

گونگے نکل پڑے ہیں زباں کی تلاش میں
سرکار کے خلاف یہ سازش تو دیکھئے
ان کی اپیل ہے کہ انھیں ہم مدد کریں
چاقو کی پسلیوں سے گزارش تو دیکھئے

(دشینت کمار)

اڈانی گیٹ کو لے کر مودی حکومت کی مشکلات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ مودی اور اڈ انی ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں ایک کے بغیر دوسرے کا وجود زیادہ دنوں چل نہیں سکتا اس،لئے مودی حکومت اور اور اس کے تحت پورا نظام اڈ انی کے بچاؤ میں اتر آیا ہے اور کمال بےشرمی سے عوام کی گاڑھی کمائی کے اربوں روپیہ ڈوب جانے اور تاریخ کے بدترین گھپلے کو راشٹرواد کی چادر میں لپیٹ کر اسے ملک کے خلاف سازش قرار دیا جا رہا ہے۔ اڈانی گروپ نے جو کچھ کیا جس طرح ماریشس اور دوسرے کیریبین ممالک میں فرضی (شیل) کمپنیاں قائم کر کے مختلف بینکوں اور بیمہ کارپوریشن کو لوٹا وہ سب کچھ سامنے آ رہا ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت بنا چوں چرا مشترکہ پارلیمانی کیمٹی سے جانچ کے اپوزیشن کے مطالبہ کو تسلیم کر لیتی کیونکہ بطور حزب اختلاف وہ ہر ایسے واقعات کی جانچ کے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل کرنے اور نہ مانے جانے پر پارلیمنٹ ہنگامہ کرتی رہی ہے یہاں تک کہ 2 جی معاملہ پر تو اس نے پورا ایک اجلاس ہی ہنگامہ کی نذر کر دیا تھا۔ یہی نہیں جب معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو اس نے وہاں بھی کھیل کرنے کی کوشش کی اور سپریم کورٹ میں کہا کہ وہ بند لفافہ میں جانچ میں شامل کئے گئے لوگوں کے نام عدالت کو دیگی اسے امید تھی کی رفائیل کی طرح اس بار بھی سپریم کورٹ اسکی بات مان لیگا لیکن اس بار معاملہ گوگوئی جیسے چیف جسٹس کے پاس نہیں بلکہ جسٹس چندرا چوڑ کے پاس ہے انہوں اس سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ حکومت جانچ میں شامل کے جانے والے افراد اور افسروں کے نام عوامی طور سے ظاہر کرے کیونکہ یہ اربوں روپیہ کی لوٹ کا معاملہ ہے اسکی جانچ میں شفافیت ہونی چاہئے اور عوام کو ان لوگوں کے نام معلوم ہونے چاہیں جو جانچ کرینگے۔


دوسری طرف بی بی سی نے گجرات فساد کے دوران مودی جی کے کردار پر ایک ڈاکومنٹری فلم جاری کر دی حالانکہ اس فلم میں کوئی نئی بات نہیں تھی دنیا اس سے واقف تھی یہاں تک کہ بطور وزیر اعلی مودی کے امریکہ آمد پر پابندی بھی لگی تجی جو انکے وزیر اعظم بننے کے بعد وقتی طور سے ہٹی ہے اور ہو سکتا ہے جب وہ اس کرسی سے ہٹیں تو یہ پابندی پھر لگ جائے۔ دوسرے یہ ڈاکومنٹری فلم ہے جو دستاویزی ثبوتوں پر مبنی ہوتی ہے وویک آگنی ہوتری کی کشمیر فائل کی طرح تخیلات پر مبنی نہیں ہے پھر بھی مودی حکومت نے اسکے دکھانے پر پابندی لگا دی وہ یہ بھل گئی کہ آج کے اس انٹیر نیٹ کے دور میں ایسی کوئی پابندی کامیاب نہیں ہو سکتی اور جو چاہے یو ٹیوب پر آسانی سے دیکھ سکتا ہے پھر بھی حکموت نے اپنی طاقت کا احساس کرانے کے لئے یہ غیر جمہوری قدم اٹھایا اور اپنی کامیاب دیرینہ روش کے مطابق اسے بھی ہندستان کو بدنام کرنے کی ایک سازش قرار دیا۔ حکومت یہیں پر نہیں رکی اس نے بی بی سی کے دہلی اور بنگلورکے دفتروں پر انکم ٹیکس کے چھاپے بھی ڈالنے شروع کر دئے حالانکہ انکم ٹیکس محکمہ اسے چھاپے نہیں بلکہ سروے کہہ رہا ہے لیکن سروے کے لئے افسروں کی فوج اور پولیس کے دستے لے جانے صحافیوں کے موبائل لیپ ٹاپ کمپیوٹر وغیرہ ضبط کرنے کی کیا ضرورت تھی دوسرے سروے بی بی سی کے ذمہ اروں کو دستاویزوں سمیت اپنے دفتر پر طلب کر کے بھی ان دستاویزوں کی جانچ کی جا سکتی تھی۔ حکومت ہکمرتران جماعت اسکے چھوٹے بڑے کارکن اس کی رثواۓ زمانہ ٹرول برگیڈ تو درکنار بےشرمی کی حدیں پر کرتے ہوے ہندستانی میڈیا کا ایک بڑا طبقہ بھی اپنے اوپر ہونے والے اس حملہ کو حق بجانب قرار دے رہا ہے یہی وجہ ہے کی عالمی رینکنگ میں ہندستانی میڈیا نچلی ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔

اڈانی گروپ کی کارستانیوں کو لے کر شارٹ سیلر ہںڈن نبرگ کی رپورٹ کے بعد عالمی ہلچل کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے امریکی ارب پتی اور دنیا کے جانے مانے مخیر جارج سورس نے کہا کہ اڈانی گروپ کے سامراج میں اتھل پتھل نے سرمایہ کاری کے حساب سے ہندستان پر اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے لیکن یہ ہندستان میں جمہوریت کی حیات نو کے دروازہ کھول سکتا ہے۔ میونخ سلامتی کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اس معاملہ پر خاموش ہیں لیکن انھیں ہندستانی ممبران پارلیمنٹ اور عالمی سرمایہ کاروں کے سوالوں کا جواب دینا چاہئے۔انھوں نے پیش گوئی کی کہ اس کے بعد ہںدستان پر مودی کی گرفت کمزور ہوگی اور بیحد ضروری ادارہ جاتی اصلاحات کے دروازے کھلیں گے۔ میں ہندستان میں جمہوریت کی حیات نو کی امید کرتا ہوں۔ اس سے پہلے بھی وہ دیواس کے ایسے ہی اجلاس میں مودی حکومت کی نکتہ چینی کر چکے ہیں وہاں انہوں نے نے کہا تھا کی راشٹرواد ہندستان کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور یہاں تک کہہ دیا کہ ہندستان جمہوری ملک ہے لیکن مودی جمہوری نہیں ہے۔ اس سے قبل وہ چین کے زی شنگ پی اور ڈونالڈ ٹرمپ کی بھی سخت نکتہ چینی کر چکے ہیں۔ 92 سالہ مسٹر سورس اپنی بیباکی خیراتی اور فلاحی کاموں نیز سرمایہ کاری میں مہارت کے لئے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے پیش گوئی کی ہے کہ مودی سرکار کی سرپرستی کے باوجود اڈ انی گروپ پر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہونا ناممکن ہے اور انکی یہ پش گوئی اڈانی گروپ کے شیروں کو لے کر آج تک کے حالات سہی ثابت کر رہے ہیں۔


لیکن جیسا کہ امید تھی اور جیسا کہ اب تک ہوتا آیا ہے حکومت، مرکزی وزرا، بی جے پی کے بدزبان ترجمان، اسکی ٹرول بریگیڈ یہاں تک کی آر ایس ایس کا ترجمان اخبار پانچ جنیہ سب پنجے جھاڑ کر ان لوگوں کے پیچھے پڑ گئے جو مودی حکومت سے سوال پوچھ رہے ہیں جیسے جمہوری نظام میں سوال پوچھنا نہ صرف سب سے بڑا جرم بلکہ ملک دشمنی بھی ہے یہاں تک کہ پانچ جنیہ نے سپریم کورٹ کو بھی دیش دروہی قرار دے دیا۔ اسمرتی ایرانی جیسی وزرا کو چھوڑئے ایس جے شنکر جیسا کیریئر ڈپلومیٹ جو ریٹائرمنٹ کے بعد وزیر خارجہ بنا دئے گئے وہ بھی بھکتوں جیسی زبان استعمال کر کے اپنے شاندار کیریئر کو داغدار بنا رہے ہیں۔ا سمرتی ایرانی نے سوریس کے بیان کو ہندستان کے خلاف اعلان جنگ قرار دے دیا اور بتایا کہ اس جنگ میں مودی ہمدستان دشمن طاقتوں کے سامنے کھڑے ہیں انہوں نے انکشاف کیا کہ سوریس نے ہندستانی جمہوریت کو تباہ کرنے کے لئے ایک ارب ڈالر کا فنڈ اکٹھا کیا ہے محترمہ کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ حکموت ہند اور اس کا خفیہ محکمہ بشمول ’را‘ اب تک اسکا انکشاف کیوں نہیں کر سکا اور سوریس کے اس بیان کے بعد ہی ان پر یہ وحی کہاں سے اور کیسے نازل ہو گئی۔

در اصل یہ روایتی مودی اسٹائل ہے۔ جب وہ گجرات کے وزیر اعلی تھے تو انکی حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھانا گجرات کی اسمیتا (عزت/وقار) پر سوال اٹھانا قرار دیا جاتا تھا اور اب جب وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں تو ایسے سوال ملک دشمنی قرار دے جانے لگے جبکہ سوال اٹھانا حکومت کی نکتہ چینی کرنا یہاں تک کہ اس پر الزام لگانا بھی جمہوریت کا حصہ اور فعال جمہوریت کی نشانی سمجھے جاتے ہیں۔ الزام لگانا اپوزیشن کا حق اور جواب دینا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ایک زمانہ تھا جب ہمارے ایوان میں حکمران جماعت کے ممبران ہی اپنی حکومت پر سوال کھڑا کر دیتے تھے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے داماد اندرا گاندھی کے شوہر اور راہل گاندھی کے دادا فیروز گاندھی نے پہلی ہی لوک سبھا میں بدعنوانی کے ایک معاملہ کو اتنی زورر شور سے اٹھایا کہ پنڈت نہرو کو اپنے وزار مالیات کرشنمچاری سے استعفا لینا پڑا انہوں نے ذاتی رشتے اور پارٹی ڈسپلن کے نام پر فیروز گاندھی کو خاموش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ آکسائی چن کے مسلہ پر جب ایوان میں وزیر اعظم نہرو نے کہا کہ وہ زمین کا ایک ایسا ٹکرا ہے جس پر ایک گھاس نہیں اگتی تو کانگریس کے ہی ممبر مہابیر تیاگی نے کھڑے ہو کر اپنا گنجا سر دکھایا اور پنڈت نہرو سے پوچھا میرے سر پر بال نہں اگتے کیا میں اپنا سر کٹوا دوں۔ایوان میں قہقہہ گونج اٹھا خود پنڈت نہرو بھی ہنس دئے لیکن نہ ان پر کوئی تادیبی کارروائی ہوئی نہ انھیں ملک دشمن قرار دیا گیا۔


ایک بات تو پکی ہے 2024 تک مودی کے گرد دائرۂ اور تنگ ہوگا بات ہندستان سے نکل کر عالمی سطح تک پہنچ گئی ہے ہر عالمی رینکنگ میں چاہے وہ جمہوریت کا معاملہ ہو حقوق انسانی کا معاملہ ہو اقلیتوں کے حقوق اور انکے تحفظ کا معاملہ ہو میڈیا کی آزادی کا معاملہ ہو ہندستان کا نمبر نیچے ہی آ رہا ہے۔ اندرون ملک حکومت کی جمہوریت مخالف حرکتوں آئینی اداروں کی بے توقیری بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں اقلیتوں کا عرصۂ حیات تنگ کرنا اور ان ریاسدتوں کو پولیس اسٹیٹ بنا دینا راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے ان سب کے خلاف ایک بیداری تو پیدا کر دی ہے۔ علاقائی پارٹیوں میں بھی یہ احساس دھیرے دھیرے پیدا ہونے لگا ہے کہ اگر ان حالات کو نہ روکا گیا تو ملک میں نہ صرف جمہوریت کا جنازہ نکل جائیگا بلکہ خود انکا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ 2024 کے عام انتخابات میں کیا ہوگا یہ پیش گوئی کرنا تو فضول ہے کیونکہ جو مودی نوٹ بندی جی ایس ٹی لاک ڈ اؤن کورونہ جیسی تباہ کن پالیسیوں خراب حکمرانی اور بے عملی کے باوجود الیکشن جیت سکتا ہے اسکا ادانی گیٹ جیسے واقعات اور سوریس جیسے لوگوں کے بیان کیا نقصان کر پائینگے لیکن پایہ تخت ہل رہا ہے یہ بھی حقیقت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔