مہاراشٹر گنوانے کے صدمے سے بی جے پی ابھی تک باہر نہیں نکل سکی... اعظم شہاب
مہاراشٹر میں بی جے پی مہاوکاس اگھاڑی حکومت کو غیرمستحکم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتی ہے۔ وہ ابھی تک اس صدمے سے باہر نہیں نکل سکی ہے کہ ملک کی معاشی راجدھانی اس کے ہاتھ سے چھن چکی ہے
مہاراشٹر کی مہاوکاس اگھاڑی حکومت نے بالآخر اپنی سالگرہ منا ہی لی۔ اس تناظر میں اگر بی جے پی لیڈران کے دعووں اور کوششوں کو پیشِ نظر رکھا جائے تو اسے ایک چمتکار ہی کہا جائے گا، کیونکہ اس ایک سال میں وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے کو جتنی محنت اپنی حکومت کو چلانے میں صرف کرنی پڑی ہے اس سے کہیں زیادہ سازش ومنصوبہ بندی بی جے پی کو ادھوٹھاکرے کی حکومت کو گرانے میں کرنی پڑی ہے۔ ان سب کے باوجود مہاوکاس اگھاڑی نے بھرپور کامیابی کے ساتھ نہ صرف اپنی ایک سال کی مدت پوری کرلی بلکہ اس کی کارکردگی اور حکومت میں شامل تینوں پارٹیوں کے آپسی تال میل کو دیکھتے ہوئے یہ بات یقینی معلوم ہوتی ہے کہ یہ اپنی بقیہ 4 سالہ معیاد بھی مکمل کرلے گی۔ گوکہ بی جے پی نے ابھی تک اپنی ہار نہیں مانی ہے اور اس کے سابق ریاستی صدر راؤ صاحب دانوے اعلان کرچکے ہیں کہ آئندہ 2 سے 3 ماہ کے درمیان حکومت گر جائے گی، مگر ایسا لگتا ہے کہ ان دو تین ماہ کے درمیان حکومت کے بجائے ریاستی بی جے پی ضرور ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جائے گی کیونکہ سیاسی گلیاروں میں یہ خبر اب عام ہوچکی ہے کہ بی جے پی کے تقریباً تین درجن لیڈران جن میں بیشتر ممبرانِ اسمبلی ہیں، پارٹی چھوڑنے کے لیے پرتول رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : بہار: کانگریس ہی موردِ الزام کیوں؟... اعظم شہاب
ایک سال قبل ریاستی اسمبلی انتخابات سے قبل کانگریس و این سی پی میں بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔ بی جے پی کے لیڈران اس دوران فخریہ اعلان کرتے تھے کہ روزآنہ ہمیں پارٹی میں شامل ہونے کے خواہشمند لیڈران کی فہرست میں ناموں کا اضافہ کرنا پڑتا ہے، اس لیے اب ہم نے فہرست بنانی ہی چھوڑ دی ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ نقصان این سی پی کو اٹھانا پڑا تھا جس کے دو درجن سے زائد لیڈران نے پارٹی کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ اب سنا جارہا ہے کہ وہ تمام لیڈران پارٹی صدر کی خوشامد میں لگے ہوئے ہیں کہ بڑے صاحب کو راضی کرکے انہیں دوبارہ پارٹی میں شامل کیا جائے۔ یہی حال کچھ کانگریس کا بھی ہے۔ کانگریس کے وہ لیڈران جو بی جے پی میں شامل ہوئے تھے، خبر یہ ہے کہ انہوں نے اب اپنے پوسٹروں و بینروں پر بی جے پی کو ہٹا دیا ہے۔ وہ ممبئی سے لے کر دہلی تک اپنے گھرواپسی کے لیے دروازہ کھلوانے میں مصروف ہیں، مگر کانگریس اس کے لیے تیار نظر نہیں آرہی ہے۔ ایسے میں ریاستی بی جے پی کے سابق صدر دانوے کے مذکورہ بالا دعویٰ کی اہمیت احمقوں کی جنت میں رہنے والوں کے دعوے جیسی ہی معلوم ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : لو جہاد ایک بہانہ ہے، چناؤ اصل نشانہ ہے... ظفر آغا
مہاوکاس اگھاڑی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی پر نظر ڈالیں تو یہ ایک سال کی مدت ادھو ٹھاکرے حکومت کے لیے بہت ہی اتھل پتھل کی رہی ہے۔ ایک جانب بی جے پی کی ریشہ دوانیاں، حکومت کو کمزور کرنے کی سازش، ممبرانِ اسمبلی کو خریدنے کی کوشش تو دوسری جانب سے کورونا کی وبا، ریاست میں بے موسم بارش سے کسانوں کی فصلوں کو ہونے والے نقصانات، سیلاب کی تباہ کاریاں ان سب نے حکومت کو ایک ایسی آزمائش میں ڈال دیا تھا جس سے ایسا لگ رہا تھا کہ و ہ ان میں الجھ کر رہ جائے گی۔ مگر ادھوٹھاکرے نے اس صورت حال میں بھی جس طرح حکومت کی سربراہی کی، اس نے مہاراشٹر کی سیاسی روایت میں ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ بی جے پی کے پیسے اور مرکزی اقتدار کے طاقت کی یلغار کو جھیلتے ہوئے ادھو ٹھاکرے نہ صرف ریاست کے کسانوں کے لیے ایسی پالیسی ترتیب دینے میں کامیاب ہوئے جس کے تحت کسانوں کو ان کے نقصانات کا ہرجانہ مل رہا ہے بلکہ کورونا کی وبا کو روکنے کے لیے بھی انہوں نے ایسے اقدامات کیے کہ وہ تمام ریاستیں بھی انہیں خطوط پرکام کرنے پر مجبور ہوگئیں جن کے یہاں کورونا مریضوں کی تعداد مہاراشٹر کے مقابلے بہت کم تھی۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ ادھوٹھاکرے مزاجاً سیاسی ہماہمی سے دور رہنے والے لیڈر ہیں۔ حکومت سازی کی ابتداء میں مہاوکاس اگھاڑی میں شامل لیڈارن تک کا خیال تھا کہ وہ حکومت کی زمام کار بہتر طور پر نہیں سنبھال سکیں گے اور انہیں مضبوط معاونین کی ضرورت ہوگی۔ جبکہ بی جے پی کا خیال تھا کہ جس طرح ادھو ٹھاکرے کے والد بال ٹھاکرے ریموٹ کنٹرول سے حکومت چلاتے تھے، اسی طرح ادھوٹھاکرے بھی کریں گے۔ مگر اسمبلی کے پہلے اجلاس میں ادھوٹھا کرے نے جس طرح بی جے پی اور اس کے لیڈران کو آڑے ہاتھوں لیا اور اپنی ترجیحات عوام کے سامنے رکھیں تو بی جے پی کو اندازہ ہوا کہ جس ادھو ٹھاکرے کو انہوں نے میٹھی گولی سمجھا تھا، وہ تو لوہے کے چنے ثابت ہوئے۔ کووڈ کے ابتدائی ایام میں انہوں نے عوامی رابطے کی جو مثال قائم کی وہ پورے ملک میں صرف پردھان سیوک کے حصے میں آتی ہے، مگر وہ بھی یک طرفہ طور پر۔ پردھان سیوک اپنے عوامی رابطے میں اپنے من کی بات کو ترجیح دیتے ہیں مگر ادھوٹھا کرے نے اپنے عوامی رابطے میں عوام کو براہ راست شامل کرلیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ریاست کے عوام کا اعتماد ادھو ٹھاکرے حکومت پر مضبوط سے مضبوط ہوتا چلا گیا۔
مہاراشٹر میں بی جے پی مہاوکاس اگھاڑی حکومت کو غیرمستحکم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتی ہے۔ وہ ابھی تک اس صدمے سے ہی باہر نہیں نکل سکی ہے کہ ملک کی معاشی راجدھانی اس کے ہاتھ سے چھن چکی ہے۔ اپنے اس صدمے کے سبب وہ جو حرکتیں کر رہی ہے اس سے عوامی سطح پر وہ مزید برہنہ ہوتی جا رہی ہے۔ تازہ ترین مثال شیوسینا کے ممبراسمبلی پرتاپ سرنائیک کے خلاف ای ڈی کی کارروائی ہے جن پر ایم ایم آر ڈی اے کو سیکوریٹی فراہم کرنے والی ایک کمپنی سے 7 کروڑ روپئے رشوت لینے کا الزام ہے۔ اس معاملے میں دلچسپ بات یہ سامنے آئی کہ اس کمپنی کو کنٹریکٹ سابق وزیراعلیٰ دیوندر فڈنویس نے دیا تھا، اور رشوت کا الزام پرتاپ سرنائیک پر عائد ہے۔ پرتاپ سرنائیک پر ای ڈی کی کارروائی جاری ہے اور پرتاپ سرنائیک نے اسے بی جے پی کی جانب سے انہیں شیوسینا سے توڑنے کا الزام عائد کیا ہے اور ایہ اعلان کیا ہے کہ وہ کسی طور پر بی جے پی کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ پرتاپ سرنائیک کے اس الزام کے بعد جب ایم ایم آر ڈی اے کے کنٹریکٹ دینے کے طریقہ کار کی تفتیش سامنے آئی تو معلوم ہوا کہ اس کے پسِ پشت راست طور پر بی جے پی کی وہی سیاست کار فرما ہے جس کا مظاہرہ اس سے قبل کرناٹک، مدھیہ پردیش و راجستھان میں ای ڈی و سی بی آئی کے ذریعے ہوچکا ہے۔ ریاست کی مہاوکاس اگھاڑی کی کامیاب سالگرہ نے بی جے پی کو ایسی بوکھلاہٹ میں مبتلا کردیا ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتی جا رہی ہے۔ ابھی چارسال باقی ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ ان چارسالوں میں بی جے پی کی ہواس باختگی کے مزید کچھ مظاہرے عوام کی لطف اندوزی کا سبب بنیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔